شمیمہ بیگم دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کرنے والی خاتون کی برطانیہ میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے مدد کی پیشکش
15 سال کی عمر میں برطانیہ سے شام کے لیے روانہ ہونے والی شمیمہ بیگم کا کہنا ہے کہ انھیں اپنی ساری زندگی نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ (آئی ایس) میں شمولیت پر پچھتاوا رہے گا اور اسی لیے انھوں نے برطانیہ کو دہشت گردی کے خلاف لڑنے میں مدد کی پیشکش کی ہے۔
شمیمہ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ’معاشرے کے لیے فائدہ مند‘ ہو سکتی ہیں اور انھیں شامی کیمپ میں ’سڑنے‘ کے لیے چھوڑ دینا فضول ہوگا۔
22 سالہ شمیمہ پر نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں فعال کردار ادا کرنے کا الزام ہے تاہم وہ اس سے انکار کرتی ہیں۔
سنہ 2019 میں اس وقت کے برطانوی وزیرِ داخلہ ساجد جاوید نے قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر ان کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی تھی اور وہ آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہیں۔
فروری 2015 میں شمیمہ بیگم 15 برس کی تھیں جب وہ مشرقی لندن کی دو مزید لڑکیوں کے ساتھ دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے شام چلی گئیں۔
شمیمہ بیگم ترکی کے راستے رقہ میں دولت اسلامیہ کے ہیڈکوارٹر پہنچی تھیں اور وہاں انھوں نے ایک ولندیزی یا ڈچ شخص سے شادی کر لی تھی اور وہ تین سال سے زیادہ عرصے تک نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے زیر اقتدار علاقوں میں رہیں۔
پھر فروری 2019 میں معلوم ہوا کہ وہ ایک شامی پناہ گزین کیمپ میں ہیں، اس وقت وہ حاملہ تھیں۔ یہ بچہ بعد میں نمونیہ کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ اس موقعے پر شمیمہ بیگم نے بتایا تھا کہ اس سے پہلے بھی ان کے دو بچوں کی موت ہو چکی ہے۔
شمیمہ نے سنہ 2017 میں مانچسٹر ایرینا بم دھماکے کو داعش کے گڑھوں پر فوجی حملوں کے مترادف قرار دیا تھا اور اس دہشت گردانہ حملے کو ’انتقامی کارروائی‘ کہا تھا۔ اس حملے میں بچوں سمیت 22 افراد ایک بم دھماکے میں مارے گئے تھے، جس کی ذمہ داری آئی ایس نے قبول کی تھی۔
بی بی سی کے رپورٹر جوش بیکر نے جب ان سے پوچھا کہ دنیا بھر میں نسل کشی اور قتل کا ارتکاب کرنے والے ایک گروہ کا حصہ بننے کے بارے میں سوچنے پر انھوں نے کیسا محسوس کیا، شمیمہ نے کہا: ’مجھے یہ سوچ کر گھن آتی ہے۔۔۔ اپنے آپ سے نفرت ہوتی ہے۔‘
ہمارے رپورٹر نے پوچھا کہ کیا انھوں نے آئی ایس کے بارے میں اپنی رائے اس لیے تبدیل کی کہ وہ خلافت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
جواب میں انھوں نے کہا ’میں کافی عرصے سے یہی کہتی آ رہی ہوں لیکن اب میں اپنی حقیقی رائے کا اظہار کرنے میں سکون محسوس کرتی ہوں۔‘
بی بی سی ساؤنڈز اور بی بی سی 5 لائیو کو دیے گئے انٹرویو میں شمیمہ بیگم نے یہ بھی کہا کہ کہ اگر انھیں برطانیہ واپس جانے کی اجازت دی گئی تو وہ آئی ایس کی جانب سے لوگوں کو شام جانے پر آمادہ کرنے کے حربوں کے بارے میں مشورہ دے سکتی ہیں اور ان لوگوں سے بات کرنے کے طریقے بتا سکتی ہیں جنھیں بنیاد پرستوں سے خطرہ ہے۔
شمیمہ نے کہا کہ وہ اسے اپنی ’ایک ذمہ داری‘ سمجھتی ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ کوئی اور نوجوان لڑکی اسی طرح اپنی زندگی کو تباہ کردے جیسا کہ شمیمہ نے کیا تھا۔
بدھ کے روز بیگم نے آئی ٹی وی کے گڈ مارننگ برٹن سے بات کی اور بورس جانسن کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’اثاثہ‘ بننے کی براہ راست پیشکش کی۔
شامی پناہ گزین کیمپ سے بات کرتے ہوئے بیگم نے کہا کہ دہشت گردانہ کاروائیوں میں ان کے فعال کردار کے متعلق ’کوئی ثبوت نہیں ہے‘ اور وہ عدالت میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے تیار ہیں۔
انھوں نے کہا ’میں جانتی ہوں کہ چاہے میں کچھ بھی کہوں یا کروں، کچھ لوگ یقین نہیں کریں گے کہ میں بدل گئی ہوں، یقین کریں کہ میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔‘
’لیکن ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں میں تھوڑا سا بھی رحم اور ہمدردی موجود ہے، میں آپ کو اپنے دل کی گہرائیوں سے بتا رہی ہوں کہ مجھے شام میں قدم رکھنے کے بعد سے ہر فیصلے پر پچھتاوا ہے اور میں اس پچھتاوے کے ساتھ باقی زندگی گزاروں گی۔‘
’جو کچھ میں نے کیا اس کے لیے مجھ سے زیادہ کوئی مجھ سے نفرت نہیں کر سکتا اور میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ ’میں معافی چاہتی ہوں‘ اور مجھے ایک اور موقع دیں۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ ’آئی ایس میں واپس جانے کے بجائے مرنے کو ترجیح دیں گی‘ اور مزید کہا: ’میرا جرم صرف یہ ہے کہ میں اتنی بے وقوف تھی کہ آئی ایس میں شامل ہو گئی۔‘
بیگم کا کہنا ہے کہ وہ عدالت جانے اور ان لوگوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں جنھوں نے ایسے دعوے کیے جن کی وہ تردید کرتی ہیں ’کیونکہ میں جانتی ہوں کہ میں نے آئی ایس میں کچھ نہیں کیا۔۔۔ میں صرف ایک ماں اور بیوی تھی۔‘
لیکن ساجد جاوید جو اب سیکریٹری صحت ہیں، کا کہنا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ شمیمہ بیگم کو واپس آنے اور ان کی شہریت کا مقدمہ لڑنے کی اجازت دی جائے گی۔
انھوں نے جی ایم بی کو بتایا کہ بیگم کی برطانیہ کی شہریت چھیننے کا فیصلہ ’اخلاقی اور قانونی طور پر بالکل صحیح اور برطانوی عوام کی حفاظت کے لیے لیا گیا درست فیصلہ‘ تھا۔
انھوں نے مزید کہا ’میں اس کیس کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا ، لیکن اتنا کہوں گا کہ آپ وہ سب نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔‘
’اگر آپ وہ سب جانتے ہوتے جو میں جانتا ہوں تو ایک سمجھدار، ذمہ دار شخص کے طور پر آپ بھی بالکل وہی فیصلہ کرتے جو میں نے کیا۔‘
ہوم آفس کے ترجمان نے کہا: ’حکومت کی اولین ترجیح ہماری قومی سلامتی کو برقرار رکھنا اور عوام کی حفاظت ہے۔‘
انسانی حقوق کے ایک گروپ لبرٹی نے اس سے قبل بیگم کی شہریت منسوخ کرنے کے فیصلے کو ’ایک انتہائی خطرناک مثال‘ کہا تھا اور کہا تھا کہ حکومت کو منصفانہ ٹرائل کا حق نہیں چھیننا چاہیے۔
شمیمہ کے ساتھ شام جانے والی دوسری لڑکیوں میں سے ایک کادیزا سلطانہ مبینہ طور پر ایک بم دھماکے میں ہلاک ہو گئیں لیکن تیسری، امیرا عباسی کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔
بیگم پہلے کہہ چکی ہیں کہ ان کے شوہر کو ایک جیل میں رکھا گیا تھا جہاں مردوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور انھوں نے شامی جنگجوؤں کے ایک گروپ کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