سپریم کورٹ کا فیصلہ 2-3 کا یا 3-4 کا؟

سپریم کورٹ کا فیصلہ 2-3 کا یا 3-4 کا؟

سپریم کورٹ کا فیصلہ 2-3 کا یا 3-4 کا؟ حکومت اور اپوزیشن کی متضاد تشریحات

سپریم کورٹ نے بدھ کی صبح پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کے معاملے پر از خود نوٹس کا فیصلہ سناتے ہوئے دونوں صوبوں میں 90 روز کے اندر انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔

عدالت کے اکثریتی فیصلے کے مطابق صدر کا پنجاب میں تاریخ دینا الیکشن ایکٹ کے تحت درست اقدام ہے اور الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر سے مشاورت کر کے انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔

عدالت نے خیبر پختونخوا کے گورنر کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا جلد اعلان کریں۔

پانچ رکنی بینچ کے تین اراکین نے انتخابات سے متعلق درخواستوں کو قابل سماعت قرار دیا جبکہ دو ججز نے اس سے اختلاف کیا ۔

حکومت اس وقت اس فیصلے کی تشریح اپنے حق میں کر رہی ہے جبکہ اپوزیشن اور آئینی ماہرین کی رائے اس سے مختلف ہے۔

حکومت کا مؤقف کیا ہے؟

اس فیصلے پر ابتدائی ردعمل وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا سامنے آیا تھا جن کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ پٹیشن تین دو کی اکثریت سے منظور نہیں بلکہ چار تین کی اکثریت سے مسترد ہوئی ہے۔

نجی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ بطور وکیل یہ سمجھتے ہیں کہ ابتدائی طور پر نو رکنی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، جس سے دو ججز جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر علی نقوی نے رضاکارانہ طور پر خود کو علیحدہ کر لیا تھا جس کے بعد 23 فروری کو فیصلے میں دو ارکان جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے کیس کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا اور آج مزید دو ججوں نے پٹیشن کو مسترد کیا اور تین نے قابل سماعت قرار دیا۔

وزیر قانون کے مطابق مجموعی طور پر سات ججز نے اس مقدمے میں فیصلے سنائے ہیں، جن میں سے چار نے ان درخواستوں کو ناقابل سماعت جبکہ تین نے قابل سماعت قرار دیا۔

ان کے مطابق یوں اکثریتی فیصلہ ان درخواستوں کے خلاف آیا ہے اور اب حکومت کو اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست بھی دائر کرنے کی ضرورت نہیں۔

اپنی رائے پیش کرنے کے کچھ دیر بعد اعظم نذیر ایک بار پھر کیمروں کے سامنے نمودار ہوئے۔ اس بار ان کے ساتھ وفاق کے نمائندہ اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی بھی موجود تھے۔

اٹارنی جنرل نے وزیرقانون کی درخواست پر فیصلے کی تشریح میڈیا کے سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اس فیصلے میں یہ تشریح کی ہے کہ یہ نو رکنی بینچ کا فیصلہ تھا، جس میں سے دو ججز علیحدہ ہوئے جبکہ دو نے ان درخواستوں کے خلاف اپنی رائے دی ہے۔

وزیرِ قانون نے اٹارنی جنرل کی طرف سے وضاحت کے بعد مائیک خود سنبھالا اور یہ کہا کہ اب وہ بطور وزیرقانون یہ کہتے ہیں کہ اکثریتی فیصلہ دائر کی جانے والی درخواستوں کے خلاف تھا لہٰذا اب حکومت کو نظر ثانی دائر کرنے کی ضرورت بھی نہیں۔

PTI

تحریک انصاف کے رہنماؤں کا مؤقف

حکومت کی طرف سے اس فیصلے کی تشریح پر تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سیاسی انداز میں بھی خوب خبر لی ہے۔

سابق وزیراطلاعات فواد چوہدری نے تو اپنے ایک ٹویٹ میں وزیرقانون اور اٹارنی جنرل کو دوبارہ سے لا سکول میں داخلہ لینے کی تجویز تک پیش کر دی۔

بیرسٹر علی ظفر نے جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سامنے تو پانچ رکنی بنچ ہی تھا اور انھوں نے اس بنچ کے سامنے ہی دلائل دیے اور پھر فیصلہ بھی اس پانچ رکنی بنچ نے ہی سنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انھیں حیرت ہے کہ اگر وزیرقانون اس واضح فیصلے کی تعبیر اس انداز میں کر رہے ہیں۔

علی ظفر کے مطابق اگر حکومت سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں مانے گی تو پھر یہ ایک انارکی کی صورتحال ہو جاتی ہے۔ ان کے مطابق اس بنچ کے سامنے خود حکومتی وکلا نے پوری بحث کی ہے اور اب اگر بات نہیں ماننی تو پھر ایسے میں صرف لفظ انارکی ہی ذہن میں آتا ہے۔

سابق وزیراعظم اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’ہم عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ آئین کا تحفظ کا فرض تھا اور معزز ججز نے آج اپنے فیصلے کے ذریعے یہ فرض نہایت بہادری سے نبھایا ہے۔

یہ پاکستان میں قانون کی حکمرانی پر تصدیق کی ایک مہر ہے۔ ہم اپنی جیل بھرو تحریک معطل کر رہے ہیں اور خیبرپختونخوا اور پنجاب میں انتخابی مہم کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

آئینی ماہرین کا کیا کہنا ہے؟

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اٹارنی جنرل اور وزیرقانون کی تشریح سے بالکل متفق نہیں ہیں۔

ان کی رائے میں پانچ رکنی بنچ نئے سرے سے تشکیل دیا گیا تھا۔ انتخابات سے متلعق درخواستوں کو نئے سرے سے سنا گیا۔ ان کے مطابق اس فیصلے کو نو رکنی بنچ کے ساتھ ملانے کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ چیف جسٹس نے جو تین دو کا کہہ کر فیصلہ پڑھ کر سنایا ہے وہ غلط بیانی کر رہے تھے۔

ان کے مطابق اگر حکومت کو اس حوالے سے کوئی ابہام ہے تو بھی نظرثانی کی درخواست دائر کرنے بنتی ہے تا کہ توہین عدالت اور دیگر کارروائی سے بچ سکے۔

فیصل صدیقی کے مطابق جہاں تک بحث نو رکنی بنچ کی ہے تو اس حوالے سے بھی حقائق درست نہیں بتائے جا رہے ہیں۔

ان کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں فل کورٹ بنانے کی بات کی تھی اور انھوں نے انتخابات سے متعلق ان درخواستوں کو مسترد نہیں کیا جبکہ جسٹس یحیٰ آفریدی نے صرف اپنی ابتدائی رائے کا اظہار کیا تھا کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا تھا۔

فیصل صدیقی کے مطابق جہاں تک پانامہ مقدمے کے بنچ کی بات ہے تو اس کیس میں کوئی نئے سرے سے بنچ تشکیل نہیں دیا گیا تھا اور جن ججز نے بھی رائے دی تھی وہ حتمی رائے دی تھی۔

جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی تشریح سن کر ان کے ذہن میں پنجابی کا یہ محاورہ ہی آیا کہ ’من حرامی تے حجتاں ڈھیر‘۔ وہ کہتی ہیں کہ پانچ رکنی بنچ میں بھی جن دو ججز نے اختلافی نوٹ تحریر کیے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس معاملے میں تو از خود نوٹس کی بھی ضرورت نہیں تھی۔

ان کی رائے میں پانچ رکنی بنچ کا جو فیصلہ سامنے آیا ہے اس پر حکومت پر عمل کرنا لازم ہو گیا ہے اور یہ فیصلہ بہت واضح ہے کہ حکومت نے ہر صورت 90 روز میں عین آئین پاکستان کے مطابق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کے عمل کو یقینی بنانا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *