شارک پاکستان کے سمندری پانی میں انتہائی خوبصورت

شارک پاکستان کے سمندری پانی میں انتہائی خوبصورت

شارک پاکستان کے سمندری پانی میں انتہائی خوبصورت دو کارینج شارک کو دیکھا گیا

چھ سال بعد پاکستان کے سمندری پانی میں انتہائی خوبصورت دو کارینج شارکس کو دیکھا گیا ہے۔ چھ سال کے اس عرصے میں سمجھا جا رہا تھا کہ شاید اب پاکستان کے پانی میں دوبارہ کارینج کو نہ دیکھا جا سکے اور ان کی معدومیت کا خطرہ بھی ظاہر کیا جا رہا تھا۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے مطابق حالیہ دنوں میں اس کو بحیرہ عرب میں کراچی سے 50 ناٹیکل میل جنوب میں سمندری پانیوں میں دیکھا گیا، جہاں پر ایک جہاز کے کپتان کیپٹن صمد بلوانی نے اس کی ویڈیو بنائی۔

بیس سال قبل تک کارینج کو پاکستانی سمندری پانی میں دیکھا جاتا تھا مگر اس کی تعداد میں مختلف وجوہات کی بنا پر کمی پیدا ہونا شروع ہو گئی تھی۔ اس کی تعداد کم ہونے کی وجوہات پر آگے چل کر بات کرتے ہیں مگر پہلے یہ جانتے ہیں کہ کارینج شارک میں خاص کیا ہے۔

’کارینج کا منہ کھلا رہتا ہے‘

کارینج شارک کے گروپ سے تعلق رکھتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر معظم خان کے مطابق کارینج کا منہ کھلا رہتا ہے، جس وجہ سے جب یہ پانی میں چلتی ہے تو سمندر میں پائے جانے والے چھوٹے موٹے جھینگے خود بخود اس کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور وہ ہی اس کی خوراک ہوتے ہیں۔

پاکستان میں اس کی سات مختلف اقسام پائی جاتی ہیں۔ حالیہ دنوں میں نظر آنے والی اس کی سب سے بڑی قسم ہے اور یہ ہی گزشتہ چند سال سے نظر نہیں آ رہی تھی۔

اس شارک کے دانت اور کانٹے نہیں ہوتے اور یہ انسانوں کو کوئی نقصاں نہیں پہنچا سکتی۔

معظم خان کے مطابق کارینج سمندری ماحول کا اہم حصہ ہے اور کارینج کے ابھی بھی پاکستانی پانی میں پائے جانے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں کہ سمندر ابھی تک انتہائی حد تک آلودگی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا شکار نہیں ہوا جبکہ اب بھی اس میں حیاتی تنوع باقی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ماسوائے چین کے اس کو عموماً کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔

’چین میں بھی اس کا کھانے میں استعمال حالیہ عرصے میں شروع ہوا۔ جس میں اس کے گل پھیپڑے شامل ہیں۔‘

معظم خان کا کہنا تھا کہ کارینج دنیا کے اکثر گرم علاقوں کے سمندر میں پائی جاتی ہے۔

چرنا جزیرہ
چرنا جزیرہ

’یہ ان علاقوں میں زیادہ ملتی ہے جہاں پر مونگے کے پہاڑ پائے جاتے ہیں۔ مالدیپ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور کچھ اور علاقوں میں مونگے کے پہاڑ اکثریت میں ہیں۔ وہاں پر یہ مناسب تعداد میں دستیاب ہے اور وہاں کی سیاحتی صنعت میں بھی بڑا کردار ادا کر رہی ہے۔‘

پاکستان میں مونگے کے پہاڑ کیپ مونز اور چرنا جزیرے میں واقع ہیں۔ یہ جزیزہ ممکنہ طور پر کارینج اور دیگر بڑے سمندری جانوروں کا اہم مسکن ہے۔

کارنیج خطرے کا شکار کیوں ہوئی؟

معظم خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں مونگے کے پہاڑ دیگر ممالک مالدیپ، تھائی لینڈ وغیرہ کے مقابلے میں کم ہیں، جس وجہ سے کارینج کی تعداد بھی ان ممالک کے مقابلے میں کم ہو رہی ہے۔ اس میں زیادہ کمی 90 کی دہائی کے بعد آئی اور دیگر سمندری مخلوق کے ساتھ کارینج بھی متاثر ہوئی۔

’پاکستان میں اس کے متاثر ہونے کی وجہ غیر محفوظ ماہی گیری کو کہا جا سکتا ہے۔ یہ مچھیروں کے جال میں بھی پھنس جاتی تھی۔ اب اس کا پاکستان میں کوئی استعمال موجود نہیں تو وہ اس کو اٹھا کر پھینک دیتے تھے۔ اس طرح بھی اس کو کافی نقصاں پہنچا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کارنیج دو، تین سال میں ایک بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے سنیئیر ڈائریکٹر رب نواز کے مطابق قیام پاکستان سے قبل انگریز اس کا شکار کرتے تھے اور ان کے شکار کی رودادیں اور تصاویر مختلف اخبارات وغیرہ میں شائع ہو چکی ہیں۔

رب نواز کے مطابق کچھ سال قبل اس خطرے کو بھانپتے ہوئے کہ چین میں اس کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے، بلوچستان اور سندھ میں اس کے پکڑنے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ کارینج کے تحفظ کے لیے ماہی گیروں کے ساتھ مقامی لوگوں میں شعور پیدا کرنے کے علاوہ اس کے مسکن کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے۔

رب نواز کے مطابق پاکستان میں کارینج کی تعداد خطرناک حد تک کم ہے۔ ماہی گیری کے دباؤ کے علاوہ اس کی تعداد میں کمی کی ایک اور وجہ اس کے مسکن میں ماحول کی تبدیلی اور آلودگی کا شامل ہونا ہے۔

ایک رپورٹ کے مطابق چین میں اس کو ادوایات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور چین ہی دنیا بھر میں اس کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق چین میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ ادوایات میں اس کے پھیپھڑوں کا استعمال کیسنر کے علاج میں مؤثر ثابت ہوسکتا ہے اور اسی وجہ سے چین میں مانگ کی وجہ سے اس کی تعداد میں کمی ہوئی تاہم پاکستان میں اس طرح کی اطلاعات دستیاب نہیں کہ اس کو چین ایکسپورٹ یا فروخت کیا گیا یا نہیں۔

استولا
استولا جزیرہ

کارینج کے مسکن خوبصورت جزیرے

معظم خان کے مطابق پاکستان میں مونگے کے پہاڑ زیادہ تر چرنا اور استولا جزیرے میں ہیں۔

معظم خان کا کہنا تھا کہ سمندر میں موجود یہ مونگے قدرت کا انمول عطیہ ہیں۔

’یہ انتہائی خوبصورت ہونے کے علاوہ سمندری حیاتی تنوع کا بھی بڑا مرکز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ استولا کے جزیرے کو تو محفوظ علاقہ قرار دیا گیا ہے جبکہ چرنا کا جزیزہ محفوظ علاقہ نہیں۔ جس وجہ سے چرنا کا جزیزہ مختلف خطرات کا شکار ہے۔‘

’بہت زیادہ ماہی گیری کا ہونا، تیل، بجلی اور کوئلے کے کارخانوں کی بہتات، بہت زیادہ تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں، گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت، نا تجربہ کار غوطہ خور جو مونگے کے پہاڑوں کو نقصاں پہنچاتے ہیں اور گھروں میں ایکویریم کے لیے اس کی چٹانوں کا نکالا جانا ہے۔‘

معظم خان کہتے ہیں کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سمندری حیاتی تنوع کے لیے چرنا جزیرے کو سمندری تحفظ یافتہ علاقہ قرار دیا جانا چاہیے تاکہ کارنیج سمیت دیگر سمندری مخلوق کو تحفظ حاصل ہو۔

’یہ محفوظ جزیرہ سیاحت کا بڑا مرکز بن سکتا ہے۔ جس کی آمدن مالدیپ، انڈونیشیا اور تھائی لینڈ کی طرح ہوسکتی ہے۔‘

کارینج کا بچاؤ سیاحت کو ترقی دے سکتا ہے

سنہ 2013 کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے 23 ممالک میں کارینج سے وابستہ سیاحتی صنعت کی مالیت سالانہ 140 ملین ڈالر ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ مالیت اس کو مار کر فروخت کرنے سے کئی گنا زیادہ ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کارینج کو محفوظ کر کے اس صنعت کے حجم میں کئی گنا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں کارینج سے وابستہ یا سمندری سیاحت انتہائی کم یا نہ ہونے کے برابر ہے۔

سید مصطفیٰ حسن پاکستان کے پہلے خوطہ خور ہیں، جنھوں نے خوطہ خوری کی تربیت دینے کے لیے امریکہ سے لائسنس حاصل کیا۔ وہ دنیا کے مختلف ممالک تھائی لینڈ، سری لنکا، مالدیپ وغیرہ میں خوطہ خوری کی تربیت حاصل کرنے کے علاوہ وہاں پر خوطہ خوری سے وابستہ رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ دنیا کے کئی ممالک مالدیپ، تھائی لینڈ جیسے ممالک کا زیادہ تر انحصار سمندری سیاحت یا پانی کے کھیل ہیں۔ ’وہاں پر سیاح جاتے ہیں توسمندر کے نیچے قدرت کے نظارے دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں۔ اس کے لیے مختلف ممالک میں فی سیاح مختلف نرخ ہیں جو 80 ڈالر سے لے کر 150 ڈالر تک ہوتے ہیں۔‘

سید مصطفیٰ حسن کے مطابق اگر صرف کشتی کے اوپر ہی بیٹھ کر سمندر کی سیر اور سمندری مخلوق کا نظارہ کرنا ہے تو اس کے لیے پندرہ سے تیس ڈالر تک فی سیاح وصول کرتے ہیں۔ سیاح ان علاقوں کا رخ اس لیے کرتے ہیں جہاں پر کارنیج سمیت دیگر سمندری مخلوق پائی جاتی ہے جبکہ چرنا اور دیگر سمندری حدود میں یہ کم ہوتی جارہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ چرنا اور اس کے ساتھ ملحق دیگر جزیرے کسی بھی طرح دنیا کے دیگر ممالک سے کم نہیں۔

’بس فرق یہ ہے کہ ان ممالک میں اب بھی کارینج اور دیگر سمندری مخلوق موجود ہے جبکہ میں سنہ 2013 سے چرنا کے جزیرے پر جارہا ہوں میں نے وہاں نہیں دیکھی بلکہ دیگر ممالک میں اس کا نظارہ کیا۔‘

سید مصطفیٰ حسین کہتے ہیں کہ ’سوچیں اور تصور کریں کہ دس فٹ لمبی کارنیج کے ساتھ بندہ سمندر میں تیر رہا ہو تو کیسا محسوس ہوگا۔ پھر نیچے جا کر ریت پر بیٹھ جائیں۔ ساتھ میں مونگے کے پہاڑ ہوں تو شاید اس کو کوئی بھی سیاح اپنی ساری زندگی نہیں بھول سکتا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سب کچھ پاکستان میں دستیاب ہے، جو ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو بڑی تعداد میں راغب کرسکتے ہیں۔ ضرورت ہے تو صرف کارینج اور دیگر سمندری مخلوق اور مونگے کو محفوظ کرنے کی۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *