شمالی وزیرستان میں مقامی خواتین کو ہنر سکھانے والی چار خواتین قتل
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی ضلعے شمالی وزیرستان میں پیر کی صبح چار خواتین کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا ہے۔ چاروں خواتین ایک غیر سرکاری تنظیم کے ’وومن امپاورمینٹ‘ منصوبے کے لیے کام کر رہی تھیں اور دو روز بعد یہ کورس مکمل ہو جانا تھا۔
ہلاک ہونے والی خواتین کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے بتایا گیا ہے۔ ان خواتین کو دہاڑی پر تعینات کیا گیا تھا اور انھیں ایک ہزار روپے یومیہ اجرت دی جاتی تھی، جبکہ ایک مہینے میں صرف 16 دن کام کرنا ہوتا تھا۔ اس تین مہینے کے پراجیکٹ نے دو روز بعد مکمل ہونا تھا۔
واقعہ کیسے پیش آیا؟
پولیس کے مطابق پیر کی صبح ایک غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ پانچ خواتین ایک گاڑی میں بنوں سے قبائلی علاقے میرعلی اپنے روزگار کے سلسلے میں جا رہی تھیں۔ ان خواتین میں ناہید بی بی، ارشاد بی بی، عائشہ بی بی، جویریہ بی بی اور مریم بی بی شامل تھیں۔ گاڑی کا ڈرائیور عبدالخالق ان خواتین کو میر علی لے جا رہا تھا۔
پولیس رپورٹ کے مطابق مریم بی بی گاڑی سے اتر کر اپنے مرکز کے اندر داخل ہو گئی تھیں جبکہ باقی خواتین اور ڈرائیور گاڑی میں موجود تھے۔ اس دوران نا معلوم افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کر دی جس سے ناہید بی بی، ارشاد بی بی، جویریہ بی بی اور عائشہ موقع پر ہلاک ہو گئیں جبکہ ڈرائیور اس حملے میں زخمی ہوگیا ہے۔
یہ واقعہ تحصیل میر علی کے گاؤں ایپی کے قریب پیر کی صبح ساڑھے نو بجے پیش آیا ہے۔ زخمی ڈرائیور اور میتوں کو تحصیل ہسپتال میر علی لے جایا گیا ہے۔
یہ خواتین کون تھیں؟
شمالی وزیرستان کی سرحد خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں سے ملتی ہے۔ یہ پانچوں خواتین میر علی تک کا ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا سفر کر کے تربیتی مراکز پہنچتی تھیں۔
مقامی لوگوں نے بتایا ہے کہ ان پانچوں خواتین کا تعلق انتہائی غریب گھرانوں سے تھا اور ان کی ماہانہ تنخواہ سولہ ہزار روپے تک بتائی گئی ہے۔
مقامی لوگوں نے بتایا کہ ان خواتین میں ارشاد بی بی اور عائشہ سگی بہنیں تھیں اور دونوں شادہ شدہ تھیں، ناہید بی بی بھی شادی شدہ تھیں جبکہ جویریہ کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی
شادی شدہ تینوں خواتین کی ایک ایک بیٹی تھی جبکہ ان کے شوہروں کا کوئی باقاعدہ روزگار نہیں ہے۔
مقامی تنظیم سے وابستہ عہدیدار اور سماجی کارکن ولی داد نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ منصوبہ جب شروع ہوا تھا تو ان سے باروو کالج کے عہدیداروں نے کہا تھا کہ انھیں ایسی ڈپلومہ ہولڈر خواتین چاہییں جو قبائلی علاقے میں خواتین کو بنیادی تربیت فراہم کر سکیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے انھوں نے مقامی سطح پر قائم ووکیشنل سینٹر کی پرنسپل سے رابطہ کیا اور ان خواتین کو سباؤن کے دفتر میں انٹرویو کے بعد منتخب کیا گیا۔ انھیں ایک ہزار روپے یومیہ پر تعینات کیا گیا تھا اور ہفتے میں چار دن جانا ہوتا تھا۔
یہ تین ماہ کا کورس تھا جس میں قبائلی علاقوں میں مقامی خواتین کو سلائی کڑھائی، دستکاری اور بیوٹیشن کی تربیت دی جاتی تھی اور یہ کورس 24 فروری کو مکمل ہونا تھا۔
انھوں نے کہا کہ یہ غریب خواتین تھیں اور اس کمائی سے ان کے گھر کا چولہا جلتا تھا۔ اس منصوبے کے تحت میر علی میں مختلف مقامات میں گھروں میں یہ تربیت فراہم کی جاتی تھی جہاں خواتین اکٹھی ہوتیں اور انھیں بنوں سے میر علی جانے والی یہ خواتین تربیت فراہم کرتی تھیں۔
یہ خواتین کس غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ تھیں
