عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج بدلنے کے الزامات

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج بدلنے کے الزامات

عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور نتائج بدلنے کے الزامات: الیکشن فراڈ کیا ہے اور اس سے جمہوریت کو کیا خطرہ ہوتا ہے؟

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے 12ویں عام انتخابات کے انعقاد کے تقریباً تین دن بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے بالآخر تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں کے غیر سرکاری و غیرحتمی نتائج کا اعلان کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اب تک قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 74 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک بھر میں اب تک 54 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17 نشستیں جیت چکی ہے۔

تاہم وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں سے سامنے آنے والے نتائج میں مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں جس کے بعد ملک کے متعدد قومی و صوبائی حلقوں کے نتائج کو روکنے اور وہاں دوبارہ گنتی کروائے جانے کی درخواستیں الیکشن کمیشن میں دائر کر دی گئی ہیں۔

پی ٹی آئی کے رہنما بیرسٹر گوہر خان نے الزام لگایا ہے کہ ان کی پارٹی کے جیتی ہوئی 22 سیٹوں پر دھاندلی ہوئی ہے جن میں سے تین اسلام آباد، چار سندھ اور باقی صوبہ پنجاب میں ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ریٹرنگ افسران کو اسلام آباد کے تینوں حلقوں این اے 47،46 اور 48 کے نتائج کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روک دیا ہے، دوسری جانب این اے 15 مانسہرہ میں نتائج میں مبینہ تبدیلی سے متعلق سابق وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست پر بھی این اے 15 کا نتیجہ جاری کرنے سے روک دیا گیا ہے۔

اسی طرح بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کے حلقے پی بی 21 کے 39 پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ گنتی کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف کے کہا ہے کہ مزید ثبوتوں کے ساتھ الیکشن کمیشن میں دیگر حلقوں کے نتائج بھی چیلنج کریں گے۔

امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ان ممالک کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گیا ہے کہ ’پاکستانی عوام کے انتخاب کے فیصلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔‘

ان ممالک کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ انتخابات کے روز موبائل سروسز کی بندش اور بعدازاں انتخابی نتائج میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

ان ممالک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک جمہوری، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی حمایت کرتے ہیں جو انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے سمیت جمہوری اصولوں کے وعدوں کا پابند ہے۔

بیلٹ باکس
تحریک انصاف کی جانب سے انتخابات میں سنگین دھاندلی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں

پاکستان میں انتخابی دھاندلی کے الزامات کی تاریخ

پاکستان میں انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تاریخ بہت پرانی ہے اور شاید ہی کوئی ایسا الیکشن ہو جس میں ہارنے والی جماعت نے سیاسی مخالفین یا اداروں پر انتخابی فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔

کبھی فوج پر مداخلت کا الزام لگتا ہے تو کبھی کسی مخصوص جماعت پر ووٹوں کی چوری کا۔ کبھی ’35 پنکچرز‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہوئے ووٹ چوری کرنے کی بات کی گئی تو کبھی امیدواروں کے اغوا اور تشدد کی خبریں سامنے آئیں۔ غرض ہر الیکشن میں کوئی نہ کوئی سقم ضرور رہ جاتا ہے۔ الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور کامیاب ہونے والے امیدوارں کا جوڑ توڑ اس کے علاوہ ہے۔

جب 1990 کے عام انتخابات ہوئے تو فوجی جرنیلوں پر الزام لگا کہ انھوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی مالی مدد کی تھی۔ سنہ 1993 میں ہونے والے انتخابات میں نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ نے الزام لگایا کہ پی پی پی کے حق میں مبینہ الیکشن دھاندلی ہوئی، سنہ 1997 میں یہی الزام پاکستان مسلم لیگ پر لگا۔ سنہ 2002 کے عام انتخابات فوجی جنرل پرویز مشرف کے زیرِ سایہ ہوئے اور اس وقت جلا وطن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی سیاسی جماعتوں پر بہت پابندیاں لگائی گئی تھیں۔

