علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے دوران جس

علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے دوران جس

فقیرو سولنکی علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے دوران جس سندھی آرٹسٹ کے کام کی تعریف ہو رہی ہے وہ کون ہیں؟

اکستان کے شہر لاہور کے ایک پارک میں علامہ اقبال کے مجسمے پر تنازعے کے بعد سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سندھ کے آرٹسٹ فقیرو سولنکی کے فن پاروں کی تصاویر شئیر ہونا شروع ہو گئیں جن کو نہ صرف سراہا گیا بلکہ یہ سوال بھی کیا گیا کہ ان گمنام آرٹسٹوں کی پذیرائی کیوں نہیں کی جاتی۔

فقیرو سولنکی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ان کے کام سے محبت کرتے ہیں اور شیئر کرتے ہیں اگر وہ دو لفظ بھی لکھتے ہیں تو وہ ان کے شکر گزار ہیں یہ سب ان کی محبت کا نتیجہ ہے۔

فقیرو سولنکی کا کہنا ہے کہ بطور آرٹسٹ جو پذیرائی ملنی چاہیے وہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں۔

‘جس طرح ہم انٹرنیٹ پر دوسرے ممالک کو دیکھتے ہیں، اس حوالے سے حوصلہ افزائی کم ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں آرٹ کو وہ اہمیت نہیں دی جاتی جو بیرون ملک ملتی ہے۔ وہاں بڑے میوزیم ہیں، گیلریز ہیں، وہاں نہ صرف کام کرنے والے ہیں بلکہ کام کرانے والے، اور آرٹ سے محبت کرنے والے اور سمجھنے والے بھی ہیں یہاں وہ رجحان بہت کم ہے۔’

فقیرو نے کہا کہ عام لوگوں میں 75 فیصد کے لیے آرٹ ایک تفریح ہے۔

‘یہ سیلفی لینے والے لوگ ہیں۔ جو باقی 25 فیصد ہیں ان میں سے صرف دس فیصد ایسے لوگ ہوتے ہیں جو کام کو سمجھنے اور اس کو پروموٹ کرنے والے ہوتے ہیں۔’

فقیرو نے بتایا کہ حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں پذیرائی ملی ہے اور گزشتہ سال تمغہ امتیاز سے بھی نوازا گیا ہے۔

فکیرو

ایک آرٹسٹ گھرانہ

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے فقیرو نے بتایا کہ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق انڈیا کے گاؤں سرونا گام سے تھا جو اپنے کام کاج کے لیے سندھ آتے رہتے تھے۔

‘بٹوارے کے بعد ہمارا خاندان مستقل طور پر یہاں منتقل ہوگیا۔ پہلے ہم شادی پلی میں رہے اس کے بعد ٹنڈوالہیار آگئے جہاں میرا جنم ہوا۔’

فقیرو نے بتایا کہ ان کا تعلق مینگھواڑ کمیونٹی کے کانٹھیا قبیلے سے ہے۔

’میرے دادا اور والد مستری تھے۔ وہ گھروں اور چھوٹے مندروں کی تعمیر کرتے تھے اور ان مندروں کے لیے مورتیاں بھی بناتے تھے۔ دادا نے اپنا فن اپنے بیٹے کیچمند کو منتقل کیا اور یوں یہ کام مجھے ورثے میں ملا۔ ہم آٹھ بھائیوں میں صرف تین نے یہ کام جاری رکھا اور میں نے اپنے کام کی ابتدا اپنے بڑے بھائی مان سنگھ سے متاثر ہوکر کی۔’

FAKEERO

’راستے کے کاغذ میرے استاد بنے‘

وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں وہ خاموش طبع تھے اور مٹی سے کھلونے بنایا کرتے تھے۔

اس کے بعد انھوں نے سکول میں ڈرائنگ کے مقابلے جیتے اور پھر انٹر تک تعلیم حاصل کی۔

‘میں راستے سے کاغذ جمع کرتا تھا۔ ان میں اگر یورپ کے کسی آرٹسٹ کا کام نظر آتا تو اس کو رکھ لیتا۔ یہ راستے کے کاغذ میرے استاد بنے۔ میرے پاس کوئی ایک من کے قریب کاغذ جمع ہوگئے ہیں۔ آج بھی راستے میں کاغذ اٹھانے کو غلط نہیں سمجھتا، وہ میرے استاد ہیں۔’

فقیرو نے بتایا کہ وہ پاکستان کے مشہور تعلیمی ادارے این سی اے لاہور میں آرٹ پڑھانے کے خواہشمند تھے لیکن ایک حادثے کی وجہ سے ایسا نہ کر پائے۔

‘میرے دو بڑے اور ایک چھوٹا بھائی مزدوری سے واپسی پر سڑک حادثے کا شکار ہوگئے اور چار سال تک زیر علاج رہے۔ اس کی وجہ سے گھر کا وسیلہ معاش بند ہوگیا اور مجبوری میں مجھے روزی روٹی کے لیے محنت مزدوری کرنا پڑی اور یوں میں این سی اے نہیں جاسکا۔’

فقیرو

دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں

اپنے آبائی علاقے ٹنڈو الہیار میں راما پیر کے مندر میں انھیں ہنومان کی مورتی بنانے کا کام ملا اور اس کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ مندروں کے لیے جو مورتیاں بناتے ہیں وہ ان کو خود تخلیق کرتے ہیں۔

