شہزاد اکبر وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب مستعفی ہو گئے
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے احتساب اور امورِ داخلہ بیرسٹر شہزاد اکبر نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
پیر کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیراعظم کو اپنا استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ نیک نیتی سے امید رکھتے ہیں کہ ملک میں وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریکِ انصاف کے منشور کے مطابق احتساب کا عمل جاری رہے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف سے منسلک رہیں گے اور بطور قانون دان بھی کام کرتے رہیں گے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر یہ خبریں گذشتہ ہفتے سے گرم تھیں کہ وزیراعظم عمران خان نے شہزاد اکبر کو ہٹانے کا فیصلہ کیا ہے تاہم اس وقت وزیراعظم کے ترجمان برائے سیاسی روابط شہباز گل نے اب خبروں کو غلط قرار دیا تھا۔
شہزاد اکبر کے استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ شہزاد اکبر نے شدید دباؤ میں اپنا کام کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مافیاز سے ٹکر لینا کبھی بھی آسان نہیں تھا لیکن جیسے آپ نے کام کیا اور مقدمات کو نمٹا وہ قابلِ تحسین ہے۔‘
ادھر اپوزیشن کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل عطا اللہ تارڑ نے استعفے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کیا شہزاد اکبر سے قوم کا پیسہ اور وقت ضائع کرنے کا حساب لیا جائے گا؟ ایسٹ ریکوری یونٹ نے قوم کے اربوں روپے خرچے اور نتیجہ کچھ نہ نکلا۔‘
شہزاد اکبر کون ہیں؟
شہزاد اکبر پیشے کے اعتبار سے وکیل ہیں اور 2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کے بعد 20 اگست 2018 کو شہزاد اکبر کو وزیراعظم کا معاونِ خصوصی برائے احتساب مقرر کیا گیا تھا۔
ستمبر 2018 میں انھیں بیرونِ ملک اثاثوں کی نشاندہی اور حصول کے لیے قائم کردہ ایسٹ ریکوری یونٹ کا سربراہ بنا دیا گیا تھا جبکہ جولائی 2020 میں انھیں وزیراعظم کا مشیر مقرر کیا گیا تھا اور انھیں وزیر اعظم عمران خان کے احتساب کے دعوے پر عملدرآمد کی کوششوں کا سرخیل سمجھا جاتا تھا۔
نامہ نگار زبیر اعظم کے مطابق اپنے دور میں ان کی زیادہ توجہ اپوزیشن بالخصوص شریف خاندان کے خلاف معاملات پر رہی جن پر وہ آئے روز پریس کانفرنسیں بھی کرتے نظر آتے تھے۔شہزاد اکبر نے یہ عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں دعوی کیا تھا کہ وہ ’قومی خزانہ لوٹنے والے 100 بڑے مگرمچھوں کی نشاندہی کر چکے ہیں اور جلد ہی منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس لایا جائے گا‘۔
انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ سوئس اکاؤنٹس میں پاکستانیوں کے تقریباً 280 ارب ڈالرز موجود ہیں جن کی واپسی کو ممکن بنایا جائے گا۔ شہزاد اکبر اس کے علاوہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو پاکستان واپس لانے کی کوششوں کے دعوے بھی کرتے رہے لیکن یہ کام بھی تاحال مکمل نہیں ہو سکا۔
ان کے دور کا ایک اور تنازعہ اس وقت سامنے آیا تھا جب بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض برطانیہ میں نیشنل کرائم ایجنسی سے ایک تصفیے کے نتیجے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کی رقم واپس کرنے پر رضامند ہوئے تھے۔ نیشنل کرائم ایجنسی کے مطابق یہ پیسہ حکومت پاکستان کو واپس کیا جانا تھا لیکن ملک ریاض کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ رقم سپریم کورٹ کو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے واجب الادا رقم کی قسط کے طور پر جمع کرائی گئی ہے۔
اس سوال پر کہ یہ رقم بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے میں ملک ریاض پر واجب الادا رقم کی مد میں سپریم کورٹ کو کیسے منتقل کی جا سکتی ہے، بیرسٹر شہزاد اکبر نے سوالات کے جواب دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ رازداری کے حلف نامے کے تحت وہ اس کی مزید تفصیلات بتانے سے قاصر ہیں۔
اس سے قبل شہزاد اکبر کا نام اس وقت بھی متنازع ہوا جب سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس کے دوران اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی جانب سے تحقیقات کا انکشاف ہوا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپنے خلاف دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس میں مشیر شہزاد اکبر کی اثاثہ جات ریکوری یونٹ کی بطور سربراہ تقرری، ان کی شہریت اور اثاثوں سے متعلق سوالات اٹھائے تھے۔
تحریکِ انصاف کے دور سے قبل سابق فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں نیب میں شہزاد اکبر کی خدمات حاصل کی گئی تھیں جس دوران وہ مختلف ریفرنسز میں نیب کو قانونی مشاورت فراہم کرتے تھے تاہم اُنھیں نیب کے بورڈ کے اجلاس میں طلب نہیں کیا جاتا تھا۔
وہ قومی احتساب بیورو کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے ہیں۔
نیب سے الگ ہونے کے بعد شہزاد اکبر زیادہ عرصہ بیرون ممالک میں رہے اور پھر پاکستان واپس آ کر اس وقت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے خلاف اعلیٰ عدالتوں میں درخواستوں دائر کرتے رہے۔ یہ وہی وقت تھا جب موجودہ وزیر اعظم عمران خان بھی ان ڈرون حملوں کے خلاف ریلیاں نکالا کرتے تھے۔