عثمان مرزا تشدد اور برہنہ ویڈیو بنانے کے معاملے میں متاثرہ لڑکی کا ملزمان کی شناخت سے انکار
پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر ای 11 میں ایک جوڑے کو برہنہ کرنے، ان پر تشدد اور اُن کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے مقدمے میں متاثرہ لڑکی نے مرکزی ملزم عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس مقدمے میں عثمان مرزا، محب بنگش، ادریس قیوم بٹ، فرحان شاہین اور عطاالرحمن پر ستمبر 2021 میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی اور یہ تمام ملزمان اس وقت اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
ملزمان کے وکلا میں شامل وکیل سفیان چیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ منگل کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں بیان دیتے ہوئے متاثرہ لڑکی نے ملزمان کو پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ وہ افراد نہیں ہیں جنھوں نے ان کی برہنہ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی تھی۔
عدالت میں لڑکی کی جانب سے ایک بیانِ حلفی جمع کروایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس مقدمے میں جو ملزمان نامزد اور گرفتار ہیں یہ وہ لوگ نہیں جو ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں اور وقوعہ کے وقت موجود تھے۔
واضح رہے کہ اس مقدمے کے مرکزی ملزم عثمان مرزا، محب بنگش، ادریس قیوم بٹ، فرحان شاہین اور عطاالرحمن اڈیالہ جیل میں ہیں جبکہ عمر بلال مروت ضمانت پر ہیں۔
بیانِ حلفی کے مطابق گرفتار شدہ ملزمان میں سے کسی نے یہ تو ان کے ساتھ زبردستی کی، نہ زبردستی کوئی ویڈیو بنائی اور نہ ہی انھیں بےلباس کیا۔
خیال رہے کہ مذکورہ لڑکی نے ماضی میں مجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’ملزم عثمان نے اسے اپنے منگیتر کے ساتھ جنسی عمل کرنے کا کہا اور ایسا نہ کرنے پر اجتماعی زیادتی کرنے کی دھمکی دی تھی۔‘ متاثرہ لڑکی کے بیان کے مطابق ملزم عثمان کے دوست بھی اسے یہی دھمکی دی رہے تھے۔
متاثرہ لڑکی نے ملزمان کو شناخت کرنے سے بھی انکار کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان میں سے کسی کو بھی انھوں نے پولیس یا میجسٹریٹ کے سامنے اپنے بیان میں نامزد کیا اور نہ ہی شناخت کیا تھا۔
لڑکی نے عدالت میں یہ بھی کہا کہ وہ کسی گرفتار یا نامزد ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرنا چاہتیں۔
عدالت میں بیان دیتے ہوئے مذکورہ لڑکی کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘پولیس نے یہ سارا معاملہ خود بنایا ہے‘ اور انھوں نے کسی بھی سٹیمپ پیپر پر دستخط نہیں کیے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’میں نے کسی بھی ملزم کو نہ شناخت کیا اور نہ ہی کسی کاغذ پر دستخط کیے‘ بلکہ پولیس اہلکار مختلف اوقات میں سادہ کاغذات پر ان سے دستخط اور انگوٹھے لگواتے رہے۔ ‘
متاثرہ لڑکی نے موبائل فوٹیج بنانے کے الزام میں گرفتار ملزم ریحان کو بھی پہچاننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ’میں ریحان کو نہیں جانتی اور پولیس نے تھانے میں ریحان سمیت دیگر ملزمان کو مجھے دکھایا تھا۔’
اس بیان کے بعد عدالت نے مقدمے کی سماعت 18 جنوری تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ اس مقدمے میں ریاست فریق ہے اور وزیراعظم کی طرف سے بھی اس جوڑے کو برہنہ کر کے ان پر تشدد کرنے اور ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کا نوٹس لیا گیا تھا لیکن جب متاثرہ فریق ہی ملزمان کو شناخت کرنے سے انکار کر دے تو پھر ملزمان کے خلاف کارروائی عمل میں نہیں لائی جا سکتی۔
قانونی ماہرین کے مطابق ایسے حالات میں گرفتار افراد صرف رہا ہی نہیں بلکہ بری ہو جاتے ہیں۔