سنہ 2008 کے انتخابات سب سے زیادہ پرتشدد تھے جن میں بہت سے امیدوار دہشت گرد حملوں میں ہلاک ہوئے جبکہ سنہ 2013 کے انتخابات میں پاکستان تحریکِ انصاف نے الزام لگایا کہ ملک میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے ذریعے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت بنائی گئی ہے اور عمران خان کی جانب سے 40 حلقوں کو ’کھولنے‘ کا مطالبہ کیا گیا۔

سنہ 2018 میں پی ٹی آئی نے انتخابات جیتے لیکن حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے الزام لگایا کہ یہ جیت فوجی حمایت کی مرہونِ منت تھی جس نے کُھل کر عمران خان کی مدد کی ہے۔ فوج نے اس نوعیت کے الزامات کی ہمیشہ تردید کی ہے اور کبھی بھی کسی مخصوص جماعت کو سپورٹ نہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ووٹ اور انتخابی عمل پر شکوک و شبہات

دنیا کے 60 ممالک میں چار ارب سے زیادہ لوگ رواں برس ووٹ ڈالنے کے اہل ہوں گے۔ ماہرین اس خدشے کے ساتھ کہ جمہوریت خطرے سے دوچار ہے انتخابی عمل کے مختلف طریقوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان میں دھاندلی کیسے ہو سکتی ہحں اور اس کا پتہ کیسے لگایا جا سکتا ہے۔

شفاف انتخابات کی تعریف کیا ہے؟

الیکشن

یورپی یونین کے انتخابی عہدیدار ریکارڈو چیلری کہتے ہیں کہ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب پورا انتخابی عمل رائے دہندگان کی مرضی کی عکاسی کرتا ہے اور یہ کہ وہ کیسے ووٹ دیتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کو اس عمل پر اعتماد کرنے کے قابل ہونے کی ضرورت ہے تاکہ وہ انتخابات کے دن ووٹ ڈالیں۔

چیلری جو یورپی یونین کی فارن سروس (EEAS) کے ڈیموکریسی اور الیکٹورل آبزرویشن ڈویژن کے لیے کام کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ’انتخابات کو شفاف طریقے سے کروایا جانا چاہیے جس سے یہ یقینی ہو کہ ہر کسی کے پاس وہ معلومات ہیں جن کی انھیں ضرورت ہے۔‘

’انتخابات میں سب شامل ہوں۔ یہ صرف ووٹرز کو ووٹ دینے کی اجازت دینے کے بارے میں نہیں ہے۔ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کا حصہ لینا بھی شامل ہے، بغیر کسی تشدد کے انتخابی مہم چلانا بھی اس کا اہم جزو ہے۔‘

برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں جمہوریت کے پروفیسر ڈاکٹر نک چیزمین کہتے ہیں کہ اُن کی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ صاف و شفاف انتخابات کا معیار وہ ہے جہاں امیدوار اور شہری آزادانہ طور پر حصہ لے سکتے ہیں اور ووٹوں کی درست گنتی ہو، مگر یہ معاملہ دنیا کے ہر حصے میں تنزلی کا شکار ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اس بات کا خطرہ ہے کہ خراب معیار کے انتخابات دنیا کی جمہوریتوں میں ایک معمول بن جائیں گے۔

ڈاکٹر چیزمین کہتے ہیں کہ کوئی بھی انتخابات کامل نہیں ہوتے لیکن صاف و شفاف انتخابات ووٹروں کو اپنی حکومت کا انتخاب کرنے اور اپنے رہنماؤں کو جوابدہ ٹھہرانے کا اختیار دیتے ہیں۔

انتخابی دھاندلی کیا ہے؟

الیکشن

انتخابی عمل ایک طویل عرصے پر محیط ایکسرسائز ہے اور ماہرین کہتے ہیں کہ اس عمل کے دوران ووٹروں کے ساتھ ہیرا پھیری کبھی بھی ہو سکتی ہے۔