یہاں اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ خواتین کس غیر سرکاری تنظیم سے وابستہ تھیں۔ پولیس کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق یہ خواتین سباؤن نامی تنظیم سے وابستہ تھیں۔ جبکہ تنظیم نے اس بارے میں بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان خواتین کا ان کی تنظیم سباؤن سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
اس غیر سرکاری تنظیم نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شمالی وزیرستان میں میر علی کے علاقے میں براوو کالج کی خواتین اہلکاروں کی ہلاکت پر افسوس ہے اور لواحقین کے ساتھ غم کی اس گھڑی میں وہ برابر کے شریک ہیں۔
اس بارے میں سباؤن تنظیم کے فوکل پرسن ذوالقرنین نے بتایا کہ یہ افسوس ناک واقعہ ہے لیکن یہ خواتین ان کی تنظیم میں ملازمت نہیں کرتی تھیں۔ ان سے جب کہا گیا کہ کیا مقامی سطح پر ان کا ’وومن امپاورمینٹ‘ کا منصوبہ جاری ہے، تو ان کا کہنا تھا ان کا اس منصوبے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیرستان میں سکیورٹی صورتحال
شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں کچھ عرصے سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے جس میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات اور سکیورٹی فورسز پر حملے شامل ہیں۔ ان حملوں میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
میر علی میں خواتین کی ہلاکت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ قبائلی اضلاع میں دہشتگروں کا خاتمہ ہو چکا ہے مگر حالات کو نارمل ہونے میں وقت لگے گا۔
ان کا کہنا تھا ‘ہر کیس کو دہشت گردی کے واقعے کے طور پر نہیں دیکھنا چاہیے، یہ لا اینڈ آرڈر کے کیس ہیں۔ یہ قبائلی اضلاع ہیں جن کا اپنا کلچر ہے اور انھیں ضم ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ ہمیں معاملات کو کسی مخصوص واقعے کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے۔ ہم پولیس اور لیویز کی ٹریننگ کر رہے ہیں اور جب یہ تھانوں میں جائیں گے تو حالات بہتر ہوں گے۔‘
این جی اوز کے لیے کتنی تشویشناک صورتحال ہے
شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن ضرب عضب جو سال 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور پھر سال 2018 میں اسے مکمل کر کے علاقے سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو واپس اپنے گھروں کو بھیج دیا گیا تھا۔ اس کے بعد سال 2019 میں قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا۔
اس ساری صورتحال کے بعد علاقے میں ایک عرصے تک صورتحال بہتر رہی اور یہاں تک کہ سکیورٹی ناکے بھی کم کر دیے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ قومی شناختی کارڈ پر اب لوگ شمالی ویرستان جا سکتے ہیں۔
اس قبائلی ضلعے میں بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات کی وجہ سے لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
ایسے حالات میں ان غیر سرکاری تنظیموں یا امدادی اداروں کے لیے ان علاقوں میں جانا اور کام کرنا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس بارے میں سماجی کارکن ناہید آفریدی نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ کوئی پہلا حملہ نہیں ہے جس میں خواتین کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
اس سے پہلے ضلع خیبر میں فریدہ آفریدی کو نشانہ بنایا گیا تھا، اسی طرح ایک استانی کو بھی خیبر ضلع کے علاقے شاکس میں قتل کیا گیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ انضمام کے بعد ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں اور حالات ’بہت خراب ہو چکے ہیں اس لیے اب خواتین ان علاقوں میں کام نہیں کرتیں اور اگر کوئی جاتا ہے تو وہ انتہائی خطرناک صورتحال کا سامنا کرتا ہے۔‘
ناہید آفریدی نے کہا کہ ’اس طرح کے رویوں کی روک تھام ہونی چاہیے وگرنہ اس انضمام کے لیے انھوں نے کوششیں کی تھیں اس سے وہ تنائج نہیں مل رہے جس کی انھیں خواہش تھی