طلحہ طالب پاکستانی ویٹ لفٹر کے والد کے لیے اولمپکس میں پانچویں پوزیشن بھی ’گولڈ میڈل کے برابر‘
طلحہ نے اپنے کریئر کا ریکارڈ 170 کلوگرام وزن اٹھا رکھا تھا، ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی اور وہ خوشی سے چلّا رہے تھے۔ اس آدھے گھنٹے کے لیے جیسے سارا پاکستان ہی چلا اور مسکرا رہا تھا۔
اس مسکراہٹ کے پسِ پشت کتنی مایوسیاں، درد اور مشکلات چھپی تھیں یہ صرف طلحہ اور ان کے گھر والے ہی جانتے ہیں۔ طلحہ کو ٹوکیو میں تو چینی، کمبوڈیئن، اور اطالوی ویٹ لفٹرز کا سامنا تھا، لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے انھیں ‘اپنوں’ کی ہی عدم دلچسپی اور ناروا سلوک کا مقابلہ کرنا پڑا تھا۔
یہ وہی اپنے تھے جنھوں نے طلحہ کے والد اور کوچ محمد اسلام ناطق کے مطابق قومی سطح پر چیمپیئن ویٹ لفٹر کی اسلام آباد میں ٹریننگ کو ہاسٹل کا خرچہ خود اٹھانے سے مشروط کر دیا تھا۔
مقابلے کے دوران ایک فلسطینی کوچ جب ان کی پشت تھپکاتے ہوئے انھیں شاباش دیتے دکھائی دیے تو اکثر افراد کے ذہنوں میں یہ سوال آیا پاکستانی کوچ کہاں ہے، طلحہ کی تربیت کس نے کی تھی؟
سارے پاکستان کو کچھ لمحوں کے لیے ہی سہی، مسرت بخشنے والے طلحہ کے والد ہی ان کی امید بندھاتے رہے، ان کی کوچنگ کرتے رہے اور اس آدھے گھنٹے میں وہ اور ان کے گھر والے پورے پاکستان کی طرح ایک معجزے کی دعائیں مانگتے رہے۔
محمد اسلام ناطق کے نزدیک یہ بھی ایک معجزہ ہی ہے کہ طلحہ بغیر عالمی سطح کی سہولیات کے انتہائی کڑے مقابلے کے بعد پانچویں پوزیشن پر آئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ‘طلحہ طالب نے جن حالات میں اولمپکس ویٹ لفٹنگ کی 67 کلوگرام کیٹگری میں پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے آپ اسے گولڈ میڈل ہی سمجھیں۔’
ادھر سوشل میڈیا پر جہاں گوجرانوالہ کے طلحہ کو عمدہ کارکردگی دکھانے پر سراہا جا رہا ہے وہیں پاکستان میں ایتھلیٹکس فیڈریشنز پر برہمی کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
لیکن بحث کے متعلق بات کرنے سے پہلے طلحہ کے والد کی زبانی ان کی ہمت اور مسلسل محنت کی کہانی جانتے ہیں۔
‘سکول والوں کے شکر گزار ہیں کہ انھوں نے بجلی کا خرچہ تک نہیں لیا’
اب تک آپ کو یہ تو معلوم ہو چکا ہو گا کہ طلحہ نے اپنی ٹریننگ میں ایک سکول کی چار دیواری میں کی تھی۔ جہاں ان کے ہم پلہ دیگر ویٹ لفٹر بین الاقوامی معیار کے ساز و سامان کے ذریعے اولمپکس کے لیے تیار ہو رہے تھے، وہاں طلحہ کی ٹریننگ میں سکول کے اوقات سے لے کر موسم تک ہر چیز ہی رکاوٹ تھی۔
طلحہ نے جس سکول سے پڑھائی کی تھی اس سکول کی انتظامیہ سے درخواست کر کے وہاں ویٹ لفٹنگ کا سامان رکھا گیا تھا اور اب محمد اسلام سکول کی انتظامیہ کے مشکور ہیں کہ ‘انھوں نے نہ کرائے کی مد میں کوئی رقم لی نہ ہی بجلی کا خرچہ مانگا۔’
طلحہ کے والد ان کی محنت سے خاصے متاثر ہیں اور اس بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ‘جو بندہ تہجد کی نماز کے وقت اٹھ کر نماز پڑھے اور فجر کی نماز تک مسلسل ورزش کرے، پھر فجر کی نماز پڑھ کر سوئے، اور پھر دن کے مختلف اوقات میں ورزش جاری رکھے وہ یقیناً محنتی انسان ہے۔
