سیاسی رائے کی بنیاد پر بڑھتی عدم برداشت اور تقسیم ہوتا معاشرہ: ’ابھی تو یہاں کُھل کر بولنے کی آزادی نہیں ہے
دنیا کے بیشتر ممالک میں کسی بھی شہری کے لیے اپنی پسند کی سیاسی جماعت کو سپورٹ کرنا عام سی بات ہے لیکن اس پسندیدگی کو بنیاد بنا کر کسی دوسری سیاسی جماعت کے حامی کو ذاتی بنیادوں پر ہدفِ تنقید بنانا، لڑنا جھگڑنا اور یہاں تک کہ مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والوں سے بات چیت کرنا ہی چھوڑ دینا شاید پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔
دوسروں کے لیے عدم برداشت، بدتمیزی اور لڑائی جھگڑا، یہ تمام وہ رویے ہیں جنھوں نے پاکستان میں عوام کو تقسیم کر رکھا ہے اور بظاہر وقت کے ساتھ یہ رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
اس شدید تقسیم کو کوئی صیحح سمجھتا ہے تو کسی کی رائے یہ ہے کہ یہ رویے ہمارے معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہے ہیں۔
لوگوں میں پائی جانے والی یہ تقسیم میں نے بطور صحافی پچھلے چند سال میں زیادہ دیکھی ہے تاہم اس تقسیم کے پیچھے پائی جانے والی وجوہات کے بارے میں جاننے کے لیے میں نے شہری اور دیہی علاقوں میں چند لوگوں سے بات کی، جن کا تعلق ملک کے مختلف حصوں سے تھا۔
زیادہ تر لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پاکستان میں سیاست کی بنیاد پر عدم برداشت اور تقسیم پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے لیکن کئی لوگ ایسے بھی تھے جو یہ مانتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن یہ تقسیم ہونی ہی تھی۔
لاہور کے نواحی علاقے سے تعلق رکھنے والے محمد حفیظ پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ’یہ تقسیم اس لیے بڑھی کیونکہ ماضی میں لوگوں میں اتنا سیاسی شعور ہی نہیں تھا کہ وہ اپنے حق کے لیے آواز اٹھا سکتے۔ عمران خان نے آ کر مجھ جیسے دیہاتی آدمی کو بتایا کہ کس طرح دو سیاسی جماعتوں نے اس ملک کو لوٹا اور عوام کو مشکل میں ڈالا اور یہ کہ اب اگر صورتحال کو بدلنا ہے تو آگے کیسے بڑھنا ہو گا۔‘
ان کی اس رائے سے چند ایسے لوگ تو اتفاق کر سکتے ہیں جو پی ٹی آئی اور اس کے نظریے کو سپورٹ کرتے ہیں تاہم دوسری جانب بہت سے لوگ اس کے برعکس سوچتے ہیں۔
لاہور کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں زیر تعلیم علی نے سنہ 2018 میں ہونے والے الیکشن سے پہلے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والد نے پچھلی مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا اور الیکشن کے دن سے پہلے ہمارے گھر میں جنگ کا سماں تھا۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے لڑ رہا تھا۔ کوئی عمران خان کو سپورٹ کر رہا تھا تو کوئی نون لیگ کو اور یہ صورتحال تھی کہ ہم لوگ ایک ساتھ بیٹھ کر کھانا تک نہیں کھا رہے تھے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ سیاسی شعور ہونا اچھی بات ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنے لیڈر کے خلاف کوئی بات ہی برداشت نہ کریں۔
علی کی یہ بات سنتے ہی میرے گرد بیٹھے کئی نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے اتفاق کیا۔
وہاں موجود ایک اور طالبعلم عائشہ بولیں کہ ’عمران خان ایک اچھے اور بااثر مقرر ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ الفاظ کی طاقت کیا ہے۔ مگر انھوں نے نوجوانوں کو جمع کرنے کی بجائے آپس میں لڑوا دیا۔‘
اس پر وہاں موجود عمران خان کی سپورٹر سمیرا بولیں کہ ’عمران خان کو کچھ نہ کہو۔۔۔ اس نے اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ اپنی فیملی بچے سب، اور کیا ہوا آخر میں ان کو جیل میں ڈال دیا۔‘
پھر وہاں بیٹھے تمام لوگوں میں ایک بحث شروع ہو گئی اور جلد ہی ان نوجوانوں نے ایک دوسرے پر طنز کے تیر برسانے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ مجھے بار بار یہ کہنا پڑا کہ ’ہم لڑیں گے نہیں۔ ہم صرف بات کر رہے ہیں۔‘
ایسی ہی ملی جلی صورتحال کا سامنا مجھے دیہی علاقوں میں بھی کرنا پڑا۔ جہاں کسی ایک سیاسی جماعت کا سپورٹر دوسری سیاسی جماعت کے بارے میں کوئی بات کرتا جو اسے ناگوار گزرتی تو سب ایک دوسرے کو ان کے پسندیدہ سیاسی لیڈر کے ماضی کی تقاریر اور حرکتیں یاد کروانا شروع کر دیتے۔
کسی نے کہا ’کیا تم بھول گئے ہو کہ نواز شریف نے بے نظیر کے بارے میں کیا کہا تھا۔۔۔ کس قسم کے پمفلٹ چھپوائے تھے۔۔۔ عمران خان نے کس طرح سب کے لیے بدزبانی کی۔۔۔‘
پنجاب کے ایک گاؤں نبی پور سے تعلق رکھنے والے بزرگ محمد رفیق بولے کہ ’پہلے ہمارے معاشرے میں ایسی عدم برداشت نہیں تھی۔ تحریک انصاف کے آنے بعد یہ سب شروع ہوا۔ انھوں نے کسی سے بنا کر نہیں رکھی۔ نا ہی کسی کو چھوڑا۔ سب پر الزام لگایا اور سب کو چور کہا۔ یہاں تک کہ ججوں سے بھی بدتمیزی کی۔‘
ان کی بات سنتے ہی وہاں بیٹھے محمد اسلم بولے کہ ’زیادہ دور مت جائیں۔ دو سال پہلے تک ہی شریف خاندان کہتا تھا کہ ہم زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کو گالیاں نکالتے تھے اور صرف ایک بندے کو تنگی دینے کے لیے ایک ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔‘
مگر اس عدم برداشت اور تقسیم کی وجوہات کیا ہیں؟
اس سوال کا جواب شہری اور دیہی علاقوں میں ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ شہروں میں زیادہ تر نوجوانوں کے مسائل اور ان کی ترجیحات دیہی علاقوں سے مختلف ہیں تاہم ایک چیز جو مشترک تھی وہ یہ تھی کہ انھیں اپنی اپنی زندگیوں میں بہتری چاہیے۔
میں نے جب ایک گروپ سے یہ سوال کیا کہ اس عدم برداشت اور تقسیم کی وجہ کیا ہے تو گروپ میں بیٹھا ایک نوجوان بولا کہ ’اس کی وجہ ناامیدی ہے۔ ہم پاکستان اور اپنے لیے بہتر مستقبل چاہتے ہیں جس کی امید ہمیں عمران خان نے دی تھی۔ اس قوم کے پاس نظریے کی کمی ہے۔ جس شخص نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اسے ہی ٹک کر کام نہیں کرنے دیا گیا۔ آپ بتائیں جب آپ اکثریت کی رائے کو اہمیت نہیں دیں گے تو کون کب تک برداشت کرے گا۔‘
تاہم دوسری جانب دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے سیاسی سپورٹ کے لیے ان کی برادری اور محلے داری زیادہ اہم ہے۔
اس کے علاوہ انھیں مہنگائی اور اپنے علاقے میں نہ ہونے والے کاموں سے بھی غرض ہے۔
اسی بارے میں مزید بات کرتے ہوئے گروپ میں بیٹھے عبدالرحمان بولے کہ ’خود سوچیں ایک بندہ جس کی دن کی کمائی چھ، سات سو روپے ہے۔ اس کا دن کا خرچہ اس کی کمائی سے ڈبل ہو گا تو وہ تو خود ہی غصے کا شکار ہو گا۔‘
’پاکستان میں بولنے کی اجازت بھی نہیں، کچھ بولو تو اٹھا کر لے جاتے ہیں‘
ویسے تو الیکشن کچھ ہی دن کی دوری پر ہیں لیکن لوگ اپنی پسند کی سیاسی جماعتوں کو سپورٹ کرتے ہوئے اس طرح کُھل کر بات نہیں کرتے جس طرح وہ پہلے کرتے تھے۔
دوران گفتگو بھی خصوصی طور پر نوجوانوں نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ کیا ہم کھل کر بات کر سکتے ہیں؟ کیا ہماری رائے نشر کی جائے گی؟ اسے سنسر تو نہیں کریں گے؟
میں نے انھیں کہا آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ کھل کر کہہ سکتے ہیں۔ ابھی میں نے جملہ مکمل ہی کیا تھا کہ وہاں موجود ایک لڑکی فوراً بولیں کہ ’آپ کیا اس ملک میں کسی کو کھل کر سپورٹ کر سکتے ہیں؟ ابھی تو یہاں آپ کو کُھل کر بولنے کی اجازت نہیں ہے۔ کچھ بولو تو پولیس آ جاتی ہے۔ مختلف رائے رکھنے والے لوگوں کو تو انھوں نے خاموش کروا دیا۔‘
آمنہ کی بات کا جواب دیتے ہوئے ایک اور طالب علم بولے کہ ’اگر آپ اپنے ملک کی املاک کو نقصان پہنچانے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ ہم تو یہ سپورٹ میں کر رہے تھے تو یہ غلط بات ہے۔‘
ایک بات جس سے زیادہ تر لوگ شہری اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے متفق تھے وہ یہ تھی کہ کھل کر تنقید کرنے کی اجازت ہونی چاہیے لیکن یہ اختلاف گالی گلوچ یا بدتمیزی کی صورت میں نہیں ہونا چاہیے۔
حمیرا پولیٹیکل سائنس کی طالب علم ہیں۔ انھوں نے اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہ یہی بتاتی ہے کہ پاکستانی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا عمل دخل کبھی کم نہیں ہوا۔‘
زیادہ تر لوگوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ اگر پاکستان میں جمہوری عمل کو کسی عمل دخل کے بغیر چلنے دیا جائے تو شاید معاملات بہتر ہو سکیں اور یہی حل ہے کہ جس کے تحت ہم سیاسی عدم برداشت اور تقسیم کو بھی کم کر سکتے ہیں۔