سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟
سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا، اس کے لیے دو اصطلاحات استعمال کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں اسے ’خانہ جنگی‘ یا علیحدگی کی تحریک قرار دیا جاتا ہے۔ بنگلہ دیش کے لیے یہ ’جنگِ آزادی‘ تھی۔
اس وقت کے مغربی پاکستان کے اخبارات اس صورتِ حال کی عکاسی کس طرح کر رہے تھے؟ یہ سوال خلاف توقع کوئی بڑا پنڈورا باکس تو نہیں کھولتا لیکن اُس زمانے کے اخبارات کے مطالعے سے آنکھ مچولی جیسی دلچسپ صورتِ حال ضرور سامنے آتی ہے۔
بنگلہ دیش کے نقطہ نظر سے سات مارچ 1971ء کا دن ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اُس روز 1970ء کے انتخابات میں سب بڑی جماعت کی حیثیت سے ابھرنے والی جماعت کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان نے حکومت کو الٹی میٹم دیا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو علیحدگی ناگزیر ہے۔
شیخ مجیب الرحمان کی 7 مارچ 1971 کی تقریر
پلٹن میدان ڈھاکہ میں ہونے والی اس تقریر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس دن وہاں 10 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی۔ جلسے کے شرکا کی اصل تعداد جو بھی ہو، یہ ایک منظم اجتماع تھا جس میں سٹیج تک پہنچنے کے لیے خصوصی راستہ بنایا گیا تھا۔
شیخ مجیب الرحمٰن کی گاڑی پورے پروٹوکول کے ساتھ سٹیج تک پہنچی۔ وہاں موجود رہنماؤں نے ان کا خیر مقدم کیا اور وہ رسیوں کا سہارا لے کر عارضی زینے پرقدم بہ قدم اوپر جانے لگے۔ عین اس وقت جب ان کا پہلا قدم سٹیج پر پڑ رہا تھا، ایک نعرہ بلند ہوا:
’آمار دیش، تومار دیش
بانگلا دیش، بانگلا دیش‘
شیخ مجیب اس دوران اپنے ساتھیوں کے ہجوم میں سٹیج پر دھیرے دھیرے آگے بڑھتے رہے اور کنارے پر پہنچنے پر ہاتھ لہرا کر عوام کے نعروں کے جواب دیے۔ عین اسی لمحے ویڈیو پر ایک غیر معمولی منظر دکھائی دیتا ہے۔ ان کے سر کے بالکل اوپر بنگلا دیش کا جھنڈا لہراتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ واضح رہے کہ یہ بنگلا دیش کے قیام سے ٹھیک آٹھ ماہ پہلے کی بات ہے۔
شیخ مجیب نے اسی دوران اپنا بائیاں گال کھجایا اور عوام کو پر سکون ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے روسٹرم پر آئے۔ عینک اتار کر سامنے رکھی اور نہایت سکون سےتقریر کا آغاز کیا۔ انھوں نے شرکائے جلسہ کو دھیمے انداز میں مخاطب کیا:
’بھائی آمار!‘ (میرے بھائیو)۔
حاضرین کو مخاطب کرنے کے بعد انھوں نے نہایت مختصر الفاظ میں متحدہ پاکستان کی 26 برس کی تاریخ اور اس عرصے کے دوران لگنے والے مارشل لاؤں کا تذکرہ کیا۔ اس کے فوراً ہی بعد انھوں نے اُس وقت کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا۔
انھوں نے شکوہ کیا کہ:
’میں نے مطالبہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 15 فروری (1971ء) کو طلب کیا جائے۔ اکثریتی جماعت کے راہنما کی حیثیت سے اُسے (جنرل یحییٰ کو) میری بات ماننی چاہیے تھی لیکن اس نے تاخیری حربے استعمال کیے۔ اقلیتی جماعت کے راہنما مسٹر بھٹو سے مشورہ کیا اور 3 مارچ کو اجلاس بلا لیا۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہو گئے لیکن واضح کر دیا کہ چھ نکات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