‘طلحہ پر اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے وہ اس عمر میں بھی میچور ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ ‘شدید گرمی میں درجہ حرارت 48 ہے تب بھی طلحہ اپنی ٹریننگ کر رہا ہے اور اگر سردی کا موسم ہے اور درجہ حرارت منفی ہے تب بھی طلحہ ٹریننگ کر رہا ہے، بارش میں بھی ٹریننگ نہیں رکی، میں کہہ سکتا ہوں کہ میرا بیٹا محنتی ہے تب ہی تو وہ اولمپکس تک گیا ہے۔’
اولمپکس سے کچھ روز قبل ہی طلحہ کو سپورٹس بورڈ کے اعلیٰ عہدیداران کی جانب سے جگہ فراہم کی گئی۔
محمد اسلام ناطق کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستان کی اولمپکس ٹیم کا اعلان ہوا تب سے محتلف اطراف سے تنقید کا سلسلہ جاری ہے جو حوصلہ شکنی کے مترادف تھا۔
‘حتیٰ کہ چند گھنٹے پہلے تک مختلف باتیں کی جارہی تھیں اور اس قدر تنقید کی جارہی تھی جیسے ہم نے اولمکپس میں شرکت کر کے کوئی گناہ کر دیا ہے۔’
خیال رہے کہ بیڈمنٹن کھلاڑی ماحور شہزاد کو اپنا پہلا میچ ہارنے اور پریکٹس کے بعد تصاویر پوسٹ کرنے پر ایک صحافی نے انھیں تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد سوشل میڈیا پر اس صحافی پر بھی خاصی تنقید کی گئی تھی۔
اگلے مقابلوں کے بارے میں بتاتے ہوئے محمد اسلام ناطق نے کہا ‘اگر اگلے اولمپکس میں میڈل لانے ہیں تو آج سے ہی اس بارے مہم چلانی ہو گی، اپنے کھلاڑیوں کو سہولیات دینی ہوں گی، کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔‘
‘یہاں تو صرف دس دن پہلے پتہ چلتا ہے کہ فلاں کھلاڑی اولمپکس میں جارہا ہے ایسا کب تک چلے گا۔’
‘ٹویٹ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ خود اس بارے میں کچھ کرنے کی کوشش کریں’
سوشل میڈیا پر حکومتی عدم دلچسپی کے حوالے سے بحث اس وقت زیادہ گرم ہوئی جب حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان نے ایک ٹویٹ میں طلحہ کی تعریف کرنے کے بعد پاکستان سپورٹس بورڈ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘پاکستان سپورٹس بورڈ کو جاگنے کی ضرورت ہے، ہمیں اس حوالے سے بڑی اصلاحات درکار ہیں۔’
ان کی اس ٹویٹ پر اکثر صارفین یہ پوچھتے نظر آئے کہ آپ خود ہی تو حکومت میں ہیں۔ محمد ظہیر نامی صارف نے لکھا کہ ‘آخر آپ کس سے سوالات پوچھ رہے ہیں، ٹویٹ کرنے سے بہتر ہے کہ آپ خود اس بارے میں کچھ کرنے کی کوشش کریں۔
صحافی فیضان لکھانی نے فیصل جاوید کو جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’پاکستان سپورٹس بورڈ وفاقی حکومت کے دائرہ کار میں آتا ہے، یہ حکومت کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ ایتھلیٹ کو سہولیات اور امداد فراہم کرے۔‘
ریحان الحق نے لکھا کہ یہاں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ طلحہ نے اولمپکس کی تیاری کیسے کی۔ اس کے لیے ان کے والد اور خاندان کو داد دینے کی ضرورت ہے نہ کہ ان بے شمار حکومتی اہلکاروں کا جو ان کی کامیابی کا کریڈٹ لینے کی کوشش کریں گے۔
اس بارے میں جب بحث چھڑی تو ایک ایسا کھیل جس کے کھلاڑیوں کو ملک میں بہت اہمیت دی جاتی ہے وہ بھی ان کو سراہے بغیر نہ رہ سکے۔ پاکستانی کرکٹر شاداب خان نے لکھا کہ وہ پاکستانی ایتھلیٹس کی امداد کے ایک فاؤنڈیشن کا قیام عمل میں لائیں تاکہ آئندہ مقابلوں میں ہم میڈل جیت سکیں۔
فاسٹ بولر حسن علی نے لکھا کہ ’گوجرانوالہ کے لڑکے نے دلیری کے ساتھ ملک کی نمائندگی کی۔ آپ ایک چیمپیئن ہیں طلحہ طالب۔