ڈاکٹر چیز مین کہتے ہیں کہ ’صرف انجان لوگ ہی الیکشن کے دن الیکشن میں دھاندلی کرتے ہیں۔ دھاندلی کرنے والے پیشہ ور افراد ایک سال پہلے ہی الیکشن میں ہیرا پھیری شروع کر دیتے ہیں۔‘

جیسا کہ حکمران جماعت کی طرف سے اپوزیشن کو دھمکانے کے لیے سکیورٹی فورسز کا استعمال کرنا، اپوزیشن کی عوام تک رسائی کو روکنے کے لیے میڈیا کو سینسر کرنا اور حکمران جماعتوں کے حق میں انتخابی رجسٹریشن کے عمل کو درست کرنا۔

چیلری کہتے ہیں کہ ’عام طور پر جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ برسرِ اقتدار لوگ ایسے ججوں کی تقرری کرتے ہیں جو آزاد نہیں ہوتے، اس لیے حتمی نتائج کے خلاف کوئی اپیل قبول نہیں کی جاتی۔‘

بڑے پیمانے پر خدشات کے باوجود امریکہ میں ایسا نہیں ہوا۔ اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر سپریم کورٹ کے تین ججوں کو تعینات کیا، جس کی وجہ سے کنزرویٹیو کو 6-3 کی اکثریت ملی، لیکن انھوں نے جو بائیڈن کے خلاف 2020 کے صدارتی انتخابات میں ٹرمپ کی شکست کو چیلنج کرنے والے مقدمات میں ان کے خلاف بھاری اکثریت سے فیصلہ دیا۔

انتخابات میں ہیرا پھیری کرنے کی ایک اور تکنیک ’گیری مینڈرنگ‘ ہے جہاں ووٹنگ کے حلقہ بندیوں کو ایک مخصوص گروپ کو فائدہ پہنچانے کے لیے بدلا جاتا ہے۔

برسراقتدار جماعتیں یا حکومتیں عوامی پیسے کا استعمال کر کے پسند کی پارٹی کی مہم کو فروغ دے سکتی ہیں، غلط معلومات پھیلا سکتی ہیں تاکہ انتخابی عمل کو بدنام کیا جائے یا ووٹ ہی خرید لیے جائیں۔

ڈاکٹر چیزمین کا کہنا ہے کہ ’امریکہ میں، گیری مینڈرنگ، ووٹر کو دبانے اور غلط معلومات پھیلانے کے بارے میں بڑے خدشات ہیں۔‘

’ہم نے پہلے ہی ایک جعلی ڈیجیٹل پیغام دیکھا ہے جس میں بظاہر صدر بائیڈن لوگوں سے کہہ رہے ہیں کہ ووٹ ڈالنے کی زحمت نہ کریں اگرچہ ابھی انتخابی مہم شروع بھی نہیں ہوئی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایل سلواڈور، انڈیا اور سری لنکا میں انتخابات کے دوران غلط معلومات، انتخابی ہیرا پھیری اور سیاسی تشدد کا سنگین خطرہ موجود ہے۔

الیکشن فراڈ کیا ہے؟

یہ ووٹ ڈالنے کے بعد انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش ہے۔ اس میں پہلے سے بھرے ہوئے بیلٹ پیپرز کو بیلٹ بکس میں رکھا جانا، ووٹ ڈالنے کے بعد تعداد میں تبدیلی یا مخالف ووٹوں کو کالعدم کرنے کے لیے بیلٹ بکس کو ضائع کرنا شامل ہو سکتا ہے۔

روس میں 2021 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران پولنگ کے تین دن کے دوران، بڑے پیمانے پر انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے، جن میں بیلٹ باکس جعلی ووٹوں سے بھرنا اور انتخابی مبصرین کو دھمکیاں دینا شامل تھا۔

بڑے پیمانے پر آن لائن شیئر کی گئی ویڈیوز میں لوگوں کو بیلٹ باکسز میں ووٹ بھرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم، روسی حکومت نے کہا کہ اس نے کوئی ’خلاف ورزی‘ نہیں دیکھی۔