خیال رہے کہ گذشتہ برس جولائی میں پاکستانی سوشل میڈیا پر ایک لڑکا لڑکی پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں عثمان مرزا سمیت دیگر ملزمان کو اس جوڑے پر تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے ملزمان کو حراست میں لے لیا تھا۔
مذکورہ ویڈیو کے کچھ کلپس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملزم اور اس کے ساتھی ایک کمرے میں نوجوان لڑکے اور لڑکی پر تشدد کر رہے ہیں۔ ویڈیو میں ملزم لڑکے اور لڑکی کو گالیاں دیتے ہیں اور ان کے چہرے پر بار بار تھپڑ مارتے ہیں۔
یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ دونوں کے کپڑے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
ویڈیو میں دکھائی دینے والے متاثرہ افراد خوفزدہ ہیں اور بارہا ان سے درگزر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خاتون سسکیاں لیتے ہوئی روتی ہے مگر ملزم مسلسل ان سے بدتمیزی سے پیش آتا ہے اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان پر تشدد جاری رکھتا ہے۔
ویڈیو کے اختتام پر ملزم متاثرہ افراد کو اپنے دونوں بازوؤں سے پکڑ کر انھیں ‘اچھے طریقے سے گڈ بائے’ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب لڑکا کہتا ہے کہ اسے ‘چکر آ رہے ہیں’ تو ملزم اس سے مزید بدسلوکی کرتا ہے۔
چند ماہ جاری رہنے والی تفتیش کی روشنی میں پولیس نے 25 ستمبر کے روز مقامی عدالت میں جمع کروائے گئے چالان میں کہا تھا کہ ‘ملزم عثمان مرزا نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے اسلحہ کے زور پر نہ صرف اس جوڑے کو برہنہ کیا بلکہ انھیں اس حالت میں تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔
اس چالان میں عثمان مرزا کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا۔ پولیس کے تفتیشی چالان میں مرکزی ملزم عثمان مرزا کے بیان کو بھی حصہ بنایا ہے جس میں انھوں نے دوران تفتیش پولیس کے سامنے انکشاف کیا کہ 18 اور 19 نومبر 2020 کی درمیانی رات میں یہ ویڈیو بنائی گئی تھی۔
پولیس چالان میں کیا انکشافات کیے گئے تھے؟
ایس ایس پی انوسٹیگیشن عطا الرحمان کی سربراہی میں قائم ہونے والی پولیس کی ٹیم نے اپنے تفتیشی چالان میں کہا تھا کہ عثمان مرزا نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے نہ صرف اس جوڑے کو حبسِ بےجا میں رکھا بلکہ انھیں زنا کرنے پر بھی مجبور کیا۔
پولیس کی تفتیشی ٹیم نے اس چالان میں متاثرہ لڑکی اور لڑکے کے بیانات کو بھی ریکارڈ کا حصہ بنایا تھا جو انھوں نے مقامی مجسٹریٹ کے سامنے دیے تھے۔
اس چالان میں پولیس نے لڑکی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’کمرے میں موجود زیادہ تر افراد نے اس کے منگیتر پر تشدد کیا اور اسے برہنہ ہونے پر مجبور کیا، جس کے بعد ملزمان نے انھیں آپس میں جنسی عمل کرنے پر بھی مجبور کیا۔‘
متاثرہ لڑکی نے بیان میں یہ بھی کہا کہ ’کمرے میں موجوہ افراد اس کے جسم کے مختلف حصوں کو چھوتے رہے اور اس کے ساتھ ساتھ ویڈیو بھی بناتے رہے۔‘
پولیس کی جانب سے اس مقدمے کی تفتیش کے بعد جو چالان عدالت میں پیش کیا گیا اس میں کہا گیا تھا کہ ملزم کی نشاندہی پر ویڈیو بنانے والا موبائل فون اور ڈرانے کے لیے استعمال کیا گیا پستول برآمد کر لیا گیا ہے۔
چالان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دوران تفتیش ملزم عمر بلال نے انکشاف کیا کہ عثمان مرزا کے کہنے پر متاثرہ لڑکے اور لڑکی سے 11 لاکھ 25 ہزار روپے لیے، جس میں سے چھ لاکھ روپے عثمان کو دیے گئے جبکہ باقی رقم دیگر ساتھیوں میں تقسیم کی گئی۔
اس چالان میں یہ بھی کہا گیا کہ ملزم اس پستول کا لائسنس پیش نہیں کر سکا جس پر الگ سے غیر قانونی اسلحہ رکھنے کا ایک اور مقدمہ بھی درج کیا گیا ہے۔