’ظاہر ہے بھگوان یا دیوی، دیوتا نے فوٹوگرافی تو نہیں کرائی ہوگی۔ یہ تو آپ کا ایک تصور ہے۔ بھگوان کے جو ہاتھ ہیں وہ دعا والے ہوتے ہیں۔ وہ اوپر اٹھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کی لیکریں بنانے کے لیے مجھے پامسٹری پڑھنی پڑی جس کے بعد میں نے سمجھا کہ ایک نیک اور اچھے انسان کے ہاتھوں کی لیکریں کیسی ہونی چاہییں۔’

فقیرہ

فقیرو بتاتے ہیں کہ ہاتھ کی لکیروں کے علم کے بعد انھوں نے چہرہ شناسی کا مطالعہ کیا تاکہ جان سکیں کہ اگر آنکھیں ایسی ہیں تو انسان کیسا ہوتا ہے اور اگر چہرے مخصوص خدوخال کے ہوں تو انسان میں کیا خوبیاں خامیاں ہوتی ہیں۔

‘اس کے بعد میں کپڑوں کے انداز کے لیے درزی کے پاس گیا۔ جیولری کے لیے سونار کے پاس گیا، مجسمے کے بال کیسے ہوں اس کے لیے نائی کا کام بھی سیکھا۔ جسم کا جو ابھار ہے، اس کو سمجھنے کے لیے باڈی بلڈنگ کے اکھاڑے میں گیا۔’

وہ بتاتے ہیں کہ مجمسے کو ڈھالنے سے لیکر جوڑنے تک کا سارا کام وہ اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔

اپنا فن پارہ تیار کرنے کے لیے وہ بازار سے لی ہوئی چیزیں استعمال نہیں کرتے اور کپڑوں سے لیکر زیورات تک ہر چیز اپنے سٹوڈیو میں بناتے ہیں۔

مائیکل اینجلو اور کیرولائن برنیٹ کا شاگرد

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں معروف مصور اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو اور کیرولائن برنیٹ کی دو کتابیں ملیں جس کا مطالعہ کرنے سے انھیں کافی چیزیں سمجھ آئیں۔

فقیرو

‘اس کے بعد میں دھیرے دھیرے دیگر کتابیں بھی حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور یو ٹیوب آگیا جس سے دیگر آرٹسٹوں کا کام دیکھنے اور ان سے سیکھنے میں مدد حاصل ہوئی۔’

وہ این سی اے کالج لاہور جا تو نہیں سکے لیکن ان سے رابطہ قائم کیا اور اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد، کوئٹہ، کراچی کی جامعات میں آرٹ کے شعبوں سے بھی رابطہ قائم کیا۔

اپنے فن کو بہتر بنانے کے لیے اور لوگوں کے جذبات کو سمجھنے اور چہرے شناسی کے لیے انھوں نے جو لوگ قید کاٹ کر آئے تھے ان سے ملاقاتیں کیں، درگاہوں پر گئے۔

‘جو لوگ عشق میں ناکام تھے یا در بدر تھے، ان سے ملاقاتیں کیں۔ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا، رواں دواں ہے۔ کوشش ہوتی ہے میری طرف سے کوئی کوتاہی نہ رہ جائے۔’

اپنا استاد خود ہوں

فقیرہ

ان کا دعویٰ ہے کہ وہ آج تک 340 مجسمے بنا چکے ہیں جن میں مندر اور گرجا گھروں کی مورتیاں بھی شامل ہیں۔

‘میں اپنے کام کا خود استاد ہوں اور میرا کام میرا استاد ہے۔ پہلے روز میں جب کام کرتا ہوں مجھے سمجھ میں نہیں آتا۔ دوسرے روز وہ کام خود ہی مجھے سمجھا دیتا ہے کہ میری کیا غلطیاں ہیں۔’

فقیرو نے بتایا کہ ان کے والد سیمنٹ سے مورتیاں بناتے تھے کیونکہ مکانات سیمنٹ سے بنتے تھے۔

اس کے بعد انھوں نے پلاسٹر آف پیرس سے کام کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ وہ فائبر گلاس میں بھی کام کر چکے ہیں۔

‘فائبر گلاس میں کام کرنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ ایک تو کم وزن ہے، دوسرا اس میں مِکسنگ اور میچنگ ٹھیک ہوتی ہے۔ اسی لیے 90 فیصد کام فائبر گلاس میں ہو رہا ہے۔ پھر میں نے مٹی، لکڑی اور پتھر میں بھی کام کیا ہے۔ اس کے علاوہ پینٹنگز میں پینسل ورک، آئل کلر اور واٹر کلر میں بھی کام کرتا ہوں۔’

فقیرہ

خواہش ہے ایک سٹوڈیو کی

اپنے معمول کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے فقیرو سولنکی بتاتے ہیں کہ وہ صبح نو بجے سے لیکر شام کو پانچ بجے تک کام کرتے ہیں۔

‘میرا گھر اور سٹوڈیو ایک ہی ہے۔ گھر والے کیمیکلز اور دھول مٹی کا شکار ہوتے ہیں، لیکن کیا کروں، مجبوری ہے کیونکہ روزگار کا راستہ اور کوئی جگہ نہیں ہے۔’

وہ کہتے ہیں ‘میری خواہش ہے کہ ایک بڑا سٹوڈیو ہو جہاں پر نوجوانوں کو سکھا سکوں۔ اس وقت تو اتنی جگہ نہیں لیکن چار پانچ نوجوان سیکھ چکے ہیں۔’

انھوں نے بتایا کہ وہ بیرون ملک صرف ایک بار ترکی گئے ہیں لیکن نیپال کی آرٹ گیلری میں ان کے فن پاروں کی نمائش ہو چکی ہے اور پاکستان کی گیلریوں میں بھی ان کا کام موجود ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *