عمران خان سمیت تحریک انصاف کے متعدد رہنماؤں کے کاغذات نامزدگی مسترد: ’اب مائنس ون انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے
پاکستان تحریکِ انصاف کے بانی اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کاغذاتِ نامزدگی لاہور کے بعد میانوالی سے بھی مسترد ہونے کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں اور سابق ارکان پارلیمان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کیے جانے کے حوالے سے پیغامات شیئر کیے جا رہے ہیں۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے تاحال اس حوالے سے تفصیلی فہرست تو جاری نہیں کی گئی ہے لیکن انفرادی طور پر ریٹرننگ افسران کی جانب سے مختلف حلقوں میں امیدوار کو آگاہ کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کی جانب سے شائع کی گئی ایک ٹویٹ میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے اہم رہنماؤں میں سے تقریباً 90 فیصد کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ اس دعوے کی حوالے سے الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا ہے تاہم کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پی ٹی آئی خیبر پختونخوا ساؤتھ کے ریجنل صدر اور سابق رکنِ پارلیمان شاہد خٹک کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی ان پر موجود مقدمات کے باعث مسترد کیے گئے ہیں اور وہ اس کے خلاف اپیل کریں گے۔
این اے 166 سے پی ٹی آئی کی امیدوار کنول شوذب کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی اس لیے مسترد کیے گئے کیونکہ ان کے تائید کنندہ اور تجویز کنندہ کو حراست میں لیا گیا اور حراساں کیا گیا۔
پی ٹی آئی کی وکلا ٹیم کے رکن نعیم پنجوتھا کے مطابق ان کے کاغذاتِ نامزدگی پی پی 80، پی پی 71 اور این اے 82 سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے تاہم یہ مسترد کر دیے گئے۔
این اے 83 اسامہ میلہ کی جانب سے بھی ٹویٹ کیا گیا ہے ان کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد کر دیے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی اور یاسمین راشد کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے۔ اس کے علاوہ سابق وزیر اور رہنما پی ٹی آئی علی محمد خان کے کاغذاتِ نامزدگی این اے 23 سے مسترد کیے گئے جبکہ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کر دیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ’عوام سے کہتا ہوں ہم ڈرے نہیں ہیں آپ لوگوں نے ظلم کا بدلہ ووٹ سے لینا ہے۔‘
اس کے علاوہ پی ٹی آئی کے آفیشل اکاؤنٹ کی جانب سے متعدد ایسی ویڈیوز بھی جاری کی گئی ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مختلف حلقوں سے امیدواروں کے تجویز اور تائید کنندگان کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مطابق صنم جاوید کے کاغذاتِ نامزدگی بھی مسترد کروا دیے گئے ہیں جبکہ تیمور سلیم جھگڑا کی جانب سے جاری ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ ان کے کاغذاتِ نامزدگی قومی اور صوبائی اسمبلی سے مسترد کر دیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کی جانب سے جاری بیان میں کاغذاتِ نامزدگی مسترد کرنے کے اس سلسلے کی مذمت کی گئی ہے اور الیکشن ٹریبیونلز میں اسے چیلنج کرنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔
پہلے مرحلے میں ہی صاف شفاف انتخابات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے: تحریک انصاف
پاکستان تحریک انصاف نے اتنی بڑی تعداد میں اپنے امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے جانے کو انتخابی عمل میں بدترین دھاندلی قرار دیا ہے۔
تحریک انصاف کے سیکریٹری اطلاعات رؤف حسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’ملک میں انتخابات کے انعقاد کے پہلے مرحلے میں ہی صاف شفاف انتخابات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔‘
ان کے مطابق ہراساں کرنے، ڈرانے، غیرقانونی طور پر اٹھا لیے جانے سمیت جبر کا ہر ہتھکنڈہ استعمال کرکے تحریک انصاف کے امیدواروں کو کاغذاتِ نامزدگی داخل کرنے سے روکنے کی ریاستی کوشش کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ کاغذاتِ نامزدگی کی پڑتال کے آخری روز آج ریٹرننگ افسران کے دفاتر پر خفیہ شرانگیزوں کا راج ہے۔