ڈاکٹر چیزمین جو ’کتاب ہاؤ ٹو رگ این الیکشن‘ کے شریک مصنف بھی ہیں کہتے ہیں ’اگر آپ کا اس عمل پر مکمل کنٹرول ہے، تو آپ محض ’جھوٹ‘ بول سکتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ووٹوں میں دھاندلی کہیں بھی ہو سکتی ہے، ایک مضبوط انتخابی نظام والے ممالک میں بھی۔

ان ممالک میں، مقامی مبصرین اور سیاسی پارٹیوں کے ایجنٹ عام طور پر اکثر پولنگ سٹیشنوں پر موجود ہوتے ہیں، تاکہ ووٹوں کو ریکارڈ کیا جا سکے اور ان کے اپنے نتائج کا حساب لگایا جا سکے۔

انتخابات

ڈاکٹر چیزمین گھانا میں 2016 کے صدارتی انتخابات کی مثال دیتے ہیں جہاں اپوزیشن جماعتوں نے نتائج جمع کرنے کے لیے موبائل فون ایپ کا استعمال کیا۔

دریں اثنا 2021 میں زیمبیا میں، مقامی مبصرین اور چرچ کے گروہوں نے بین الاقوامی برادری کے ساتھ کام کیا اور ایک متوازی ووٹ ٹیبلیشن لسٹ مرتب کی۔ اس سے الیکشن کمیشن پر اسی طرح کے نتائج جاری کرنے کے لیے دباؤ پڑا۔

ڈاکٹر چیزمین کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں یہ مشکل تر ہو گیا ہے، کیونکہ آمرانہ حکومتوں نے انتخابی عمل کے دوران سول سوسائٹی اور این جی اوز کی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے قوانین منظور کیے ہیں۔

چیلری کہتے ہیں کہ انتخابی مبصرین صرف انتخابی عمل کے آخری حصے کا مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ پہلے مرحلے میں ہونے والی دھوکہ دہی کو نہیں روک سکتے۔

کیا اپوزیشن کی جماعتیں الیکٹورل فراڈ کر سکتی ہیں؟

ڈاکٹر چیز مین کہتے ہیں کہ اپوزیشن بھی ایسی چیزیں ’انڈر ہینڈ‘ کر سکتی ہے۔

’ڈونلڈ ٹرمپ جیسا کوئی، جو اس وقت اپوزیشن میں ہے، ہر قسم کے الزامات لگا سکتا ہے، جن میں سے کچھ سچے ہو سکتے ہیں، لیکن زیادہ تر نہیں، اور اسے حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔‘

بائیڈن
صدر بائیڈن پہلے ہیں جعلی ڈیجیٹل مہم کا شکار ہیں اور ابھی نومبر تک صدارتی انتخابات ہونے بھی نہیں

کیا جمہوریت کو خطرہ ہے؟

یورپی یونین کے اہلکار چیلیری کہتے ہیں کہ ’ہمیں اپنے آپ کو بیوقوف نہیں بنانا چاہیے۔ ہم عالمی سطح پر جمہوریت کے بُرے دور میں ہیں۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں جمہوری کساد بازاری رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ بننے والے عوامل میں کمزور معیشت اور سازشی نظریات کو پھیلانے میں سوشل میڈیا کا منفی اثر و رسوخ شامل ہے۔

ڈاکٹر چیز مین کہتے ہیں کہ جمہوریت کے مستقبل کا انحصار اس سال ہونے والے انتخابات کے نتائج پر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اگر لوگ ایسی جمہوریت میں ہیں جہاں انتخابات میں ہمیشہ دھاندلی ہوتی ہے، تو آج نہیں تو کل بیزار ہو جائیں گے۔‘

’ووٹنگ یا سیاسی شرکت کا کیا فائدہ، اگر نظام ہمیں کبھی بھی حقیقی انتخاب کی اجازت ہی نہیں دیتا؟‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *