عدالتی حکم امتناعی کے باوجود عدالتی اصلاحات

عدالتی حکم امتناعی کے باوجود عدالتی اصلاحات

عدالتی حکم امتناعی کے باوجود عدالتی اصلاحات کا قانون نافذ: سپریم کورٹ اور پارلیمان کی کشمکش کہاں تھمے گی؟

پاکستان کی قومی اسمبلی کے مطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر عملدرآمد روکنے کے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود چیف جسٹس آف پاکستان کے ازخود نوٹس لینے اور بنچوں کی تشکیل کے اختیارات کو محدود کرنے سے متعلق بل جمعے کو قانون بن گیا ہے اور حکومت نے اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے۔

اس قانون کے تحت عدالت عظمیٰ میں ازخود نوٹس لینے اور بینچ کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے بجائے ایک کمیٹی کے حوالے کیا جائے گا جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین جج شامل ہوں گے۔

عدالتی اصلاحات کے تحت بنائے جانے والے اس قانون پر صدر مملکت عارف علوی نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد معینہ مدت پوری ہونے پر یہ بل آئین کے تحت قانون کی شکل اختیار کر گیا اور قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے پرنٹنگ کارپوریشن کو گزٹ نوٹیفکیشن کا حکم بھی دے دیا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کے خلاف عبوری حکم کے تحت اس پر عمل درآمد سے روک چکی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے بعد پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے عدالتی اصلاحات سے متعلقہ ’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ تیس مارچ کو منظور کر لیا تھا تاہم 13 اپریل کو سپریم کورٹ نے اس کے خلاف عبوری حکم جاری کیا جس میں اس پر عملدرآمد تاحکم ثانی روک دیا گیا۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اس بل کی منظوری کی ٹائمنگ پر سوالات اٹھائے گئے تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس بل کا مقصد چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنا نہیں بلکہ اس حوالے سے مراحل کا تعین کرنا ہے۔

بل کے مندرجات کیا ہیں؟

حکومت کا سپریم کورٹ کے رولز میں ترمیم کے بِل کے حوالے سے کہنا ہے کہ از خود نوٹس اور بینچوں کی تشکیل کے اختیارات تنقید کی زد میں آتے رہے ہیں اور بار کونسلز نے بھی اس پر تشویش ظاہر کی تھی۔ حکومت کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر انٹرا کورٹ اپیل کا حق بھی ہونا چاہیے۔

قانون میں کی جانے والی ترامیم

  • بینچوں کی تشکیل، از خود نوٹس کا فیصلہ ایک کمیٹی کرے گی جس میں چیف جسٹس اور دو سینیئر ترین ججز ہوں گے
  • یہی کمیٹی بنیادی انسانی حقوق کے معاملات کم از کم تین ججوں پر مشتمل بینچ کو بھجوائے گی
  • انٹرا کورٹ اپیل پر 14 روز میں سماعت ہوگی
  • ارجنٹ معاملات کے کیسز 14 روز کے اندر اندر سماعت کے لیے مقرر ہوں گے
پارلیمان
’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023‘ تیس مارچ کو منظور کر لیا گیا تھا

کیا یہ نوٹفیکیشن سپریم کورٹ کی حکم عدولی ہے؟

لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاور کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ اس قانون کا نوٹیفکیشن جاری کرنے میں کوئی ممانعت نہیں ہے لیکن جس طرح اداروں میں عدم اعتماد کا فقدان ہے تو بہتر ہوتا کہ سپریم کورٹ کو اس بارے میں اعتماد میں لیا جاتا۔‘

انھوں نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے بعد اب یہ قانون کا درجہ اختیار کر چکا ہے لیکن اب اس کو بھی دیکھنا ہو گا کہ سپریم کورٹ کا لارجر بینچ کس طرح آئین کی تشریح کرتا ہے۔

اس حوالے سے سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے سپریم کورٹ پریکٹسز اور پروسیجرز کا نوٹیفکیشن کرکے اس قانون سازی کے عمل کو مکمل کیا ہے جو کہ پارلیمان نے بنایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ ’قانون سازی پارلیمان کا کام ہے اور سپریم کورٹ کسی طور پر بھی پارلیمان کو یہ ہدایات نہیں دے سکتی کہ ارکان پارلیمان ان کی منشا کے مطابق قانون سازی کریں۔‘

انھوں نے کہا کہ آٹھ رکنی بینچ کے آرڈر میں کہاں لکھا ہے کہ ’اس قانون سازی سے متعلق نوٹیفکیشن جاری نہیں ہو سکتا۔ عدلیہ کا کام قانون کی پیروی کرنا ہے قانون بنانا نہیں۔ ‘

انھوں نے کہا کہ ’اب چیف جسٹس از خود نوٹس سے متعلق کوئی بینچ بنائیں گے تو انھیں دیگر دو سینئیر ججز کے ساتھ مشاورت کرنا ہو گی اور اگر ایسا نہ ہوا تو چیف جسٹس آئین شکنی کے مرتکب ہوں گے۔ ‘