رؤف حسن نے کہا ہے کہ ’سپریم کورٹ دنیا میں پاکستان کی ساکھ، تشخص، دستور اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے صورتحال کا ہنگامی نوٹس لے۔‘
’اب مائنس ون انتخابات کی راہ ہموار کی جا رہی ہے‘
انتخابی امور کی ماہر مسرّت قدیم نے بی بی سی کو بتایا کہ جب کوئی اور طریقہ نہیں نکل سکا تو پھر تحریک انصاف کو انتخابی دوڑ سے باہر رکھنے کے لیے مائنس ون کا یہ فارمولا آزمایا جا رہا ہے۔
ان کی رائے میں جن امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد کیے گئے ہیں اب انھیں قانونی جنگ میں بھی زیادہ کامیابی حاصل ہونے کے بھی امکانات نہیں ہیں جب تک کہ وہ کچھ یقین دہانیاں نہ کروائیں۔
ان کے خیال میں پی ٹی آئی کو ریلیف ملنے کی صورت میں ایک طرح سے آئینی ادارے بھی آمنے سامنے ہو جائیں گے، جس سے ایک نئی بحرانی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق اب الیکشن کمیشن بھی ایک آئینی ادارہ ہے اور عدالتیں بھی یہ بات مدنظر رکھیں گی کہ اداروں کا آپس میں کوئی تناؤ نہ پیدا ہو۔
ان کی رائے میں اب یہ معاملات قانونی اور انتخابی سے زیادہ سیاسی رنگ اختیار کر چکے ہیں۔
مسرّت قدیم کے مطابق ’شروع سے ہی دیکھ لیں کہ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے لیے امیدوار گئے تو تو ڈی آر اوز نے کاغذات نہیں لیے، کئی جگہوں پر انھیں روکا گیا اور ان سے کاغذات نامزدگی تک چھینے گئے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’اب یہ ایک پیٹرن بن چکا ہے کیونکہ ماضی میں ن لیگ، پی پی پی اور ایم کیو ایم کے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے۔‘
ان کے خیال میں اس وقت بظاہر تحریک انصاف کو انتقام کا سامنا ہے، کبھی ان سے بلا چھین لیا جاتا ہے اور نہ انھیں کھیلنے دیا جا رہا ہے۔
ان کے مطابق باقی آزاد امیدواروں کے ساتھ جو ہو گا وہ آٹھ فروری کو ہی پتا چل سکے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس بار ایسے حربے زیادہ کامیاب نہیں ہوں گے کیونکہ یہ 2024 ہے اور اب ہر کچھ سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا کی بدولت عوام تک پہنچ جاتا ہے۔
ماہر انتخابی امور سرور باری نے بی بی سی کو بتایا کہ الیکشن کمیشن کے احتساب کی ضرورت ہے۔
ان کی رائے میں اتنی بڑی تعداد میں امیدواران کے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ملک میں ایک انتخابات کے باوجود افراتفری رہے گی۔
وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف الیکشن کمیشن ٹرن آؤٹ بڑھانے کی حکمت عملی بنا رہا ہے اور دوسری طرف ایک پوری جماعت کو بغیر کسی منطق کے انتخابی عمل سے ہی باہر دھکیلا جا رہا ہے۔
سرور باری کے خیال میں الیکشن کمیشن کی یہ کوشش ہے کہ تحریک انصاف کے امیدواران میدان میں نہ ہوں۔
ان کے مطابق مختص نشستوں کی سکروٹنی کی تاریخ 31 دسمبر سے بڑھا کر 13 جنوری کر دی گئی ہے تا کہ بلا نہ ملنے کی صورت میں تحریک انصاف کو ان نشستوں سے بھی محروم رکھا جا سکے۔
خیال رہے کہ ہر جماعت کو انتخابات میں جتنی نشستیں ملتی ہیں اس تناسب سے ہی اس کے حصے میں مخصوص نشستیں آتی ہیں۔ مگر جب کسی جماعت کو انتخابی نشان نہ مل سکے تو پھر اسے مخصوص نشستوں سے بھی ہاتھ دھونے پڑ جاتے ہیں کیونکہ اس جماعت کے آزاد حیثیت میں جیتنے والے امیدواران مخصوص نشستوں کے اعتبار سے جماعت کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
سرور باری کے مطابق الیکشن ٹریبیونلز کے متعدد ججز بھی تبدیل کر دیے گئے ہیں جو قبل از وقت دھاندلی کی بدترین مثال ہے۔
ان کی رائے میں الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی کوشش ہے کہ تحریک انصاف کسی صورت انتخابی عمل میں آگے نہ نکل سکے۔
ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بے نظیر کو اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے آئی جے آئی بنائی گئی، نواز شریف کو ملک سے باہر نکال دیا گیا تھا مگر ایسی تمام کوششیں بے سود رہیں۔ ان کے مطابق آخری دن بھی تحریک انصاف اعلان کر سکتی ہے کہ کس امیدوار کو ووٹ دیے جائیں اور پھر ایسے امیدواران کو ووٹ مل سکیں گے۔