سی پیک چین کا قرض دار ہونا ترقی پذیر ممالک کے لیے کتنا بھاری پڑ سکتا ہے؟
چین گذشتہ برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کی مد میں قرض فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن کر ابھرا ہے۔
تازہ ترین شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ چین نے گذشتہ چند برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر معاشی طاقتوں کے مقابلے میں ترقیاتی منصوبوں کی مد میں چینی سٹیٹ بینکوں سے ہائی رسک قرضوں کی صورت میں دگنے پیسے مختلف ممالک پر خرچ کیے ہیں۔
چین کی جانب سے اتنی رقم ادھار دینا حیران کن ہے، کیونکہ کچھ عرصہ قبل تک چین خود بیرونی امداد لیتا تھا مگر اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔
امریکی ریاست ورجینیا کی ولیم اینڈ میری یونیورسٹی کی ایڈ ڈیٹا ریسرچ لیب کے مطابق گذشتہ 18 برسوں کے دوران چین نے 165 ممالک کو 13427 انفراسٹریکچر کے منصوبوں کے لیے 843 ارب ڈالرز کے قرض دیے ہیں۔
ان قرضوں میں سے زیادہ کا تعلق چینی صدر شی جن پنگ کے بڑے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ سے ہیں۔ سنہ 2013 سے چین انفراسٹرکچر میں مہارت اور غیر ملکی سرمائے کی مدد سے نئے بین الاقوامی تجارتی راستوں کی تعمیر کا فائدہ اٹھا رہا ہے۔
تاہم ناقدین کو خدشہ ہے کہ بہت سے چینی منصوبوں کے لیے بھاری سود والے قرضے اور چینی سرکاری کمپنوں کے مبہم معاہدے ان ممالک کو پریشان کر رہے ہیں۔
ایڈ ڈیٹا سینٹر کے محققین جنھوں نے چار برس تک چین کی عالمی سطح پر خرچ کی گئی اور قرض کی مد میں دی گئی رقم کا جائزہ لیا ہے کا کہنا ہے کہ چینی حکومت کی وزارت متواتر خود ان ممالک سے پوچھ رہی ہیں کہ ان کی دی گئی رقم سمندر پار کیسے اور کن منصوبوں پر خرچ کی جا رہی ہے۔
چین نے متعدد ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک کو ترقیاتی منصوبوں کے لیے جو بھاری قرض دیے ہیں اور اس قرض کی بروقت ادائیگی نہ ہونے پر نتیجہ ان کے اثاثوں کی چینی ملکیت میں جانے یا گروی رکھے جانے کی صورت میں نکلا ہے۔
چین اور اس کے ہمسایہ ملک لاؤس کے درمیان چلنے والی ٹرین سروس کو ایسی ہی مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
دہائیوں تک سیاستدان جنوب مغربی چین کو جنوب مشرقی ایشیا کے ساتھ منسلک کرنے کے اس منصوبے کے بارے میں سوچتے رہے، تاہم انجینئرز خبردار کرتے رہے کہ اس پر بہت زیادہ لاگت آئے گی کیونکہ اس پٹری کو بلند پہاڑوں اور گہری گھاٹیوں سے گزرنا ہو گا اور اس کے لیے سینکڑوں سرنگیں اور پل تعمیر کرنے ہوں گے۔
اس موقع پر چین کے بڑے بینکار اس منصوبے میں کود پڑے اور بڑی چینی سرکاری کمپنیوں اور چین کے سرکاری قرض دینے والے اداروں کے کنسورشیم کی حمایت سے پانچ ارب 90 کروڑ ڈالر کے اس منصوبے کے تحت رواں برس دسمبر میں ٹرین سروس شروع ہو رہی ہے۔
لاؤس اس خطے کا غریب ترین ملک ہے اور اس منصوبے کی لاگت کا معمولی حصہ بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا چنانچہ اس نے اپنا حصہ ڈالنے کے لیے ایک چینی بینک سے 40 کروڑ 80 لاکھ ڈالرز کا قرض لیا جس کی ضمانت کے طور پر لاؤس کے اہم ذرائع آمدن میں سے ایک یعنی پوٹاش کی کانوں سے ہونے والی آمدن کو استعمال کیا گیا۔
ہانگ کانگ کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر وانگجنگ کیلی چن نے بی بی سی نیوز کی سیلیا ہیٹن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘چین کے ایگزم بینک کی جانب سے لاؤس کو دیا گیا قرض واضح طور پر اس کی نشاندہی کرتا ہے کہ چینی حکومت ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے کتنی جلدی میں ہے۔’
اس منصوبے میں مبہم شرائط کے معاہدے کے ساتھ زیادہ تر ریلوے ٹریک کی مالک ایک چینی ریلوے کمپنی ہے تاہم حتمی طور پر ریلوے کے قرض کی ذمہ داری لاؤس کی حکومت کی ہی ہے۔ اس غیر متوازن معاہدے کے باعث عالمی قرضداروں نے لاؤس کی درجہ بندی کو کم کر کے ‘جنک’ کے درجے پر پہنچا دیا ہے۔
ستمبر 2020 میں جب لاؤس دیوالیہ ہونے کے دہانے پر تھا تو اس نے ملک کا ایک بڑا اثاثہ چین کے حوالے کر دیا۔ یہ اس کے توانائی کے نظام کا ایک حصہ تھا جس کے عوض اس نے چین سے 60 کروڑ ڈالر حاصل کیے تاکہ اسے چینی کمپنیوں سے ہی لیے گئے قرض کی واپسی میں کچھ وقت مل سکے اور یہ سب ٹرین منصوبے کے تحت سروس کے آغاز سے پہلے ہو چکا ہے۔
چین نے پاکستان کو کتنا قرض دیا اور کن شرائط پر دیا؟
پاکستان کا شمار بھی دنیا کے ان ممالک میں ہوتا جنھیں چین کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں کے لیے اربوں ڈالرز کا قرض مل رہا ہے۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت سب سے زیادہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے جن ممالک کو فنڈ دیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔
ایڈ ڈیٹا کی رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو چین سے ملنے والے قرض کا جائزہ لیا جائے تو سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2017 تک چین نے پاکستان کو 34 ارب 40 کروڑ ڈالرز کا قرض دیا ہے جس کا بڑا حصہ ملک میں ترقیاتی کاموں کے لیے مختص ہے۔
ان میں سے 80.4 فیصد فنڈنگ قرض کی صورت میں ہے جو تجارتی شرح یا تقریباً اسی شرح کی بنیادوں پر پاکستان نے حاصل کیا ہے جبکہ پاکستان کو ملنے والی رقم کا صرف 12.1 فیصد حصہ مالی امداد کی صورت میں ہے جسے پاکستان نے واپس نہیں کرنا۔
پاکستان میں چینی فنڈنگ سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالرز مالیت کے تحت 71 منصوبوں پر کام جاری ہے۔
پاکستان کو سی پیک منصوبے کے تحت ملنے والے قرض کا 83 فیصد حصہ توانائی اور ٹرانسپورٹ کے شعبے پر خرچ کیا جا رہا ہے۔ ان شعبوں کے منصوبوں میں کوئلے سے چلنے والے بجلی پلانٹس، ڈیمز، سڑکوں کی تعمیر اور انڈسٹریل و اکنامک زونز کا قیام شامل ہے۔
چین کی جانب سے پاکستان کو ملنے والی رقم کا 90 فیصد حصہ قرض ہے اور توانائی کے شعبے میں ہونے والی سرمایہ کاری کا 95.2 فیصد جبکہ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں سرمایہ کاری کا 73 فیصد حصہ قرض ہے۔
چین نے پاکستان کو اوسط قرضے 3.76 فیصد کی شرح سود پر دیے ہیں جن کی بشمول سود مکمل ادائیگی 13 برس اور دو ماہ میں ہونی ہے اور اس قرض کی ادائیگی کا عمل قرض ملنے کے بعد چار برس اور تین ماہ بعد شروع ہوتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ چین کی طرف سے ترقیاتی امداد کا نصف حصہ پاکستان میں ایکسپورٹ بائر کریڈٹ کی شکل میں آیا ہے جس کا مطلب ہے کہ چینی اداروں نے پاکستان کو آلات اور اشیا ان اداروں سے خریدنے کے لیے دیا ہے جن کی منظوری چینی حکام نے دیا ہے۔
سی پیک سے قبل سنہ 2002 سے 2012 کے دوران ، چین سے 84 فیصد قرضہ پاکستان میں مرکزی حکومتی اداروں کو دیا گیا تھا۔ لیکن چین نے سی پیک کے منصوبے کے اعلان کے بعد حکمت عملی بدلتے ہوئے وفاقی حکومت کے علاوہ بھی حکومتی اداروں کو قرض دیا۔
اییڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین کے قرض کا چالیس فیصد اب سرکاری کمپنیوں، ریاستی بینکوں، خاص مقاصد کی گاڑیوں، مشترکہ وینچرز اور نجی شعبے کے اداروں کو دیا جا رہا ہے۔ اور ان میں سے زیادہ تر حکومت کی بیلنس شیٹ میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔
تاہم چین نے اکثر اداروں کو یہ قرض نادہندگی کی صورت میں حکومت کی ضمانت پر دیا ہے یعنی اگر وہ ادارے یہ قرض ادا نہ کر سکیں تو حکومت پاکستان اس کی مکمل ذمہ داری اٹھائے گی۔
جبکہ بعض معاملات میں قرض کی ادائیگی کی باضابطہ ضمانت کی بجائے حکومت قرض دینے والوں کو معاہدے کے تحت ایک خاص فیصد تک ادائیگی کرنے کی ضمانت دیتی ہے۔ اس قسم کی ضمانت ‘خفیہ قرض’ کی ایک صورت ہوتی ہے۔
ایڈ ڈیٹا کے مطابق سی پیک کے تحت چین نے پاکستان کو بھی ایسا خفیہ قرض دیا ہوا ہے۔
چین کی طرف سے پاکستان کو ملنے والے قرضے کا دو تہائی حصہ چین کے ایگزم بینک سے ملا ہے جبکہ 8.4 فیصد چائنا ڈویلپمنٹ بینک اور 6.5 فیصد انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنا سے حاصل کیا گیا ہے۔
ایڈ ڈیٹا کے مطابق چین کے دیگر ممالک کے ساتھ معاہدوں کی طرح پاکستان کے ساتھ بھی سی پیک کے تحت ہونے والی معاہدوں کی شرائط بھی عام نہیں کی گئی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کو بھی چین کو قرض کی ادائیگی کے معاملے پر لاؤس جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس سلسلے میں ایڈ ڈیٹا کے سینئیرریسرچ سائنسدان ڈاکٹر عمار ملک نے بی بی سی کو بتایا کہ سب سے پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ عوامی تصور کے برعکس، چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ‘امداد’ کی شکل میں نہیں ہے بلکہ کمرشل شرائط پر دیے گئے ‘قرضوں’ کی شکل میں ہے۔
‘چین پاکستان اقتصادی راہدری یعنی سی پیک کی مد میں دی گئی 90 فیصد رقم قرضوں می شکل میں ہے اور پاکستانی حکومت پر ذمہ داری ہے کہ وہ ان قرضوں کو سالانہ 3.76 فیصد کی اوسط سود کے ساتھ ادا کرے۔’
ڈاکٹر عمار ملک کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار اور قرضوں میں تناسب جو کہ سرکاری طور پر 92 فیصد دکھایا جاتا ہے، وہ ممکنہ طور پر اس سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔
ان قرضوں کے بارے میں مزید بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عمار نے بتایا کہ حکومت نے چینی سرمایہ کاروں سے اس بات کا وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے سرمائے پر منافع ضرور دیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ منصوبے توقعات کے مطابق آمدنی نہیں پیدا کر پاتے، تو حکومت پاکستان کو ان قرضوں کی ادائیگی کرنی ہوگی تاکہ سرمایہ کاروں سے کیے گئے وعدے پورے کر سکیں۔
‘لیکن کیونکہ یہ تمام معاہدے ڈالر کرنسی میں کیے گئے ہیں، اور روپے کی قدر گرتی جا رہی ہے، تو مقامی کرنسی میں قرض کی ادائیگی کا بوجھ بھاری ہوتا جائے گا اور مجموعی قرضوں کا حجم بڑھتا جائے گا۔’
چین قرض کے حصول کے لیے پہلا پڑاؤ؟
ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین پاکستان کی طرح بہت سے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے لیے قرض کے حصول کے لیے پہلا ملک ہے۔
براڈ پارکس کا کہنا ہے کہ ‘ایک اوسط سال کے دوران چین بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے تحت تقریباً 85 ارب ڈالرز کی اعانت کرتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں امریکہ ایک سال کے دوران کسی بھی بین الاقوامی ترقیاتی منصوبوں کے لیے 37 ارب ڈالرز تک امداد کی حامی بھرتا ہے۔’
ایڈ ڈیٹا کا کہنا ہے کہ چین نے ترقیاتی منصوبوں کو فنڈ کرنے میں تمام ممالک کو واضح طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن جس رفتار سے بیجنگ نے اس کو حاصل کیا ہے وہ ‘غیر معمولی’ ہے۔
ماضی میں مغربی ممالک کو افریقی ممالک کو قرض کی دلدل میں دھکیلنے پر مجرم قرار دیا جاتا تھا لیکن چین اس قرض کو مختلف طریقے سے دے رہا ہے بجائے اس کے کہ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کو کسی منصوبے کے لیے قرض دے وہ تمام قرضوں کو ریاستی بینکنگ کے قرضوں کی صورت میں دے رہا ہے۔
اس طرح کے قرضوں کو سرکاری کھاتوں میں ظاہر نہیں کیا جاتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی سرکاری بینکوں کی طرف سے کیے گئے بہت سے معاہدوں میں چین کے وفاقی حکومتی اداروں کا نام نہیں ہے ، اس طرح کے معاہدوں کو حکومتی بیلنس شیٹ میں بھی ظاہر نہیں کیا جاتا اور ان معاہدوں کی رازداری کی شقوں سے چھپایا جاتا ہے جو حکومتوں کو یہ جاننے سے روک سکتا ہے کہ بند دروازوں کے پیچھے کن شرائط کو طے کیا گیا ہے۔
ایڈ ڈیٹا کے مطابق چین کی جانب سے اس طرح کے غیر رپورٹ شدہ قرضوں کی کل رقم 385 ارب ڈالرز تک بنتی ہے۔
بہت سے چینی ریاستی ترقیاتی قرضے بھی ضمانت کے طور پر غیر معمولی شرائط کا مطالبہ کرتے ہیں۔ چینی کمپنیاں قرضوں کی واپسی کے لیے قرض لینے والے ممالک کو قدرتی وسائل بیچ کر نقد رقم ادا کرنے کا مطالبہ کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر وینزویلا کے ساتھ ایک معاہدے میں وینزویلا نے قرض کی ادائیگی کے لیے قدرتی تیل بیچ کر حاصل ہونے والا غیر ملکی زرمبادلہ براہ راست چین کے تحت کام کرنے والے بینک میں بطور ضمانت جمع کروایا۔
اگر قرض کی قسط وقت پر جمع نہ کروائی جا سکے تو چینی قرض دینے والی کمپنی فوراً اس اکاؤنٹ میں موجود رقم سے اپنی قسط کاٹ سکتی ہے۔
براڈ پارکس اس کی وضاحت کرتے ہیں کہ ‘یہ واقعی ان ممالک کی روزی روٹی کی حکمت عملی لگتی ہے جو قرض دینے والی کمپنیاں یہ بتانے کے لیے استعمال کرتی ہیں کہ ہم یہاں کے بڑے ہیں۔ ان کا پیغام یہ ہوتا ہے کہ آپ کو سب سے پہلے ہمیں ہیسے واپس ادا کرنے ہیں کیونکہ ہم ہیں جو اس کے حق دار ہیں۔’
‘ان غریب ممالک کے لیے یہ آمدن جو غیر ملکی کرنسی یعنی ڈالرز اور یوروز کی شکل میں آتی ہے وہ ایک اور غیر ملکی طاقت کے تحت چلنے والے اکاونٹ میں جمع ہو جاتی ہے۔’
کیا چین کی یہ حکمت عملی ایک چالاکی ہے؟
ایڈ ڈیٹا کی تحقیق میں شامل رہنے والی جارج ٹاؤن کی لا پروفیسر اینا گلپرن کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں وہ ان معاہدوں میں جارحانہ انداز اپناتے ہیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اہنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔’
گلپرن کہتی ہیں کہ چند قرض مانگنے والے ممالک ٹیڑھے بھی ہوتے ہیں، اگر وہ اپنے قرض کی قسط ادا کرنے سے قاصر ہیں تو ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اپنی بندرگاہ جیسے اثاثے اس قرض کو اتارنے کی مد میں حوالے کر دے گا تو یہ درست نہیں ہے۔
چین شاید جلد ہی بین الاقوامی قرض دینے کے مقابلے کا سامنا بھی کرے۔
جی سیون ممالک کے جون کے اجلاس میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اعلان کیا تھا جی سیون نے حریف چین کے اثر کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک حکمت عملی وضع کر لی ہے۔ جس کے تحت عالمی سطح پر ایسے ترقیاتی منصوبوں کو مالی معاونت کرنا ہے جو ماحولیاتی طور پر مستحکم ہو۔
تاہم یہ منصوبہ شاید دیر سے آیا ہے۔ بروکنگ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر اہلکار اور چین میں امریکہ کے سابق ٹریری ڈیوڈ ڈالر کا کہنا ہے کہ ‘مجھے مغربی اقدامات پر شکوک ہیں کہ وہ چینی منصوبوں پر کوئی اثر ڈال سکیں۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ان نئے اقدامات کے تحت اتنی رقم حاصل نہیں ہو گی کو ترقی پذیر ممالک میں انفراسٹرکچر کی ضرورتوں کو پورا کر سکے۔ اس کے علاوہ قرض دینے والے مغربی ممالک کے اہلکار بیوروکریٹک ہوتے ہیں اور اس میں بہت زیادہ وقت لگاتے ہیں۔’
ایڈ ڈیٹا محققین کا کہنا ہے کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو اپنے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ منصوبے کرپشن، لیبر سکینڈلز، ماحولیاتی مسائل سمیت مبہم چینی ترقیاتی معاہدوں کے ساتھ منسلک کیے جا رہے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو درست راہ پر گامزن کرنے لیے چین کے پاس قرض لینے والے ممالک کے خدشات کو سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