علی بابا کے بانی جیک ما تین ماہ کے لیے کہاں غائب ہو گئے تھے؟
جیک ما چین میں امیر ترین شخص بننے کے قریب تھے مگر نومبر 2020 میں ایک اور کمرشل کامیابی ملنے کے بعد وہ اچانک لاپتہ ہو گئے۔
ان کی کمپنی علی بابا ان کے اپارٹمنٹ سے ایک آن لائن سٹور کی صورت میں شروع ہوئی تھی اور پھر دنیا کی بڑی ٹیک کمپنیوں میں سے ایک بن گئی۔
آج تقریباً آٹھ سو ملین کے قریب لوگ اس سروس کو استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی کمپنی کی سروسز میں آن لائن خریداری، کلاؤڈ کمپییوٹنگ اور مصنوعی ذہانت کی سہولیات شامل ہیں۔
جیک ما تعلقاتِ عامہ کے ماہر مانے جاتے ہیں اور پبلک سٹنٹ کرتے نظر آتے تھے۔ وہ اپنے ہزاروں ملازموں کے لیے پارٹیز بھی کرتے ہیں اور انھوں نے گانوں میں بھی اپنے ملازموں کی خدمات کی تعریف کی
ن کا حالیہ پراجیکٹ اینٹ گروپ ہے۔ یہ چین میں ادائیگیوں کی ڈیجیٹل مارکیٹ ہے جس کے لیے علی پے نامی فنانس ایپ استعمال ہوتی ہے۔
جیک ما کی کمپنی کا ہدف ہے کہ وہ چین میں بینکنگ کے شعبے میں انقلاب لائے اور مالیاتی اجاراداری کو روایتی اداروں سے لوگوں کے پاس منتقل کرے۔
24 اکتوبر کو شنگھائی میں اینٹ گروپ سٹاک ایکسچینج میں دنیا کا سب سے بڑا آئی پی او لانچ کرنے کے لیے تیار تھا۔
اس سے پہلے جیک ما نے اعلیٰ سطح کی شخصیات کی ایک تقریب میں ایک متنازع تقریر کی جس میں چینی مالیاتی نظام پر تنقید کی گئی۔
اس کے بعد وہ دوبارہ جنوری کے وسط تک عوامی منظر سے غائب رہے۔ اس دوران یہ افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ شاید وہ گھر میں نظر بند ہیں یا پھر انھیں قید کر دیا گیا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو یہ سوال بھی کیا کہ کیا جیک ما اب زندہ بھی ہیں۔
اعلیٰ سطح پر طلبی
جیک ما کی کہانی پر بی بی سی ریڈیو فور نے تحقیق کی۔ اس دو حصوں پر مشتمل سیریز کو کیتھرین پارسنز نے پیش کیا۔
علی بابا کے بانی نے چینی بینک پر الزام عائد کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ جب نئی ڈیجیٹل فنانس کی دنیا کو چلانے کی بات کی جائے تو حکام ریلوے سیٹشن کو چلانے والا طریقہ کار ائیر پورٹ چلانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
اس قسم کے بیانات نے ملک میں بینکاری کی اسٹیبلشمنٹ کو اشتعال دلایا اور اطلاعات کے مطابق اس معاملے نے صدر شی جنگ پنگ کی توجہ حاصل کی۔
جلد ہی جیک ما اور ان کے قریبی ساتھیوں کو ریگولیٹرز کی جانب سے ملاقات کے لیے بلایا گیا۔ ان کے اینٹ گروپ کے شیئر کو مارکیٹ میں بکنے سے روکا گیا۔
جیک ما کی کمپنی کے شیئر گر گئے اور ان کی قدر تقریباً 76 بلین امریکی ڈالر کم ہو گئی۔ ملاقات کے بعد جیک ما کو کہیں بھی نہیں دیکھا گیا۔
‘بڑا سرپرائز‘
ماضی میں جیک ما کا انٹرویو کرنے والی تجزیہ کار کرسچینا باؤٹرپ کا کہنا ہے کہ اس روز بظاہر جیک ما نے نہ نظر آنے والی حد کو عبور کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ میرا خیال ہے کہ یہ ان کے لیے ایک بڑا سرپرائز تھا۔ وہ کبھی بھی اس ریڈ لائن یعنی حد کو عبور نہ کرتے اگر انھیں یہ معلوم ہوتا کہ اس کا انجام اتنا برا ہو سکتا ہے۔
پھر آخر کار رواں سال کے آغاز میں 20 جنوری کو جیک ما دوبارہ منظر عام پر آئے اور وہ موقع ایک رفاعی پروگرام میں ان کے خطاب کی مختصر ویڈیو کی صورت میں تھا۔
باؤٹرپ کہتی ہیں پھر وہ فروری میں چینی جزیرے ہینان میں گالف کھیلتے دیکھے گئے۔
‘انھوں نے اپنے آپ کو عوامی سطح پر ظاہر نہیں کیا تھا اور یقینی طور پر یہ بہترین چیز تھی جو وہ کر سکتے تھے۔‘
ٹیکنالوجی کا وسیع سیکٹر
چینی حکومت اس وقت ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اپنے طریقہ کار پر نظر ثانی کر رہی ہے اور علی بابا میں اجاراداری کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔
آخری ہفتے میں ایک نگراں ادارے نے کہا تھا کہ ان کی جانب سے بارہ کمپنیوں کو جرمانہ کیا گیا ہے جن میں ٹینسیٹ اور بیدو بھی شامل ہیں۔ ان کمپنیوں کو دس معاہدوں میں اجارا داری کے تداراک کے لیے موجود قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا گیا تھا۔
چین کو بین الاقوامی سطح پر امریکہ سمیت دیگر ممالک کی جانب سے ہانگ کانگ اور سنکیانگ میں پالیسوں پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ٹیکنالوجی میں سپر پاورز کو لگام ڈالنے کے اس اقدام کو کچھ لوگ کمرشل بنیادوں پر کامیابی پر کنٹرول اور ترجیحات میں استحکام لانے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔
آسٹریلین سٹریٹیجک پالیسی انسٹیٹیوٹ میں ریسرچر سمانتھا ہوفمین کا کہنا ہے کہ ‘وہاں (کمیونسٹ پارٹی کی) کمیٹیاں ہیں جو کہ کمپنیوں کو یہ یاد دہانی کرواتی ہیں کہ جیک ما جیسے طاقتور لوگوں کے اوپر بھی حتمی قوت پارٹی کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘نہ صرف کمپنی اس سب کی ذمہ دار ہوتی ہے، جس کا مطالبہ جماعت (کمیونسٹ پارٹی) کرے بلکہ وہ اپنے کسی عمل کو تسلیم بھی نہیں کر سکتے اگر انھیں کہا نہ جائے۔‘
لیکن ایک اور ماہر کی رائے ہے کہ علی بابا اور چین کی دیگر ٹیکنالوجی کمپنیوں کو مکمل طور پر مغرب کی سیاسی نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
لیلیان لی جو چینی ٹیکنالوجی پر لکھے جانے والے ایک نیوز لیٹر کی مصنف ہیں، کہتی ہیں کہ ‘چین اب بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے۔۔۔ میرے خیال میں یہ غیر منصفانہ ہو گا کہ ایک ترقی پذیر ملک کو بالکل اسی میرٹ پر پرکھا جائے جس پر ترقی یافتہ ملک کو پرکھا جاتا ہے۔