عراق سے امریکی فوجیوں کے انخلا سے ایران کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
پہلےافغانستان اور اب عراق۔
حال ہی میں جب عراق کے وزیر اعظم امریکہ کے دورے پر پہنچے تو امریکی صدر نے رواں برس کے اختتام تک عراق سے بقیہ امریکی فوجیوں کے انخلا کا اعلان کر دیا۔
اس اعلان کے بعد دو سوال ابھرتے ہیں: اس اقدام سے زمینی صورتحال پر کیا فرق پڑے گا اور کیا اس سے دہشت گرد تنظیم نام نہاد دولت اسلامیہ کو جگہ بنانے کا موقع ملے گا؟
دولتِ اسلامیہ نے تو پورے مشرق وسطی کو دہشت زدہ کر رکھا تھا اور اس میں شمولیت کے لیے لندن، آسٹریلیا اور ٹرینیڈاڈ تک سے رضاکار پہنچ رہے تھے۔
اٹھارہ برس قبل جب عراق پر امریکہ کی سربراہی میں بننے والے فوجی اتحاد نے حملہ کیا تھا اس وقت وہاں ایک لاکھ ساٹھ ہزار سے زیادہ غیر ملکی فوجی موجود تھے۔ اس کے مقابلے میں اب وہاں صرف 2500 فوجی ہیں اور اس کے علاوہ دولت اسلامیہ سے مقابلے کے لیے سپیشل آپریشن فورس کے کچھ اہلکار موجود ہیں جن کی تعداد واضح نہیں۔
لیکن امریکی فوجی اب بھی ایران کے حمایت یافتہ ملیشا اور ڈرونز کے نشانے پر رہتے ہیں۔ عراق میں موجود امریکی فوجیوں کے فرائض میں عراقی سکیورٹی فورسز کی تربیت دینا ہے جو اب بھی دولت اسلامیہ جنگجوؤں کے نشانہ پر ہیں۔ عراق میں امریکی افواج کی موجودگی متنازعہ ہے۔
ایران کے حمایت یافتہ سیاستدان اور ملیشیا عراق سے امریکی افواج کے انخلا کے حامی ہیں اور 2020 میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی بغداد ایئرپورٹ پر ہلاکت کے بعد سے اس مطالبے میں شدت آئی ہے۔
ایسے عراقی بھی امریکی افواج کی اپنے ملک سے نکل جانے کی خواہش رکھتے ہیں جو کسی بھی دھڑے سے وابستہ نہیں ہیں۔ واشنگٹن میں کچھ لوگوں کو بھی یہ پسند ہے، لیکن وہ ایسا عراق کو ایران کے حوالے کرنے کی قیمت پر نہیں کرنا چاہتے۔
امریکہ ایسی جنگوں سے خود کو نکال رہا ہے جو بقول صدر جو بائیڈن کے ’نہ ختم ہونے والی جنگیں‘ ہیں۔ امریکہ افغانستان سے اپنی فوجوں کو نکال کر اپنی پوری توجہ ایشیا پیسیفک اور ساؤتھ چائنا سمندر پر مرکوز کرنا چاہتا ہے۔
دولت اسلامیہ 2.0
لیکن سب سے بڑا خوف دولت اسلامیہ کی بحالی کا ہے۔ صدر اوباما کے 2011 میں عراق سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے کے اعلان کے بعد، عراق کے سیاسی پس منظر اور پڑوسی ملک شام میں جاری خانہ جنگی نے شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ کے لیے ایسا موقع پیدا کیا کہ انھوں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضہ کر کے ایک یورپی ملک کے برابر سرزمین پر ایک عملداری قائم کر لی تھی۔
کیا اب بھی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا دولت اسلامیہ ایک بار پھر عراقی فوج جسے امریکی مدد حاصل نہ ہو، اسے شکست دے سکتی ہے۔
کئی وجوہات کی وجہ سے اس کا امکان کم ہے۔
وزیر اعظم نورالمالکی کے دور میں سنی مسلک کے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی کو دولت اسلامیہ اپنے مقصد میں استعمال کرنے میں کامیاب رہی تھی۔
نوری المالکی جو 2006 سے 2014 تک عراق کے وزیر اعظم رہے، انھوں نے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک منصوبے کے تحت سنیوں کو ان کے حق سے محروم کیا جس کی وجہ سے ان کا جھکاؤ دولت اسلامیہ کی طرف ہو گیا۔
عراق کی موجودہ صورتحال بھی سیاسی مساوات کی مثال نہیں ہے لیکن وہ متحرک نسلی دھڑوں کے لیے بہت حد تک قابل قبول ہے۔
دولت اسلامیہ کی شکست کے بعد سے امریکہ اور برطانیہ نے عراقی فوج کو باغیوں سے مقابلے کی تربیت دی ہے اور نیٹو کی حمایت سے اسے جارے رکھیں گے۔
اس کے علاوہ دولت اسلامیہ کی جو قیادت بچی ہے وہ مشرق وسطیٰ میں لڑنے کی بجائے افریقہ اور افغانستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہی ہے۔
برطانوی فوج کے سابق بریگیڈیئر بین بیری جو اب انٹرنیشنل انسٹیٹوٹ فار سٹریججک سٹڈیز کے ساتھ دفاعی تجزیہ کار کے طور پر منسلک ہیں،ان کے مطابق عراقی افواج دولت اسلامیہ کے باغیوں کے حملوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن جب تک سنیوں کے ساتھ سیاسی سمجھوتہ نہیں ہو گا بغاوت کی وجوہات موجود رہیں گیں۔
دولت اسلامیہ 2014 میں ایک بڑے علاقے پر تیزی سے اپنا کنٹرول قائم کرنے میں اس لیے کامیاب ہو گئی تھی کہ مغرب نے عراق پر سے اپنی توجہ ہٹا لی تھی۔ دولت اسلامیہ کو شکست دینے کے لیے 80 ملکوں کے اتحاد نے پانچ برسوں تک محنت کی اور اربوں ڈالر خرچ کیے۔ اسی لیے کوئی بھی اب دوبارہ پرانی صورتحال میں جانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
رواں برس کے اختتام تک امریکی فوجوں کے عراق سے انخلا کے باوجود تھوڑی تعداد میں امریکی فوجی عراقی سرزمین پر موجود رہیں گے اور مغرب بھی عراق پر نظریں جمائے رکھے گا تاکہ وہاں سے کوئی جہادی گروپ منظم ہو کر ایک بار پھر مغربی ممالک پر حملوں کے لیے نہ نکل پڑے۔
بریگیڈیئر بیری کہتے ہیں کہ اگر امریکہ کو پتہ چلا کہ دولت اسلامیہ عراق سے باہر امریکی مفادات کو زد پہنچانے کی تیاری کر رہی ہےتو امریکہ یکطرفہ طور پر ان خلاف کارروائی کرے گا اور اس کے لیے امریکہ کے پاس بہت وسائل ہیں۔
ایران کی لمبی منصوبہ بندی
اگر حالات کو طویل المعیاد تناظر میں دیکھیں تو حالات ایران کے حق میں نظر اتے ہیں۔
ایران 1979 کے انقلاب کے بعد سے اپنے پڑوس سے امریکی افواج کو نکالنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ خطے کی بڑی طاقت بن سکے۔
اسے ابھی تک اس میں کامیابی نہیں ہوئی ہے کیونکہ عرب ریاستوں کی ایران پر بداعتمادی کافی گہری ہے۔ امریکہ کی ایران کے نزدیک چھ ملکوں میں فوجی تنصیبات موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پانچواں بحری بیڑے کا ہیڈکوارٹر بھی بحرین میں ہے۔
صدام حسین کے اقتدار کو ختم کر کے ایران کی توسیع پسندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ کو ہٹایا جا چکا ہے۔ ایران نے اس موقع سے خـوب فائدہ اٹھایا ہےاور وہ شیعہ ملیشیا کو عراق کے سکیورٹی ڈھانچے میں داخل کرانے میں کامیاب رہا ہے۔ اس کے علاوہ عراقی پارلیمنٹ میں بھی ایران کے حامیوں کی ایک مضبوط آواز ہے۔
شام کی خانہ جنگی نے ایران کو وہاں بھی فوجی قدم جمانے میں مدد کی ہے اور پاس ہی لبنان ہے جہاں اس کی اتحادی حزب اللہ ملک کی سب سے طاقتور فورس بن چکی ہے۔
ایران لمبی گیم کھیل رہا ہے۔ اس کے رہنماؤں کے خیال میں اگر پریشیر کو برقرار رکھا گیا تو مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی اثر و رسوخ ایک گھاٹے کا سودا بن جائے گا۔
لہذا امریکی اڈوں پر تواتر کے ساتھ راکٹ حملے جاری رہیں گے اور ملک سے امریکی افواج کےانخلا کے لیے احتجاجی مظاہرے بھی جاری رہیں گے۔
اگر کسی معاہدے کے تحت عراق سے امریکی افواج کا مکمل انخلا ممکن ہو پاتا ہے تو ایران میں بیٹھے منصوبہ ساز اسے صحیح سمت میں قدم قرار دیں گے۔