عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں قید کی سزا: آخر معاملہ یہاں تک کیسے پہنچا اور اب آگے کیا ہو گا؟
پاکستان میں ایک خصوصی عدالت نے ملک کے سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر کیس میں دس، دس سال قید کی سزا سنا دی ہے۔
منگل کو اڈیالہ جیل میں خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سزا سُنائی ہے۔
اڈیالہ جیل کے حکام کے مطابق خصوصی عدالت کے جج اس کیس کا مختصر فیصلہ سُنا کر چلے گئے جب کہ فیصلہ سنانے سے قبل فریقین کو حتمی دلائل دینے کی مہلت نہیں دی گئی۔
عمران خان کی جماعت نے اس فیصلے کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔
پارٹی کے ترجمان رؤف حسن کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’بانی چیئرمین عمران خان اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لیے نہایت بے رحمی سے انصاف کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا ہے۔‘
اہم سوال یہ ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو اس سزا کے فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے کیا کیا قانونی آپشنز میسر ہیں؟ مگر اس سے قبل یہ جان لیتے ہیں کہ سائفر کیس ہے کیا اور یہ معاملہ سابق وزیراعظم کو سزا دینے تک کیسے پہنچا؟
سائفر کیس ہے کیا؟
سابق وزیراعظم عمران خان کو حزب اختلاف کی جانب سے پیش کردہ تحریک عدمِ اعتماد کے ذریعے 10 اپریل 2022 کو وزارتِ اعظمیٰ کے منصب سے ہٹایا گیا تھا۔
اس سے تقریباً دو ہفتوں قبل 27 مارچ کو عمران خان نے اسلام آباد میں پاکستان تحریکِ انصاف کے ایک جلسے کے دوران حامیوں کے سامنے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ وہ ’سائفر‘ ہے جس میں درج ہے کہ انھیں اقتدار سے نکالنے کے لیے کس طرح امریکہ میں سازش کی گئی۔
جلسے کے بعد عمران خان نے ایک اور تقریر میں دعویٰ کیا کہ اُس وقت کے امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے امریکہ میں تعینات پاکستانی سفیر اسد مجید خان سے کہا کہ ’اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو وہ پاکستان کو معاف کر دیں گے۔‘
عمران خان کا اصرار تھا کہ ڈونلڈ لو اس امریکی سازش کا حصہ ہیں جس کا مقصد اُن کی حکومت کو ہٹانا تھا۔ تاہم امریکی دفتر خارجہ نے ان تمام الزامات کی تردید کی تھی۔
عمران خان ماضی میں متعدد مرتبہ سابق آرمی چیف جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو اس ’سازش‘ کا مرکزی کردار قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت ایک مقدمہ درج کیا جس کے بعد آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت تحقیقات کا حکم سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے 19 جولائی 2023 کو دیا تھا اور 29 اگست 2023 کو سائفر کیس میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دی گئی۔
اس کیس میں عمران خان پر بنیادی الزام یہ تھا کہ انھوں نے سیاسی فائدے کے لیے ایک حساس سفارتی دستاویز کا استعمال کیا۔
اس وقت کی حکومت کا کہنا تھا کہ سائفر کو سیکرٹ ایکٹ کے تحت پبلک نہیں کیا جا سکتا ہے مگر عمران خان نے اس سائفر کو منٹس اور تجزیے میں تبدیل کیا اور اس کے ساتھ ’کھلواڑ‘ کیا۔
بعدازاں ایک انٹرویو کے دوران عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ ان کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی ’غائب‘ ہو چکی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی قانونی ٹیم کا اس حوالے سے موقف ہے کہ سائفر کی حفاظت کی ذمہ داری ان کے آفس کے عملے کی تھی نہ کہ خود عمران خان کی۔
خصوصی عدالت میں کیا کچھ ہوا؟
