ظہور آغا سینیٹ کی نشست کی قربانی کے بدلے گورنر ہاؤس پانے والے تحریک انصاف کے سرگرم رہنما
تحریک انصاف کے پرانے کارکن اور سرگرم رہنما سید ظہور آغا ایڈوکیٹ کو بلوچستان کا نیا گورنر مقرر کیا گیا ہے۔
صدر مملکت عارف علوی نے ان کی تقرری بدھ کو سابق گورنر بلوچستان جسٹس ریٹائرڈ امان اللہ خان یاسین زئی کے استعفیٰ کے بعد کی۔
اگرچہ وزیر اعظم عمران خان نے 28 اپریل کو اپنے دورۂ کوئٹہ کے دوران تحریک انصاف بلوچستان کی قیادت کا یہ مطالبہ مان لیا تھا کہ بلوچستان میں بھی تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی کسی شخصیت کو گورنر بنایا جائے گا لیکن اس میں دو ماہ سے زائد کی تاخیر ہوئی۔
سید ظہور آغا کی بطور گورنر بلوچستان تقرری سے چاروں گورنر ہاﺅسز کی سربراہی اب تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی شخصیات کر رہی ہیں۔
سید ظہور آغا کون ہیں؟
بلوچستان کے نئے نامزد گورنر سید ظہور آغا تحریک انصاف بلوچستان کے سرگرم رہنماﺅں میں شامل رہے۔ وہ ایک کاروباری شخصیت بھی ہیں جن کی کوئٹہ میں ایک فلور مل ہے۔ وہ بلوچستان فلور ملز ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں۔
وہ 2021 میں سینیٹ کے انتخابات کے لیے پی ٹی آئی کے امیدوار تھے لیکن بعد میں مرکزی قیادت کی ہدایت پر اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے امیدوار کے حق میں انتخاب سے دستبردار ہو گئے تھے۔
سید ظہور آغا کا تعلق ضلع کوئٹہ سے متصل بلوچستان کے ضلع پشین سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ کے اسلامیہ پبلک ہائی سکول سے حاصل کی۔
انھوں نے سائنس کالج سے بی ایس سی کیا جبکہ بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے انگلش لیٹریچر میں ڈگری حاصل کی۔ عملی سیاست کا آغاز انھوں نے 2006 میں پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے کیا۔
اس سے قبل وہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان میں مختلف عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں۔
گذشتہ رمضان میں وزیر اعظم عمران کے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر تحریک انصاف بلوچستان کی قیادت نے یہ مطالبہ کیا تھا کہ گورنر امان اللہ یاسین زئی کو تبدیل کر کے ان کی جگہ پر پارٹی کا اپنا گورنر لایا جائے۔
اگرچہ سید ظہور آغا بلوچستان کے سیاسی منظر نامے پر بہت زیادہ معروف شخصیت نہیں لیکن ان کا شمار تحریک انصاف کے پرانے کارکنوں میں ہوتا ہے۔
ان کی نامزدگی کے بعد سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا کی طرح اب گورنر ہاﺅس بلوچستان میں بھی تحریک انصاف کا گورنر براجمان ہو گا۔
تحریک انصاف بلوچستان گورنر ہاؤس تک رسائی کیوں چاہتی تھی؟
بلوچستان میں نہ صرف تحریک انصاف کی اہم اتحادی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہے بلکہ تحریک انصاف اس حکومت میں دوسری بڑی جماعت کے طور پر شامل ہے۔
مرکز اور بلوچستان میں اہم اتحادی جماعتیں ہونے کے باوجود بلوچستان میں ان کے درمیان اختلافات ہیں۔
بظاہر یہ اختلافات تحریک انصاف میں پارٹی کے صوبائی صدر اور بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی رہنما سردار یار محمد رند اور وزیر اعلیٰ جام کمال کے درمیان زیادہ شدید ہیں۔
ان اختلافات کی بنیاد پر سردار یار محمد رند نے حالیہ بجٹ اجلاس میں وزیر تعلیم کے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اپنا استعفیٰ گورنر بلوچستان کو بھیج دیا تھا۔
تحریک انصاف بلوچستان کے صدر سردار یار محمد یہ بات اعلانیہ کہتے رہے کہ بلوچستان کی مخلوط میں پارٹی کو اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔
وزیر اعظم کے 28 اپریل کے دورۂ کوئٹہ کے موقع پر جہاں تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی صدر نے وزیر اعظم سے وزیر اعلیٰ کے بارے میں شکایت کی تھی وہاں یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ گورنر بلوچستان کو بھی تبدیل کیا جائے۔
تحریک انصاف بلوچستان کے پارلیمانی گروپ کے ترجمان بابر یوسفزئی نے بی بی سی کو گورنر کی تبدیلی کے مطالبے کی وجوہات یہ بتائی تھیں کہ گورنر ہاﺅس تک پارٹی کے کارکنوں کو رسائی حاصل نہیں، اس لیے پارٹی کا اپنا گورنر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ دیگر صوبوں میں گورنر ہاﺅسز کے دروازے عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے لیے کھلے ہیں لیکن ان کے بقول بلوچستان میں عوام اور تحریک انصاف کے کارکنوں کو گورنر ہاﺅس تک رسائی حاصل نہیں تھی۔
انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم کا یہ واضح نکتہ نظر بھی تھا کہ گورنر ہاﺅسز کو عوام کے لیے کھولا جائے اور پارٹی کارکنوں کو ان تک رسائی حاصل ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ بلوچستان میں تحریک انصاف حکومت کی دوسری بڑی اتحادی جماعت ہے اور ’پارٹی کا گورنر نہ ہونے سے ہمارے پارٹی کے مسائل حل نہیں ہو رہے تھے اس لیے وزیر اعظم نے یہ مناسب سمجھا کہ گورنر امان اللہ خان یاسین زئی کو ہٹا کر تحریک انصاف کے کسی بندے کو گورنر متعین کیا جائے۔