سوات میں مقامی افراد کو طالبان کی ’ممکنہ واپسی‘ کے حوالے سے کیا خدشات ہیں؟
سوات پریس کلب کے ہال میں سوات قومی جرگے کے اکابرین اور مختلف طبقہ فکر کے لوگوں کی بڑی تعداد جمع ہے۔ برستی بارش میں بھی بہت سے لوگ انھیں سننے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ سٹیج پر ایک کے بعد دوسرا شخص اپنے خیالات کا اظہار کر رہا ہے۔ اندر جگہ کم پڑنے کی وجہ سے بہت سے لوگ باہر راہداری میں ہی بیٹھ گئے ہیں۔
مقررین میں سے ایک نے کہا ’اب 2006 نہیں 2022 ہے۔ سوات کے عوام کو اس بار کوئی بے وقوف نہیں بنا سکتا۔‘
جرگے کے اکابرین نے اپنی گفتگو میں وادی سوات کے علاقے مٹہ میں ڈی ایس پی کے زخمی ہونے، فوجی افسر اور ساتھیوں کے ساتھ یرغمال بننے، طالبان کی مبینہ ویڈیوز اور انٹرویوز اور علاقے میں طالبان کی جانب سے مبینہ طور پر لگان اور بھتے کے مطالبات کا تذکرہ بھی کیا۔
’ماضی میں ہمارے ساتھ جو ڈرامے کیے گئے ہیں ہم مزید انھیں برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہم دوبارہ آئی ڈی پیز بنیں گے۔‘
اس بیٹھک کو سوات قومی کانفرنس کا نام دیا گیا جو تین گھنٹے تک جاری رہی۔ مختصر اعلامیے میں کہا گیا کہ امن کی ذمہ داری حکومتی اداروں کی ہے لیکن ریاست ناکام ہے اور ہمیں اس پر تشویش ہے، اس بار ہم کسی قیمت پر اپنے گھر بار نہیں چھوڑیں گے۔
اعلامیے میں حکومت پر الزام عائد کیا گیا کہ ’پچھلی مرتبہ سارا معاملہ ریاستی سرپرستی میں ہوا۔‘
خیال رہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز، چاہے وہ پولیس ہے یا فوج، نے زخمی ڈی ایس پی اور میجر سمیت ان کے ساتھیوں کی بازیابی کے واقعے پر کوئی تفصیلات فراہم نہیں کیں اور بس یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ ’وہ دہشت گرد ہیں، مسلح افراد ہیں، بظاہر افغانستان سے آئے تھےاور اپنے آبائی علاقے میں بسنا چاہتے تھے۔‘
پاکستانی فوج نے واقعے کے پانچ روز بعد اپنے بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ سوشل میڈیا پر یہ خبر کہ سوات کی وادی میں ٹی ٹی پی کے مسلح افراد کی بڑی تعداد موجود ہے، مبالغہ آرائی اور گمراہ کن ہے۔
پریس کلب کے ہال میں ہونے والی کانفرنس میں شامل پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی صدر نے بی بی سی سے گفتگو میں کہا کہ ’سوات میں اب عدم استحکام اور غیر یقینی پیدا کی جا رہی ہے، دہشت گردوں نے کہا کہ ہم امن معاہدے کے تحت آئے ہیں، اس پر لوگوں میں بہت تشویش پائی جاتی ہے، ہم علاقے میں امن چاہتے ہیں۔‘
یہیں موجود ڈاکٹر امجد خان نے کہا کہ ’لوگوں نے اپنا ردعمل دیا ہے اب اگر وہ لوگوں کے بغیر معاہدے کریں گے تو لوگ اسے قبول نہیں کریں گے۔ پہلے بھی سنہ 2008 میں مسئلہ پیدا ہوا تھا، پہلے طالبان کو یہاں سوسائٹی میں حمایت تھی لیکن اب لوگوں کو پتا چل گیا ہے کہ جو امن ہم نے حاصل کیا ہے اگر اس کو کسی نے پامال کرنے کی کوشش کی تو سخت مزاحمت کریں گے اور حالیہ مظاہرے اس کا ثبوت ہیں۔‘