خصوصی عدالت نے عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر سائفر کیس میں فرد جرم 13 دسمبر 2023 کو عائد کی تھی جس کے بعد سے اس کیس پر سماعت لگ بھگ روزانہ کی بنیاد پر جاری تھی۔
اس مقدمے میں استغاثہ کی جانب سے مجموعی طور پر 25 گواہان کو عدالت کے روبرو پیش کیا گیا جن میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم خان اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید بھی شامل تھے۔
اس مقدمے میں عمران خان کے سابق پرنسپل سیکریٹری اعظم نے بھی اپنا بیان ریکارڈ کروایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ انھوں نے سائفر کی کاپی عمران خان کو فراہم کی تھی جس کے بعد وہ گم ہو گئی۔
انھوں نے مزید کہا تھا کہ سائفر کی کاپی وزیراعظم نے اپنے پاس رکھ لی جو بعد میں انھیں نہیں ملی۔ ان کے مطابق عمران خان نے اپنے ملٹری سیکریٹری، اے ڈی سی اور دیگر سٹاف کو یہ معاملہ دیکھنے کا کہا تھا لیکن سائفر کی کاپی عمران خان کے وزارتِ اعظمیٰ سے ہٹنے تک نہیں ملی۔
اس مقدمے کے ایک اور مرکزی گواہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید تھے۔ انھوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کو بتایا تھا کہ 7 مارچ 2022 میں امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے جنوبی ایشیا ڈونلڈ لو سے ہونے والی ملاقات اور اس ملاقات میں ہونے والی گفتگو کو جسے اسلام آباد میں بطور سائفر ٹیلی گرام ارسال کیا گیا تھا میں ’خطرہ‘ یا ’سازش‘ جیسے الفاظ کا کوئی حوالہ نہیں تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ سائفر کے حوالے سے 22 اپریل 2022 کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا اجلاس ہوا تھا جس میں انھیں بھی طلب کیا گیا اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ میں ڈی مارش ایشو کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اسد مجید کا کہنا تھا کہ انھوں نے ہی پاکستان میں امریکن ایمبیسی اور امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو ڈی مارش ایشو کرنے کی تجویز دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ سائفر کے معاملے جو کچھ کیا گیا وہ پاکستان امریکہ تعلقات کے لیے دھچکا تھا۔
اسد مجید کا کہنا تھا کہ جنوری 2019 سے مارچ 2022 تک وہ امریکہ میں پاکستان کا سفیر تھے اور سات مارچ 2022 کو امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور مسٹر ڈونلڈ لو کو ورکنگ لنچ پر مدعو کیا تھا اور یہ ایک پہلے سے طے شدہ ملاقات تھی جس کی میزبانی واشنگٹن میں پاکستان ہاؤس میں کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ملاقات میں ہونے والی کمیونیکیشن کا سائفر ٹیلی گرام سیکریٹری خارجہ کو بھجوایا گیا اور پاکستان ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں ڈپٹی ہیڈ اف مشن اور ڈیفنس اتاشی بھی موجود تھے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ملاقات میں دونوں سائیڈز کو معلوم تھا کہ میٹنگ کے منٹس لیے جا رہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سائفر کو سازش قرار دینے کا فیصلہ اس وقت کی سیاسی قیادت کا تھا۔
عمران خان کو سزا کے بعد قانونی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان اور شاہ محمود قریشی اپنی سزاؤں کے خلاف ہائی کورٹ اور اس کے بعد سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کر سکتے ہیں۔
سینیئر وکیل عبدالمعیز جعفری نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس ٹرائل کے اختتام کے بعد جو عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف الزامات تھے انھیں میرٹس پر اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ان کے خلاف یہ الزامات بنتے تھے یا نہیں اور ان کے خلاف ٹرائل کورٹ نے ثابت کیسے کیا ہے اور کس معیار پر کیا ہے، ان تمام چیزوں کا اعلیٰ عدالتوں میں ازسرِنو جائزہ لیا جا سکے گا۔‘
عبدالمعیز جعفری کہتے ہیں کہ ’میری نظر میں یہ الزامات اپیل کے امتحان میں شاید ثابت نہ ہو پائیں۔‘
’میرے خیال میں اس معاملے میں ٹرائل کورٹ نے عجلت سے کام لیا اور غیرمعمولی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ صرف چند ہی گھنٹوں میں بہت سارے گواہوں کو دیکھا گیا جس پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر اور ویگر وکلا نے احتجاج بھی کیا تھا۔‘
عبدالمعیز جعفری کے مطابق عمران خان نے بھی تیز رفتاری سے ہونے والی عدالتی کارروائی پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا اور رپورٹس کے مطابق وہ عدالت چھوڑ کر بھِی چلے گئے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ جب اعلیٰ عدالتوں میں کیس جائے گا تو یہ معاملہ بھی زیرِ غور آئے گا کہ اس مقدمہ کو کس انداز میں چلایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سے قبل دو مرتبہ اعلی عدالتیں اس (خصوصی) عدالت کو ازسرِنو کام کرنے کا حکم دے چکی ہیں کیونکہ اس کے کام کرنے کے بنیادی طریقے پر سوالیہ نشانات تھے۔‘
عبدالمعیز جعفری کا کہنا تھا کہ ’جو سیکشن 5 ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا، جو کہ غفلت برتنے پر آپ کو سزا دیتا ہے، وہ کہتا ہے کہ دو سال سے 14 سال تک سزا ہوسکتی ہے آپ کو اگر آپ کسی حساس دستاویز کو غفلت سے ہینڈل کریں یا یہ آپ کی غفلت برتنے سے وہ گُم ہو جائے۔‘
’لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ اس حساس دستاویز میں ایسا کوئی کوڈ ہو یا اس کو بنانے میں ایک ایسی تکینک استعمال کی گئی ہو جو اگر دشمن کہ ہاتھ لگ جائے تو آپ کا سکیورٹی انفراسٹرکچر کمپرومائز ہو سکتا ہے۔ یہاں پر یہ مسئلہ ہے ہی نہیں کیونکہ عمران خان کو جو کاپی ملی تھی وہ ڈی سائفر ہونے کے بعد ملی تھی اور اس میں کوئی خفیہ زبان نہیں تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ خصوصی عدالت نے کس بنیاد پر عمران خان کو سزا سنائی اور قانونی تقاضوں کو کیسے پورا کیا اس کے لیے تفصیلی فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا۔
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل صلاح الدین احمد بھی سمجھتے ہیں کہ آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت قائم عدالت کے فیصلے پر متعدد سوالات اُٹھتے ہیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے خیال میں وکلاِ صفائی کو تبدیل کر کے عدالت کی جانب سے مقرر کردہ وکیلِ صفائی کو لانا، یہ سوال کھڑا کرے گا کہ کیا ملزمان کو منصفانہ ٹرائل کا موقع دیا گیا یا نہیں؟‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’عدالت کہ پاس یہ اختیار موجود ہوتا ہے کہ وہ ملزمان کے لیے وکیل مقرر کرے لیکن یہ عموماً اس وقت ہوتا ہے جب ملزمان اپنے وکیل کو خود مقرر کرنے سے انکار کردے یا پھر ملزمان کے وکیل عدالت کے سامنے پیش نہ ہوں۔‘
عدالتی فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’بظاہر جس جلدی میں فیصلہ سنایا گیا اور اچانک جس طرح سے ٹرائل کو مکمل کیا گیا اس سے اس عمل کی شفافیت پر سوال اٹھتے ہیں۔‘
مگر یہ سائفر ہوتا کیا ہے؟
کسی عام سفارتی مراسلے یا خط کے برعکس سائفر کوڈ کی زبان میں لکھا جاتا ہے۔ سائفر کو کوڈ زبان میں لکھنا اور اِن کوڈز کو ڈی کوڈ کرنا کسی عام انسان نہیں بلکہ متعلقہ شعبے کے ماہرین کا کام ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے پاکستان کے دفترخارجہ میں گریڈ 16 کے 100 سے زائد اہلکار موجود ہیں، جنھیں ’سائفر اسسٹنٹ‘ کہا جاتا ہے۔
یہ سائفر اسسٹنٹ پاکستان کے بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی تعینات ہوتے ہیں۔
اب سائفر کے معاملے کو سمجھنے کے لیے امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید کے دفتر واشنگٹن کا رُخ کرتے ہیں۔ اُن کی امریکی سفارتکار ڈونلڈ لو سے واشنگٹن میں ایک کھانے پر غیر رسمی ملاقات ہوئی تھی۔
اس ملاقات میں امریکی عہدیدار نے پاکستان سے متعلق اہم امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا۔ اسد مجید نے یہ سمجھا کہ یہ گفتگو انتہائی اہمیت کی حامل ہے لہٰذا اس سے متعلق دفتر خارجہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
امریکہ میں پاکستانی سفیر نے سفارخانے میں تعینات سائفر اسسٹنٹ کے ذریعے اس ملاقات کے بارے میں اپنے پیغام کو کوڈ لینگوئنج میں بدلا اور اسے ’مخصوص ذریعے‘ سے اسلام آباد میں خارجہ سیکریٹری کے نام ارسال کر دیا۔
یہ مخصوص ذریعہ کوئی مشین فیکس، ٹیلی گرام، صوتی پیغام یا کچھ اور بھی ہو سکتا ہے اور اس کا دارومدار کسی بھی ملک کے زیر استعمال اس ٹیکنالوجی پر ہوتا ہے جو وہ اس سلسلے میں استعمال کرتے ہیں۔ یوں یہ سائفر پیغام اسلام آباد پہنچ گیا۔
یہاں یہ سائفر جیسے ہی موصول ہوا تو پھر دفترخارجہ نے اپنے سائفر اسسٹنٹ کی مدد طلب کی اور پھر اسے ڈی کوڈ کر لیا گیا۔ اس سائفر کو ڈی کوڈ کروانے کے بعد دفتر خارجہ کے اعلیٰ عہدیدار اس نتیجے پر پہنچے کہ اس سائفر کو ہر صورت چار اہم شخصیات کو بھیجنا لازمی ہے۔
یہ سائفر وزیراعظم، صدر مملکت، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کو بھیجا گیا۔
دفتر خارجہ کے حکام کے مطابق سائفر کی یہ تمام کاپیاں اصلی تصور کی جاتی ہیں اور ایک مہینے کے اندر سائفر کو واپس دفتر خارجہ بھیجنا ہوتا ہے۔ یہ کام اس وجہ سے بھی احسن انداز میں ہو جاتا ہے کہ وزیر اعظم کے دفتر میں بھی دفتر خارجہ کے اہم دو سے تین افسران تعینات ہوتے ہیں جو اس ’کمیونیکیشن‘ کو یقینی بناتے ہیں۔
دفتر خارجہ کو آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور صدر مملکت کو بھیجی گئی کاپیاں تو دفتر خارجہ کو موصول ہو گئی ہیں مگر وزیراعظم کو بھیجا گیا سائفر دفترخارجہ کو موصول نہیں ہوا، جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا کہ کہیں اس کا کوڈ کمپرومائز تو نہیں ہو گیا ہے یا کہیں یہ سائفر کسی دوسرے ملک کے ہاتھ تو نہیں لگ جائے گا۔ یہی وجہ تھی کہ حکومتی حلقوں میں بھی اس حوالے سے تفتیش پائی گئی تھی۔
خیال رہے کہ بیرون ملک مِشنوں سے موصول ہونے والے سائفرز عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک غیر گردشی اور دوسرے عمومی طور پر وہ ہوتے ہیں جنھیں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔
غیر گردشی سائفرز کو مخصوص ایڈریسز (مخصوص افراد) کے لیے نشان زد کیا جاتا ہے اور بھیجنے والا سفیر فیصلہ کرتا ہے کہ یہ کسے وصول ہونا چاہیے۔ البتہ سیکریٹری خارجہ، ادارے کا سربراہ ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ کر سکتا ہے کہ ایسی ڈپلومیٹک کیبل یا سائفر کس کس کو بھیجا جا سکتا ہے۔
عمران خان کو مزید کن مقدمات کا سامنا ہے؟ توشہ خانہ کیس کیا ہے؟
یاد رہے کہ سائفر کیس میں دس سال کی سزا جانے سے قبل یعنی گذشتہ برس اگست میں اسلام آباد کی ایک ضلعی عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں تین سال کی قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سنائی تھی۔
فیصلہ سنائے جانے کے بعدعمران خان کو لاہور میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایک اپیل کے نتیجے میں عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا کو معطل کر دیا تھا۔
