شہزادہ حمزہ کی ویڈیو کا معاملہ اردن میں جاری بحران سے سعودی عرب کا کیا تعلق ہے؟
سعودی حکام نے اس تاثر کی تردید کی ہے کہ ان کا اردن میں ہونے والی حکومت مخالف بغاوت کی حالیہ کوشش سے کوئی تعلق تھا۔
سنیچر کے روز اردن کی عوام میں انتہائی مقبول اور سابق ولی عہد شہزادہ حمزہ کو قومی سامتی کو خطرے میں ڈالنے کے الزام میں گھر میں نظر بند کر دیا گیا تھا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں اٹھایا گیا جب شہزادہ حمزہ نے چند ایسی ملاقاتوں میں شرکت کی جہاں پر ان کے سوتیلے بھائی بادشاہ عبد اللہ پر کھلے عام تنقید کی گئی۔
نظر بند ہونے کے بعد شہزادہ حمزہ نے بی بی سی کو دو ویڈیوز ریلیز کیں جن میں انھوں نے اپنے ملک کی حکومت کو بدعنوان اور ناہل قرار دیا اور کہا کہ لوگ سکیورٹی فورسز کی جانب سے ہراساں کیے جانے کے خوف سے بات نہیں کرتے۔
یہ معاملہ قدرے ٹھنڈا اس وقت پڑا جب بادشاہ عبداللہ کے چچا نے مداخلت کی اور معاملات سلجھانے کی کوشش کی۔ تاہم اس حوالے سے کافی قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ اس پورے معاملے میں سعودی عرب کا کیا کردار تھا۔
سعودی عرب کے وزیرِ خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان اردن کے دارالحکومت امان ایک وفد لے کر پہنچے ہیں جہاں انھوں نے شاہ عبد اللہ اور ان کی حکومت کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اعلان کیا ہے اور انھیں اطمینان دلایا ہے کہ اس معاملے پر سعودی پوزیشن ہے اور اس کے علاوہ خطے میں عدم استحکام کی کسی بھی سعودی مداخلت بالکل بیوقوفی ہے۔
تو آخر اس معاملے میں سعودی کنیکشن کیا ہے؟
گذشتہ اختتامِ ہفتہ پر جب یہ بحران عروج پر تھا تو اردن کی سکیورٹی فورسز کا کہنا تھا کہ وہ شہزادہ حمزہ کی نگرانی کر رہی ہیں۔ ان فورسز کا دعویٰ تھا کہ چند غیر ملکی عوامل ملک میں شاہی خاندان اور ان کی حکومت کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ شہزادہ حمزہ اس سے انکار کرتے ہیں۔
یہاں پر دو بنیادی معاملے ہیں۔
ایک تو شہزادہ حمزہ نے اردن کے سکیورٹی حکام کو اس وقت حیران و پریشان کر دیا جب وہ ناراض قبائلی عمائدین سے جا کر ملے۔ دوسرا یہ کہ کچھ حکام کے کم از کم ایک بیرونی ملک سے تعلقات ہیں۔
سنیچر کے روز گرفتار ہونے والی معروف ترین شخصیات میں سے ایک بسام اوادللہ تھے۔ وہ شاہی دربار کے سابق سربراہ تھے اور اب سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے معاشی مشیر ہیں۔ ان کے پاس سعودی اور اردنی دونوں شہریتیں ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کا دعویٰ ہے کہ سعودی وفد اُن کو واپس ریاض لے جائے بغیر لوٹنے کو تیار نہیں تھا۔ تاہم سعودی حکام نے اس کی تردید کی ہے۔
بسام اوادللہ کے متعدد طاقتور بین الاقوامی تعلقات ہیں۔ سعودی ولی عہد کے علاوہ ان کے متحدہ عرب امارات میں ولی عہد شہزادہ محمد بن زائد سے بھی روابط ہیں۔ اطلاعات کے مطابق وہ حال ہی میں یروشلم کے گرد فلسطینی زمینوں کی اماراتی خریداری میں بھی ملوث رہے ہیں۔
سعودی عرب اور اردن معاشی طور پر بہت مختلف سہی مگر ان کے درمیان بہت کچھ یکساں بھی ہے۔ ان کے تاریخی تعلقات صدیوں پرانے ہیں اور قبائلی روابط مشترکہ صحرا میں پھیلے ہوئے ہیں۔
جب میں اپنی نوجوانی میں جنوبی اردن میں بنی ہوایتیت قبیلے کے لوگوں کے ساتھ رہ رہا تھا تو اس وقت وہ اکثر اپنی بکریاں اور اونٹ چراتے چراتے سعودی عرب میں جا کر تجارت کرتے اور اطلاعات کا تبادلہ ہوتا۔ جب سے عرب سپرنگ نے مشرقیِ وسطی میں سنی بادشاہتوں کو خطرے میں ڈالا ہے، ایک دوسرے کی حمایت کرنا ان دونوں بادشاہوں کے لیے مفید ہے۔
اردن کے دونوں طاقتور ہمسایہ ممالک، اسرائیل اور سعودی عرب، کی جانب سے اس چھوٹے اور قدرے غریب ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی منطق کو سمجھنا مشکل ہے۔ سابق شاہ حسین اور اور اب ان کے بیٹے شاہ عبداللہ کے زیرِ اقتدار ہاشمی خاندان مشرقی وسطیٰ کی سیاست کی تیزی سے بدلتی ہواؤں کو سہہ چکا ہے۔
سنہ 1994 میں اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ داخلی طور پر تو غیر مقبول تھا مگر اس سے خطے میں کچھ استحکام آیا ہے۔ مگر اردن کے پاس اپنے قدرتی وسائل کچھ کم ہیں اور اس کے انفراسٹرکچر کو پہلے عراق سے پناہ گزینوں اور پھر شام سے پناہ گزینوں کا بوجھ سہنا پڑا ہے۔
ادھر کورونا وائرس کی وبا نے سیاحت کی صنعت ختم کر دی ہے۔ حکومت کی مبینہ ناہلی کے خلاف عوام میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔
مگر خطے کی حکومتوں کو پتا ہے کہ اگر اردن کا شاہی خاندان نکالا گیا تو اس سے خطے میں خطرناک واقعات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اسی لیے فوری اور پبلک میں دیگر ممالک آ کر اردن کے شاہی خاندان سے یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ادھر القاعدہ اور دولتِ اسلامیہ تیار بیٹھے ہیں کہ اگر اس ملک، جو کہ خطے میں استحکام کا ستون رہا ہے، کو کچھ ہوتا ہے تو وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