سوات قومی جرگے کے رکن اور ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان، جو خود بھی طالبان کا نشانہ بنے تھے، کا کہنا ہے کہ ’ایک ایسا علاقہ جہاں لوگوں کے گھر تباہ کیے گئے ہوں، گھر والوں کو مارا گیا ہو، لوگوں کو بھتہ دینے کے خط دیے جا رہے ہوں، وہاں اگر پولیس ڈی ایس پی زخمی ہوتا ہے تو یہ سکیورٹی اداروں کی ناکامی ہے۔‘
طالبان کی واپسی کی خبریں
سوات میں طالبان کی واپسی کی خبریں لوگوں نے ایک دوسرے سے سوشل میڈیا پر شیئر کیں۔
لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ مٹہ تو وزیر اعلٰی محمود خان کا حلقہ ہے پھر وہ خاموش کیوں ہیں؟ ملک کا میڈیا کیوں خاموش ہے؟
شائستہ حاکم ان صحافیوں میں شامل ہیں جنھوں نے سوشل میڈیا پر اس واقعے کو رپورٹ کیا، ہوٹل کی لابی میں مجھ سے ملاقات میں انھوں نے بتایا بطور صحافی تو مجھے کچھ خوف نہیں، ہاں گھر والے اور دوست احتیاط برتنے کو کہتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ایک دو مہینے پہلے ہی یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ طالبان آئے ہیں تصاویر شیئر ہو رہی تھیں اور کہا جا رہا تھا کہ یہ آپ دیکھیں تو بتائیں، ابھی یہ خبریں چل ہی رہی تھیں کہ ڈی ایس پی کا واقعہ ہوا اور لوگوں میں خوف پیدا ہو گیا، لوگ کہنے لگے کہ کیا پھر وہی حالات پیدا ہوں گے، کیا ہم پھر سے گھروں میں بیٹھ جائیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں طالبان کے قبضے کے دوران وہ منگورہ کے ہوسٹل میں رہ رہی تھیں اور طالبان کا سلسلہ ان کے گاؤں کے تھوڑا آگے گٹ پیوچار سے شروع ہوا۔
’بطور صحافی میں تو نہیں ڈرتی لیکن میرے دفتر کی لڑکیاں کہتی ہیں کیا پھر ہمیں دفتر جانے دیا جائے گا یا نہیں، پھر سے ہم شٹل کاک پہنیں گے، ہاں یہ ہے کہ ہم نے اس بار خود طالبان کو یہاں (شہر میں) نہیں دیکھا۔‘
سوات کے لوگ اپنی سرحد سے جڑے ضلع دیر کا حوالہ بھی دیتے ہیں کہ طالبان افغانستان جانے کے لیے دیر کا راستہ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن گذشتہ 20 دن میں دیر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کو دیکھتے ہوئے سوات کے لوگوں کو یہ اطمینان ضرور ہے کہ طالبان کی ان کی اپنی شرائط پر واپسی عملی طور پر ممکن ہونا مشکل ہے۔
’طالبان پھر سے علاقے میں آ گئے ہیں‘
سوات کے علاقے بابِ مٹہ کے پاس کھڑے پولیس اہلکار اب آپ کو ویڈیو بنانے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں اب بھی پولیس اور فوج کی گاڑیاں آتی جاتی دکھائی دیتی ہیں۔
مقامی لوگ بتاتے ہیں حالیہ دنوں میں منگورہ کے مصروف بازار سے گزر کر سکیورٹی اہلکار اور ہتیھاروں سے بھری گاڑیاں مٹہ کی جانب جاتی دکھائی دیں۔
یہیں چند گز کے فاصلے پر نادرا کے دفتر کے باہر شٹل کاک برقعے میں ملبوس ایک خاتون نے مجھے کہاں کدھر سے آئی ہو، تو میں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے پوچھا کہ کیا طالبان پھر سے آ گئے ہیں؟ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے انھوں نے مختصراً جواب دیا ’ہاں ناں وہ پھر آ گئے ہیں ادھر۔‘
اوپر پہاڑوں میں کیا ہو رہا ہے یہ مکمل طور پر تو کسی کو معلوم نہیں لیکن مقامی افراد کہتے ہیں کہ ’چند روز پہلے تک مٹہ کی فضا میں سنائی دیتی گن شپ ہیلی کاپٹروں کی آوازیں اب تھم چکی ہیں۔ فوج نے اب دوبارہ علاقے کو کنٹرول میں لے لیا ہے۔‘
اس موضوع پر آن کیمرہ گفتگو سے عام لوگ گھبراتے ہیں اور نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔
اب جہاں سکیورٹی فورسز گئی ہیں یہ تھانہ چپڑیال سے اوپر کنالہ کا وہی پہاڑی علاقہ ہے جہاں پولیس کے ڈی ایس پی اور سپاہی کے علاوہ فوج کے ایک میجر اور ان کے ساتھی کو بھی یرغمال بنایا گیا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ہم دو سے تین کلومیٹر کے علاقے میں سرچ کر رہے ہیں، پولیس کو اپنا پہلا آپریشن ڈی ایس پی پر حملے کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا تھا۔
زخمی ڈی ایس پی، جنھیں گولی لگنے کے تقریباً 12 سے 13 گھنٹے بعد ہسپتال پہنچایا گیا تھا، اب راولپنڈی میں زیر علاج ہیں۔
پولیس نے ہم سے چند تصاویر شیئر کیں جن میں فوج اور پولیس کے اہلکار اوپر پہاڑوں کی جانب جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
جب ہم مٹہ کے علاقے درش خیلہ میں افضل خان لالہ کے ڈیرے پر پہنچے تو شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔
یہ گھرانہ طالبان کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے، یہاں ہماری ملاقات افضل لالہ (مرحوم) کے بیٹے بریگیڈیئر (ر) سلیم خان اور بھتیجے کرنل (ر) عبدالغفار خان سے ہوئی۔
مٹہ کے لوگ اور علاقے کے سرکردہ افراد ایک جرگے کا حوالہ دیتے ہیں جو طالبان کے مطالبے پر اوپر بھجوایا گیا اور جس کے نتیجے میں پولیس اور فوجی اہلکار واپس لوٹ آئے لیکن بریگیڈیئر سلیم خان اپنی گفتگو میں ایک اور جرگے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔
’فوج نے جرگے میں طالبان کی واپسی کے موضوع پر بات کی تھی‘
بریگیڈئیر ریٹائرڈ سلیم خان نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ سوات میں ’طالبان‘ کی واپسی کی بات فوجی حکام نے چند ماہ پہلے کی تھی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پہلے کبل اور پھر سی گرام میں فوج کے ساتھ ایک ملاقات ہوئی تھی۔ ملاقات میں کہا گیا کہ 16 سال سے یہ لوگ کیمپوں میں پڑے ہیں، عدالتوں میں ان کے کیس چل رہے ہیں، ان کے خاندانوں کا کچھ پتا نہیں۔ اگر یہ لوگ نادم ہوں اور کہیں کہ معافی چاہیے تو ہم نے کہا کہ اگر وہ مانتے ہیں کہ غلطی ہو گئی ہے اور وہ نادم ہیں تو ٹھیک ہے۔ ہمارا خیال تو یہی تھا کہ کوئی معاہدہ ہوا ہے۔ پھر آنے والے عرصے میں بہت سے لوگوں نے ہمیں بتایا بھی کہ فلاں کمانڈر فلاں شخص علاقے میں واپس آ گیا ہے۔‘
بریگیڈئیر سلیم کہتے ہیں کہ اس معاملے میں پریشانی اور کنفیوژن تب پیدا ہوئی جب طالبان کی ویڈیوز منظر عام پر آئیں اور اس لیے ہم نے مطالبہ کیا کہ ہمیں بتائیں کہ جو طالبان کہہ رہے ہیں وہ ٹھیک ہے یا جو آپ نے کہا وہ ٹھیک ہے؟
’سوشل میڈیا پر جو ویڈیوز آئیں تب ہم نے کہا کہ ہمیں وضاحت دیں کہ یہ کیا ہے اور پھر اگر ایسا ہی ہے تو 80 ہزار جانوں کی قربانیاں کیوں دی گئیں؟‘
’طالبان کمانڈر نے کہا اب سے لگان ہمیں دینا ہے‘
بریگیڈئیر سلیم کہتے ہیں کہ ’طالبان نے ڈی ایس پی اور میجر کو یرغمال بنانے کے بعد جرگے میں تین لوگوں کو بلوایا تھا۔‘
اپنے گھر کے لان میں کھڑے بریگیڈئیر سلیم نے اپنے عقب کی جانب اشارہ کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ان پہاڑوں کی چوٹیوں پر کنالہ کا علاقہ ہے۔ وہ کہنے لگے کہ اس علاقے میں ہماری زمینیں ہیں، جن کی رکھوالی کرنے والے ہمارے مزارعین نے ہمیں بتایا ہے کہ ’اوپر طالبان کمانڈر آئے اور انھوں نے کہا کہ تم نے آج کے بعد سے ہمیں لگان دینا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ یہ درست ہے کہ طالبان کے حامی علاقے میں ہمیشہ سے موجود ہیں۔
’طالبان ہیں مگر یہاں سے بہت دور‘
مٹہ کے بازار میں پھرتی سے نسوار کی پڑیاں بناتے ایک مقامی شخص نے مجھے بتایا ’ہاں طالبان آئے تھے‘ اور ساتھ ہی پہاڑوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے وہ کہنے لگے ’وہ یہاں سے دور ہیں، بہت دور۔‘
مٹہ کے بازار میں لوگ بات کرتے ہوئے اپنے ماضی کے تجربات کا ذکر بھی کرتے ہیں لیکن زبان پر براہ راست طالبان کا نام لینا بھی پسند نہیں کرتے اور ان کے لیے ’وہ‘ اور ’ان‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
میں نے ایک بُک شاپ پر کھڑے ایک نوجوان سے پوچھا کچھ روز پہلے پہاڑوں پر جو واقعہ پیش آیا اس کے بعد اب کیا حالات ہیں؟ جواب ملا ’ابھی تو کچھ نہیں، ہم کام کر رہے ہیں، کاروبار بند نہیں کیا۔ کہا جا رہا ہے وہ واپس چلے گئے ہیں لیکن سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
اس نوجوان نے کہا ’پہلے طالبان آئے تھے تو مجھے سکول چھوڑنا پڑا تھا۔ ہمارا پورا خاندان کرفیو لگنے کی وجہ سے یہاں پھنس گیا تھا اب وہ پھر آ گئے تو بہت مشکل ہو جائے گی۔‘
موبائل دکانیں جنھیں طالبان نے برسوں پہلے تباہ کر دیا تھا، اب وہ دوبارہ سے قائم ہیں اور وہاں کاروبار جاری ہے۔ ایک دکاندار نے کہا کہ ’ہمیں نہیں لگتا کہ اب وہ اتنی آسانی سے لوٹ سکتے ہیں۔ ہاں جنھیں فوج نے چھوڑا ہے وہ تو یہاں اب اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے ہیں۔‘
’مر جائیں گے مگر علاقہ نہیں چھوڑیں گے‘
مٹہ کے علاقے شکردرہ کے بازار سے ملحقہ ایک گلی میں ملک ممتاز علی خان کا حجرہ ہے۔ حجرے کے برآمدے میں دیوار پر تین بندوقیں لٹک رہی ہیں جبکہ ایک بینر پر 13 افراد کی تصاویر دکھائی دیتی ہیں جس کا عنوان ہے ’شہدا امن، شہدا سوات۔‘
اس خاندان کے 16 افراد ٹارگٹ کلنگ یا بم دھماکوں کا نشانہ بنے۔ آخری ہلاکت دو برس پہلے ہوئی۔