آئینی ماہر اسامہ صدیق کا کہنا تھا کہ ’آرٹیکل 184/4 کی تاریخ رہی ہے کہ اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ اس لیے میری نظر میں یہ اصلاحات ضروری اور مناسب ہیں۔‘

انکا کہنا تھا کہ ’اگر یہ قانون کہتا ہے تین سینیر ترین جج فیصلہ کریں تو یہ فرد واحد کے فیصلے سے بہتر ہوگا۔‘

اس کے کیا اثرات ہوں گے ؟

سیاسی تجزیہ کار نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’یہ ہونا ہی تھا، سپریم کورٹ کے ایک بینچ اور پارلیمان کے درمیان جو جنگ و جدل جاری ہے تو یہ ہونا ناگزیر تھا۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ کہتے رہیں کہ یہ قانون نہیں ہے اور پارلیمان کہتی رہے گی کہ یہ قانون بن گیا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ سپریم کورٹ کے دوسرے اور تیسرے نمبر کے سینیئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار جو اس قانون کے تحت 183/4 کی آنے والی درخوستوں کو قابلِ سماعت قرار دینے اور بینچ بنانے کے عمل کا حصہ ہوں گے، کیا وہ دونوں جج اس قانون کے بعد خاموش رہیں گے یا وہ چیف جسٹس کے مقابلے میں تعداد میں دو ہونے کےسبب فیصلہ سازی اپنے اختیار میں لینے کی بات کریں گے۔‘

’اس صورحال میں انارکی پیدا ہونے کی گنجائش ہے۔ سپریم کورٹ میں تناؤ پیدا ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس اور ان دو لوگوں کے گروپس کھل کر سامنے آ سکتے ہیں۔ کیونکہ اس قانون میں ججوں کی تعداد تین ہے۔ تو یہ ایک خطرہ موجود ہے۔‘

آئینی ماہر اسامہ صدیق کا کہنا تھا کہ ’ایسا دکھائی دیتا ہے کہ چیف جسٹس اپنے فیصلے دیتے رہیں گے اور حکومت نہیں مانے گی۔ تا وقت کہ چیف جسٹس ریٹائر نہیں ہو جاتے۔ اگلا چیف جسٹس آ جائے گا تو پھر یہ اعتراض بھی ختم ہو جائے گا اور قانون، قانون بن جائے گا۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ جائے اور وہ اسے پھر سے ختم کردیں۔ اس لیے میری نظر میں سیاسی اور قانونی معاملات کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تو اس لیے یہ بھی ایک سیاسی موقف ہے۔‘

سپریم کورٹ

چیف جسٹس کے پاس اب کیا راستے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمان کے درمیان یہ کشکمش آئندہ چند ماہ تک جاری رہنے کا امکان ہے یا شاید جب تک چیف جسٹس ریٹائرڈ ہو جائیں گے اور صدر کے عہدے کی آئینی مدت ختم ہو جائے گی۔

نسیم زہرہ کہتی ہیں کہ ’ایک دو دن میں اس قانون کے خلاف کوئی پٹیشن آ جائے گی اور چیف جسٹس اس پر حکم امتناعی جاری کر دیں گے۔ ‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’معاملات کا دار و مدار سپریم کورٹ کے اختیارات پر ہے۔ وہ آرٹیکل 190 کے تحت اداروں سے اقدامات کرنے کو کہہ سکتےہیں۔ لیکن ہم نے پنجاب کے الیکشنز کے معاملے میں دیکھا کہ ان کی پاور کو کچھ پسپائی کا سامنا ہوا۔ سبھی نے مختلف وجوہات دے دیں۔ ‘

نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ’آج کے ماحول میں دیکھیں تو یہ کچھ بھی کرنا چاہیں گے تو ان کو سپورٹ نہیں ملے گی۔ انھیں حکومت اور ادارے جواب دے رہے ہیں جس کے رد عمل میں یہ کچھ نہیں کر پا رہے اور اس کے انداز میں نرمی آئی کہ ہم عید کے بعد جولائی میں بھی الیکشنز کر سکتے ہیں۔ ‘

اسامہ صدیق کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ ایک ماہ کے واقعات کے تناطر میں دیکھا جائے تو ممکن ہے کہ سپریم کورٹ اس قانون کو ماننے سے انکار کر دے۔‘

تاہم انھوں نے واضح کیا کہ ’اس معاملے میں چیف جسٹس کے قانونی دلائل کمزور ہیں کیونکہ یہ ایسا نہیں ہے جس طرح چیف جسٹس پریکٹس کر رہے ہیں کیونکہ آرٹیکل 183 میں کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ایک شخص کا اختیار ہے بلکہ یہ تو سپریم کورٹ کا بطور ادارہ اختیار ہے۔ ‘

نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ ’یہ معاملات اور تُو تُو میں میں یونہی چلتی رہے گی یا دوسری صورت اگر جسٹس فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار یہ کہیں کہ پارلیمان نے ہمیں یہ طاقت دے دی ہے اور بات بڑھ جائے۔۔۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *