سٹیٹ بینک پاکستان کی جانب سے شرح سود میں اضافہ، عام آدمی کی زندگی پر کیسے اثر انداز ہو گا؟
پاکستان کے سٹیٹ بینک نے ملک میں مہنگائی اور ادائیگیوں میں بڑھتے عدم توازن کے خطرات سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں شرح سود 7.25 فیصد سے بڑھ کر 8.75 فیصد تک ہو گئی ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ زری پالیسی کے اجلاس میں کیا گیا جس کا انعقاد کیلنڈر کے مطابق 26 نومبر کو کیا جانا تھا تاہم مرکزی بینک کے مطابق کچھ ہنگامی نوعیت کے عوامل کے باعث زری پالیسی اجلاس کو ایک ہفتہ قبل یعنی نومبر 19 کے لیے شیڈول کر دیا گیا تھا جس میں مرکزی بینک نے شرح سود 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا۔
اگرچہ پاکستان میں صنعت اور معاشی امور کے تجزیہ کار اور ماہرین شرح سود میں اضافہ کی توقع تو کر رہے تھے تاہم یہ اضافہ 50 سے 75 بیس پوائنٹس تک رہنے کی توقع کا اظہار کیا جا رہا تھا۔
مرکزی بینک کی جانب سے ہونے والا 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ صنعت و تجارت اور معاشی ماہرین کے لیے حیران کن ہے۔
ان کے مطابق مرکزی بینک نے جن بنیادوں پر شرح سود میں اس قدر زیادہ اضافہ کیا ان میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ اضافہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پیشگی اقدامات کے تحت کیا گیا تاکہ پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے معطل شدہ پروگرام کو بحال کیا جا سکے۔
ماہرین نے آنے والے مہینوں میں شرح سود میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
شرح سود میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟
پاکستان کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافے کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی اور ادائیگیوں میں توازن سے جڑے خطرات کی وجہ ملکی اور بین الاقوامی عوامل ہیں۔
بینک کے مطابق کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر قیمتیں دباؤ کا شکار ہیں اور توانائی کے بلند نرخ بھی دیرپا ثابت ہو رہے ہیں۔
بینک کے مطابق پاکستان بھی درآمدی چیزوں کی بلند قیمتوں کی وجہ سے متاثر ہو رہا ہے اور صارفین اس کی وجہ سے زیادہ قیمیتں ادا کر رہے ہیں جس کی نشاندہی ملک میں مہنگائی جانچنے والے مختلف پیمانوں سے ظاہر ہے۔
بینک کے مطابق ستمبر اور اکتوبر کے مہینے میں جاری کھاتوں کے خسارے میں اضافہ توقع سے زیادہ رہا، جو تیل اور اجناس کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہوا اور اس بیرونی دباؤ نے پاکستانی روپے کو متاثر کیا۔ اس لیے زری پالیسی کمیٹی کے مطابق مہنگائی پر قابو پانے اور نمو کے استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے شرح سود میں اضافہ بہت ضروری ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے عارف حبیب لمیٹید کی معاشی تجزیہ کار ثنا توفیق نے بتایا کہ مرکزی بینک نے کچھ روز قبل ہی اس بات کی نشاندہی کر دی تھی کہ کچھ ان دیکھے عوامل کی وجہ سے زری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کو ایک ہفتے پہلے منعقد کرنا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ مہنگائی کے بارے میں جی ڈی پی کے مقابلے میں سات سے نو فیصد کی شرح اور جاری کھاتوں کا خسارہ جو جی ڈی پی کے مقابلے میں دو سے تین فیصد رہنے کی توقع تھی، وہ شاید زیادہ چلے جانے کا خطرہ تھا اس لیے مرکزی بینک نے یہ اقدام اٹھایا اور یہ لگ رہا تھا کہ کہیں مہنگائی کی شرح دوہرے ہندسے میں داخل نہ ہو جائے۔
ثنا توفیق نے کہا مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی توقع تو تھی لیکن یہ امکان 50 سے 100 بیس پوائنٹس کا تھا لیکن اس کی بجائے 150 بیس پوائنٹس کا اضافہ کر دیا گیا۔
انھوں نے کہا شرح سود بڑھا کر مرکزی بینک طلب کو گھٹانا چاہتا ہے تاکہ بینکوں سے کم پیسہ جائے اور اضافی پیسے کی وجہ سے چیزوں کی طلب بڑھ رہی تھی جو مہنگائی کو جنم دے رہی تھی اور ان چیزوں کی طلب درآمدی مصنوعات کے ذریعے پوری کی جا رہی تھی۔
شرح سود میں اضافہ کیا صحیح اقدام ہے؟
مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کو پاکستان کے معروف ماہر معیشت ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے معیشت کی تباہی کا دوسرا مرحلہ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’پہلا مرحلہ اس وقت تھا جب جون 2018 میں شرح سود کو 6.5 فیصد سے 13.25 فیصد کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے حکومت کو 1687 ارب روپے کا اضافی سود ادا کرنا پڑا تو پھر روپے کی قیمت کو 125 روپے سے گرا کر 166 روپے تک کر دیا گیا تھا جس کی وجہ سے پیسہ ادھار لیے بغیر پاکستان کا قرضہ 4660 ارب روپے بڑھا گیا تھا۔ اب دوسرے مرحلے میں شرح سود کو پھر بڑھایا جا رہا ہے اور روپے کی قدر تو پہلے ہی بہت زیادہ گر چکی ہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق نے مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے کی وجوہات کو مسترد کیا اور کہا مہنگائی پر قابو پانے کے لیے شرح سود میں اضافے کا طریقہ کار بالکل غلط ہے۔
انھوں نے کہا پاکستان میں مہنگائی کی چار وجوہات ہیں جن میں رسد کے مسائل، حکومت کی جانب سے بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافہ، روپے کی قدر میں کمی اور عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہے۔
ماہر معیشت نے کہا کہ ’شرح سود میں اضافہ، اضافی طلب کو کم کرنے کے لیے کیا گیا جبکہ تجرباتی شواہد ظاہر کرتے ہیں کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافے سے پاکستان میں کنزیومر بیسڈ انفلیشن (سی پی آئی) میں 1.3 فیصد اضافہ ہوتا ہے جس کی وجہ بینکوں کی جانب سے زیادہ شرح سود پر صارفین کو قرض دینا ہے۔‘
ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ اسی طرح ادائیگیوں میں عدم توازن پر قابو پانے کے بھی بہت سارے دوسرے طریقے ہیں جن میں درآمدات پر ٹیکس بڑھانا یا ان پر کیش مارجن میں اضافہ ہے۔
انھوں نے کہا شرح سود میں اضافے کی معاشی وجوہات نہیں بلکہ اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف کی شرائط ہیں جن میں پاکستان کی جانب سے پیشگی اقدامات کے طور پر شرح سود میں اضافہ بھی شامل ہے۔
انھوں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ دسمبر میں مرکزی بینک کی جانب سے شرح سود میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
شرح سود میں اضافہ عام آدمی کو کیسے متاثر کرے گا؟
شرح سود میں اضافے کے عام آدمی پر اثرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اشفاق حسن نے کہا کہ شرح سود میں ایک فیصد اضافہ مہنگائی کی شرح میں 1.3 فیصد اضافہ کرتا ہے جس سے عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا جب بینک زیادہ شرح سود پر قرضے دیں گے تو صنعت، تجارت و زراعت کی کاروباری لاگت میں بھی اضافہ ہوگا جو وہ صارفین سے وصول کریں گے۔
انھوں نے کہا اس کے ساتھ جب بینکوں کی جانب سے مہنگے قرضے جاری کیے جائیں گے تو اس کا اثر سرمایہ کاری پر بھی پڑے گا کیونکہ کاروباری افراد زیادہ شرح سود پر قرضے لے کر اپنے کاروبار میں توسیع کے بارے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہوں گے۔
’جس کا مطلب ہے کہ جب سرمایہ کاری نہیں ہو گی تو کاروبار میں توسیع نہیں ہو گی اور ملازمتیں کم پیدا ہوں گی جو ایک عام آدمی کے لیے ہوتی ہیں۔‘
انھوں نے کہا اسی طرح ملکی معیشت میں گروتھ سست روی کا شکار ہو جائے گی۔ انھوں نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ معاشی شرح نمو میں اضافے کی وجہ سے اکانومی اوور ہیٹڈ فیز میں داخل ہو چکی ہے اور اس کی کولنگ کے لیے یہ اقدام ضروری ہے۔
انھوں نے معیشت کے پانچ فیصد شرح نمو پر ترقی کے ہدف سے بھی اختلاف کیا اور امکان ظاہر کیا کہ مالی سال کے اختتام پر یہ تین سے ساڑھے تین فیصد تک رہے گی۔
پاکستان کا صنعتی و تجارتی شعبہ شرح سود میں اضافے پر کیا کہتا ہے؟
پاکستان میں صعنت و تجارت کی ملک گیر تنظیم فیڈریشن آف پاکستان چمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) کے صدر ناصر حیات مگوں نے اس بارے میں بتایا کہ گیس و بجلی اور خام مال کی زیادہ قیمتوں کی وجہ سے صنعت و تجارت کا شعبہ پریشانی کا شکار ہے اور شرح سود میں اضافے کی وجہ سے اب ان شعبوں کی کاروباری لاگت مزید بڑھ جائے گی۔
انھوں نے کہا پاکستان میں ڈیمانڈ کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کی وجہ قیمتوں کا عالمی اور مقامی منڈی میں زیادہ ہونا ہے۔
ناصر حیات مگوں نے کہا کہ پاکستان کی معیشت میں زیادہ شرح سود اور روپے کی کم قیمت کو جذب کرنے کی سکت نہیں اور سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ معاشی گروتھ کے لیے نقصان دہ ہے۔
ڈاکٹر اشفاق نے کہا کچھ ماہ قبل تک معاشی اشاریوں میں کچھ بہتری نظر آنا شروع ہو گئی تھی اور لگ رہا تھا کہ سمت صحیح ہے تاہم مئی کے مہینے کے بعد جس طرح روپے کی قیمت کو گرایا گیا اور اب شرح سود میں اضافے نے معاشی شرح نمو میں اضافے پر سوالیہ نشان چھوڑ دیے ہیں۔