اس کیس میں سزا ہونے کے بعد عمران خان کو پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے لیے پانچ سال کے لیے نااہل ہو گئے تھے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی ابتدا اس وقت ہوئی تھی جب پاکستان مسلم لیگ ن کے سابق رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے ان کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا تھا جسے سپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔
ریفرنس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
ریفرنس کی کاپی کے مطابق درخواست گزار نے کہا تھا کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثے چھپائے بغیر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتے۔
دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ عمران خان نے ’جانتے بوجھتے‘ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا اور یہ کہ انھوں نے قبول کیا ہے جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ انھوں نے یہ تحائف فروخت کیے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے دستاویزات میں ان کی فروخت بھی چھپائی گئی۔
دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے دوران کل 58 تحائف ملے جن میں گراف کی ’مکہ ایڈیشن‘ گھڑی سمیت مختلف اشیا تھیں۔ یہ تحائف عمران خان نے توشہ خانہ سے 20 اور بعد ازاں 50 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے۔
ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاگت 30 ہزار روپے سے کم تھی لہٰذا قانون کے مطابق وہ یہ تحائف مفت حاصل کر سکتے تھے جبکہ 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی قیمت کا 20 فیصد (قانون میں تبدیلی کے بعد 50 فیصد) ادا کر کے حاصل کیے گئے۔
القادر کرپشن کیس
سابق وزیراعظم عمران خان کو پاکستان میں ایک اور مقدمے کا سامنا ہے جسے ’القادر ٹرسٹ کرپشن کیس‘ کہا جاتا ہے۔
نیب نے عمران خان کو گذشتہ برس مئی میں القادر ٹرسٹ کیس میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا تھا۔ یہ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔
سابق وزیراعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور اس وقت کی اتحادی حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔‘
حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔
جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔
جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔
اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط موجود تھے۔
نیب نے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے نام پر سینکڑوں کنال اراضی سے متعلق انکوائری کو باقاعدہ تحقیقات میں تبدیل کیا تھا۔
نیب اس سے قبل اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور برطانیہ سے موصول ہونے والے جرائم کی رقم کی وصولی کے عمل کی انکوائری کر رہا تھا۔
نو مئی سے متعلق کیس
گذشتہ برس 5 اگست کو عمران خان کی اسلام آباد میں گرفتاری کے بعد ملک بھر میں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ان مظاہرین کی جانب سے ملک کے متعدد علاقوں میں حکومتی اور عسکری عمارتوں کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ان مظاہروں کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے درجنوں کارکنان اور رہنماؤں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پرُتشدوں مظاہروں میں ملوث ہونے کے الزام میں 100 سے زائد افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔
اس کیس میں عمران خان کو بھی نامزد کیا گیا تھا اور اس حوالے سے ان سے جیل میں تفتیش بھی کی گئی تھی۔