ملک ممتاز جو سوات قومی جرگے کے رکن ہیں، کہتے ہیں میں نے اپنے بھائی، والد، کزن اور ماموں اپنے گھر کے سکیورٹی گارڈ کو کھویا، ان افراد میں سے سبھی شادی شدہ تھے جن کے پیچھے بچے اور بیوی رہ گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہر سال ہمیں سکیورٹی والے بتاتے ہیں کہ اپنا خیال رکھو صبح سویرے اور رات گئے گھر سے نہ نکلو لیکن یہ کہنا کہ لوگ آئے ہوئے ہیں اور پہاڑوں میں رہ رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ پہاڑوں اور جنگلوں سے یہاں نیچے آسانی سے آتے ہیں، اگر یہ افغانستان سے آتے ہیں تو دشواری زیادہ ہوتی ہے اور اب تو یہ یہاں اندر کے علاقے میں ہیں تو ان کے لیے زیادہ آسانی ہو گئی ہے۔ ان کے پاس موٹر سائیکلیں بھی ہوتی ہیں، یہ ٹارگٹ کلنگ کر کے آسانی سے واپس چلے جاتے ہیں یا ادھر ادھر کبل یا کسی اور علاقے میں چھپ جاتے ہیں۔ اگر فوج یا پولیس نے چیک پوسٹ اور پھاٹک بھی لگائے ہیں پہاڑوں میں تو ان کے لیے واپس جانا مشکل نہیں۔‘
ملک ممتاز کہتے ہیں کہ ’ہم دوبارہ علاقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، یہیں مر جائیں گے مگر علاقہ نہیں چھوڑیں گے‘ لیکن ان کے لہجے میں مایوسی بھی جھلک رہی تھی۔
’میں طالبان کے بچوں کو بھی پڑھاتی ہوں‘
سوات جسے، طالبان کی جانب سے قبضہ کیے جانے کے بعد تین بار آپریشن سے گزرنا پڑا، کے ہر دوسرے محلے میں آپ کو طالبان یا پھر فوجی آپریشن کے متاثرہ خاندان ملتے ہیں۔
بہت سی بیوہ خواتین اپنے میکے یا سسرال میں بچوں کی اکیلے پرورش کر رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک خاندان سے میری ملاقات ہوئی جہاں 10 سے زیادہ خواتین بیوہ ہوئیں۔
ان خواتین سے میں یہ سوال نہیں کر سکتی تھی کہ آپ کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا یا یہ وقت کیسے کٹا، ان کی آنکھوں میں موجود کرب اور آنسو ان کا حال بیان کر رہے تھے۔
ایک خاتون، جن کے شوہر کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بنایا گیا تھا، نے مجھے بتایا کہ یہاں سوات میں مرد، عورتوں کو ابتدا میں طالبان کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے تھے لیکن اب ہمارے گھروں میں اس پر بات ہو رہی ہے کہ وہ پہاڑوں میں ہیں۔
ایک خاتون سکول ٹیچر نے بتایا کہ ’میرے شوہر کو طالبان نے گھر کے سامنے گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا لیکن میں طالبان کے پیچھے رہ جانے والے بچوں کو اس امید سے پڑھا رہی ہوں کہ وہ اچھے انسان بن سکیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’آپریشن کے بعد دوبارہ آبادکاری کے بعد طالبان کے بچے جب سکول آتے تھے تو دوستوں کو بتاتے تھے کہ ہم افغانستان چلے گئے تھے اور وہاں بندوقیں تھیں۔ چند ماہ قبل بچوں نے سکول میں پھر بتایا کہ ہمارے ابو (طالبان) افغانستان سے گھر واپس آ گئے ہیں۔‘
واضح رہے کہ سوات میں طالبان کے حامی بہت سے افراد آپریشن کے وقت روپوش ہو گئے تھے اور بہت سے ملک سے فرار ہو گئے تھے۔
ایک خاتون ٹیچر نے بتایا کہ ہم طالبان اور پر امن شہریوں کے بچوں میں کوئی فرق نہیں کرتے اور یہ حقیقت ہے کہ طالبان کے بہت سے حامی بیرون ملک سے لوٹ کر گذشتہ چند برسوں سے علاقے میں غیر مسلح ہو کر رہ رہے ہیں۔
سوات میں اپنے تین روزہ قیام کے دوران میں نے سیدو شریف، بری کوٹ، مٹہ اور دیگر علاقوں کے سکولوں اور کالجوں کے پاس سے گزرتے، بچوں کو سکول کالج جاتے دیکھا۔
مٹہ میں ایک ٹیچر نے کہا کہ ابتدا میں کچھ دن تو حاضری میں کچھ کمی ہوئی لیکن اب سب معمول پر ہے، بچے سکول آرہے ہیں۔
طلعت (فرضی نام) نے بتایا کہ ’مٹہ کی خبر ہم نے فیس بک پر دیکھی۔ میری دوست نے مجھے بتایا کہ اس کی والدہ ان کے بھائی کو اس خوف سے سکول نہیں جانے دے رہیں کہ کہیں پھر سے طالبان نہ آ جائیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’آپریشن کے بعد طالبان تو چلے گئے تھے لیکن خطرہ کئی برس تک تھا۔ فوج کی جانب سے الرٹ پر کبھی سکول سے جلدی چھٹی ہوتی تھی تو کبھی دیر سے۔۔۔‘
سکیورٹی اور پولیس کی چیک پوسٹس گزرے برسوں میں ختم ہو چکی تھیں لیکن اب چند ایک مقامات پر پولیس کا ناکہ دکھائی دیتا ہے۔
سوات میں سیاحوں کی آمد میں کمی
فضا گٹ روڈ پر دریائے سوات کے کنارے لگی لفٹ جسے تحریک طالبان کے سربراہ فضل اللہ آپریٹ کرتے تھے اب بھی موجود ہے۔
امام ڈھیری کے لوگ فضا گٹ کی جانب جانے کے لیے اسے شارٹ کٹ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ فضا گٹ پارک سے پہلے دریا کا نظارہ کرنے کے لیے آئے لوگ اس نیلے رنگ کی لفٹ کی جانب ضرور متوجہ ہوتے ہیں۔ لیکن حالیہ دنوں میں سوات کے ہوٹلوں میں سیاحوں کی آمد کچھ تھم سی گئی ہے۔
ایک ہوٹل کے استقبالیہ پر انتظامیہ کے اہلکار نے مجھے بتایا کہ جس روز مٹہ میں ڈی ایس پی اور ان کے ساتھیوں کو طالبان نے پکڑا اس روز ہمارے ہوٹل آنے والے سب سیاحوں نے بکنگ کینسل کر دی تھی اور آنے والے دنوں میں بھی صورتحال اچھی نہیں تھی۔
بتایا جاتا ہے کہ بالائی سوات کے ہوٹلوں میں بکنگز کینسل ہوئیں یہاں نیچے بازار میں بھی دکاندار جن سے سیاح سامان خریدتے ہیں، بتاتے ہیں کہ اس خبر نے کاروبار کو ٹھپ کر دیا ہے۔
یہ خوف و ہراس اور سوالات کسی ایک طبقے تک محدود نہیں۔ سیدو شریف میں میری ملاقات خاتون وکیل نیلم چٹان سے ہوئی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’لوگوں کو خدشات ہیں کہ دوبارہ سے حالات نہ خراب ہو جائیں۔ ہم تو اب تک اس صدمے سے مکمل طور پر نہیں نکلے، ہم زندگی کی جانب لوٹنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور اب پھر ایسے حالات پیدا ہونا تشویشناک ہے سب کچھ پھر سے رک جائے گا۔‘
نیلم کا شمار ان افراد میں ہے جن کے سسر کو پہلے طالبان نے ریڈیو پر دھمکیاں دیں اور پھر مسجد سے نکلتے ہوئے گولی مار دی۔ نیلم ہمیں اپنے گھر کی چھت پر لے گئیں جہاں سے سامنے وہ وسیع گھر دکھائی دیتا ہے جسے طالبان اپنی رہائش کے لیے استعمال کرتے تھے۔
وہ کہتی ہیں ’ہم آپریشن کے دوران یہیں رہے ہم نے لاشوں کو لے جاتے اور بچوں اور بڑوں کو مرتے دیکھا۔ اس خوف کے عالم میں لوگوں نے داڑھی رکھنی شروع کی اور عورتوں نے برقعے پہننے شروع کیے۔‘
طالبان سے حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان بیریسٹر سیف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ ہمارا سیز فائر ہے لیکن مٹہ واقعے سے پہلے اور بعد ہم نے کے پی میں متعدد واقعات دیکھے جن میں فورسز اور سیاسی رہنماؤں سمیت پولیو ٹیموں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
واضح رہے کے اس واقعے کے بعد طالبان کی جانب سے آنے والے بیانات میں جہاں یہ تصدیق ملتی ہے کہ وہ حکومت سے مذاکرات کر رہے ہیں وہیں یہ بھی واضح کیا کہ ٹی ٹی پی نے کبھی بھی اپنے علاقوں سے مکمل انحلا نہیں کیا اور وزیرستان سے سوات تک اپنا مسلح وجود برقرار رکھا ہے۔
’وہ لوگوں کا ردعمل دیکھنا چاہتے تھے‘
منگورہ میں میری ملاقات فوج کی حراست میں دو سال تک رہنے والے ایک شخص سے ہوئی۔ جس نے مجھے بتایا کہ میرے ساتھ 2009 میں 700 لوگ ایک جگہ پر گرفتار تھے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جو اذیت ہم نے اٹھائی وہ بیان سے باہر ہے اور اب طالبان کے واپس آنے کی اطلاعات پر پولیس چاہتی ہیں ہم تحریری دستاویز میں انھیں یہ یقین دلائیں کہ ہم طالبان کے ساتھ شامل نہیں ہوں گے۔‘
سینئیر صحافی مشتاق یوسفزئی اور سوات کے صحافیوں کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق طالبان کنالہ کی پہاڑیوں سے اردگرد دوسرے علاقوں میں روپوش تو ہو گئے ہیں لیکن واپس افغانستان نہیں گئے۔
بی بی سی سے گفتگو میں مشتاق یوسفزئی نے کہا کہ ’شاید حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہو رہے ہیں، اور وہ لوگوں کا ردعمل دیکھنا چاہتے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’تقریباً تین سے چار ہزار طالبان جنگجو مالاکنڈ اور سوات کی جیلوں میں ہیں اور تین سے چار ہزار ہی افغانستان میں ہیں تو یہ سب اکٹھے ہو جائیں تو معاملہ بہت خراب ہو سکتا ہے۔’
کیا اس کا کوئی حل ہے؟
بریگیڈئیر (ر) سلیم خان کے خیال میں حل وہ کامیاب ہو گا جس میں قوم کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں جرگے میں بتایا گیا کہ ‘وہ نادم ہیں واپس آنا چاہتے ہیں’ لیکن یہاں کے لوگ کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ وہ واپس آئیں اور پھر خون خرابہ ہو۔‘
کرنل عبدالغفار خان فوج کی کوششوں اور دلیری پر شک نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ آپ کو نظر آ رہا ہے ہر جگہ آرمی ہے اور طالبان بھاگ رہے ہیں۔
’ہم محسوس کرتے ہیں کہ ایکشن پہلے ہونا چاہیے تھا، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے ہوا کہ طالبان پولیس اور فوج کے لوگوں کو محاصرے میں رکھا، پھر جرگہ بنا، جرگے میں کون لوگ گئے وہ جن کے پہلے بھی طالبان کے ساتھ روابط تھے، افغانستان میں بھی یہی لوگ تھے۔’
ان کا کہنا تھا کہ ‘ڈی ایس پی اور فوج کے لوگوں کو کن شرائط پر چھوڑا گیا، وہ ہمیں بتایا جانا چاہیے، ان طالبان کو کیا سہولیات دی گئی ہیں اور یہ آ گے کیا کریں گے۔‘
یہ سوال کے آگے کیا ہونے والا ہے اس کا جواب تو ابھی نہ کسی صحافی کے پاس ہے نہ جرگہ کرنے والے اراکین کے پاس لیکن سوات پریس کلب میں ایک صحافی کے یہ الفاظ کہ ’سیزن پھر سے شروع ہونے والا ہے‘ اور یہ کہ طالبان کی پہاڑوں پر واپسی علاقے کے لوگوں کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کی جا رہی ہے، اہلِ سوات کے اندیشوں کو تقویت دیتا ہے۔