’دوسری طرف بھٹو نے ڈیڈ لاک پیدا کر دیا اور کہا کہ اگر یہ اجلاس ہوا تو مغربی پاکستان کو جام کر دیا جائے گا۔ ان دھمکیوں کے باوجود اجلاس کی تیاریاں جاری رہیں۔ لیکن پھر اجلاس ملتوی کر کے گول میز کانفرنس بلا لی گئی۔ کیسی گول میز کانفرنس؟ کیا میں ایسی کانفرنس میں اُن لوگوں کے ساتھ بیٹھوں جنھوں نے میری ماؤں اور بہنوں کی گود اجاڑی ہے؟
’ اس کے بعد میں نے مجبور ہو کر تحریک عدم تعاون (سول نافرمانی) کی تحریک شروع کر دی۔ پھر مجھ پر اور بنگالیوں پر الزامات کی بھرمار کر دی گئی۔ اب 25 مارچ (1971ء) کو ایک بار پھر (قومی اسمبلی کا)اجلاس بلا لیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کرنی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ ہم بعد میں کریں گے، پہلے ہمارے چار مطالبات تسلیم کیے جائیں۔‘
انھوں نے اس موقع پر جو مطالبات پیش کیے، وہ اس طرح تھے:
- مارشل لا فی الفور ختم کیا جائے
- فوج کو فوری طور پر بیرکوں میں واپس بھیج دیا جائے
- عوام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے
- اقتدار فوری طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جائے
انھوں نے اپنے مطالبات پیش کیے پھر کہا: ’میں عدالتوں سرکاری دفاتر اور تعلیمی اداروں کی غیر معینہ مدت کے لیے بندش کا اعلان کرتا ہوں۔میں (عوام کو) ہدایت کرتا ہوں کہ میری اجازت کے بغیر سرکاری دفاتر میں کوئی نہ جائے۔
اس موقع پر انھوں نے سپریم کورٹ (کوئٹہ رجسٹری) ہائی کورٹ، سیکریٹریٹ، سرکاری اور غیر سرکاری تمام اداروں کی بھی غیر معینہ مدت کے لیے بندش کا اعلان کیا۔
انھوں نے کہا کہ: ’مشرقی پاکستان سے کوئی رقم مغربی پاکستان نہیں جائے گی۔ ہر چیز کو جام کر دیا جائے گا۔ ٹیلی فون اور ٹیلی گراف سروس صرف مشرقی پاکستان تک محدود رہے گی۔ اگر خونریزی کی جائے تو اپنے گھروں کو قلعے بنا لیا جائے اور دشمن سے نمٹنے کے لیے جو کیا جا سکتا ہو، کیا جائے۔ سڑکیں بند کر دی جائیں۔ انھوں نے حکمرانوں یا فوج کا نام لیے بغیر کہا کہ ان کی خوراک اور پانی تک بند کر دیا جائے۔ اس وقت تک کوئی ٹیکس نہ دیا جائے جب تک ہماری سرزمین آزاد نہیں ہو جاتی۔‘
ان اعلانات کے بعد انھوں نے کہا ’اگر ہم اپنے اختلافات حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو امید کا دروازہ کھلا رہے گا۔ دوسری صورت میں ہم کبھی ایک دوسرے کا منھ تک نہیں دیکھیں گے۔‘
انھوں نے کہا ’اگر ہماری تحریک کو کوریج نہیں دی جاتی تو عوام ریڈیو سننا اور ٹیلی ویژن دیکھنا چھوڑ دیں۔ حکمران بھول جائیں کہ اب عوام کو آئندہ کبھی فوجی اقتدار کے لیے غلام بنایا جا سکے گا۔ یہ جدوجہد کا وقت ہے، آزادی کی جدوجہد کا اور یقین رکھیں کہ ہم اپنے عوام کو آزادی دلا کر رہیں گے۔‘
انھوں نے اپنی تقریر کا اختتام ’جوئے بانگلا‘ کے الفاظ سے کیا۔
شیخ مجیب الرحمان کی تقریر کی مغربی پاکستان میں کوریج
اپنے مواد، لہجے کے زیر و بم اور الفاظ کے انتخاب کے اعتبار سے یہ تقریر متحدہ پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے بھی انتہائی اہمیت رکھتی تھی لہٰذا مغربی پاکستان کے اخبارات میں بھی یہ تقریر معمول سے ہٹ کر شائع کی گئی۔
حکومت کے زیر انتظام چلنے والے اخبار روزنامہ ’مشرق‘ نے اپنی لوح (اخبار کا نام) سے بھی اوپر معمول سے زیادہ نمایاں شہ سرخیوں کے ساتھ یہ خبر شائع کی۔ اخبار نے اس تقریر کو اپنے مواد کے اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا اور تین علیحدہ علیحدہ خبریں شائع کیں۔ آٹھ کالمی شہ سرخی میں شائع ہونے والی پہلی خبر شیخ مجیب الرحمان کے چار نکات پر مشتمل تھی۔
خبر کے اس حصے کو غیر معمولی طور پر نمایاں انداز میں شائع کرنے کے باوجود اس کے بعض نکات جوں کے توں شائع نہیں کیے گئے یا انھیں حذف کر دیا گیا۔ شیخ مجیب کے چار مطالبات میں سے ایک اہم مطالبہ یہ تھا کہ عوام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ خبر کے متن میں اس نکتے کے بارے میں لکھا گیا کہ فائرنگ کے بارے میں تحقیقات کروائی جائے۔ سرخی میں اسے ان الفاظ میں شائع کیا گیا:
’حالیہ ہنگاموں میں ہلاک ہونے والوں سے متعلق تحقیقات کروائی جائے‘
متحدہ پاکستان کے مستقبل سے متعلق غیر معمولی اہمیت رکھنے والی اس تقریر کی کوریج میں مزید کئی اہم نکات بھی شامل نہیں تھے:
- جلسے میں لہرائے جانے والے بنگلہ دیش کے جھنڈے کا ذکر اور بنگلہ دیش کے نعروں کا کوریج میں ذکر نہیں تھا۔
- شیخ مجیب نے کہا تھا کہ ٹیکس اس وقت تک ادا نہ کیا جائے جب تک ہماری سرزمین آزاد نہیں ہو جاتی۔ خبر میں یہ ذکر شامل نہیں تھا۔
- انھوں نے بھٹو پر ڈیڈلاک پیدا کرنے کا الزام لگایا اور کہاتھا کہ انھوں (بھٹو) نے قومی اسمبلی کے اجلاس کی صورت میں مغربی پاکستان کو احتجاج کے ذریعے جام کرنے اور اسے قصاب خانہ بنا دینے کی دھمکی دی ہے۔ خبر میں یہ شامل نہیں تھا۔
- عوام کو ریڈیو ٹیلی ویژن کے بائیکاٹ کی ہدایت کرتے ہوئے انھوں نے ان اداروں کے ذمہ داروں سے کہا تھا کہ اس ملک کو جہنم بنا کر انھیں ایک روز اپنے ضمیر کے سامنے شرمسار ہونا پڑے گا۔ خبر میں بائیکاٹ کا ذکر کرتے ہوئے یہ رپورٹ کیا گیا کہ انھوں نے اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ان کی تحریک کی خبریں اور بیانات نشر کریں۔ شیخ مجیب کی تقریر میں یہ نکتہ شامل نہیں تھا۔
- انھوں نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اگر ہم بھائیوں کی طرح بیٹھ کر مسائل حل کر لیں تو امید برقرار رہے گی بصورت دیگر ہم ایک دوسرے کا منھ کبھی نہیں دیکھیں گے (یعنی علیحدہ ہو جائیں گے)۔ خبر میں یہ اہم ترین نکتہ رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔
- خبر میں سڑکیں بند کرنے اور فوج یا انتظامیہ کا نام لیے بغیر ان کی خوراک اور پانی بند کرنے کے اعلان کا ذکر تھا۔
- انھوں نے فوجی حکمراں یحییٰ خان کی طرف سے بلائی گئی گول میز کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان یہ کہہ کر کیا تھا کہ کیا میں اپنے لوگوں کے قاتلوں کے ساتھ بیٹھوں؟ یہ بھی رپورٹ نہیں کیا گیا۔
- ان کی تقریر کا ایک اہم نکتہ گھروں کو قلعے بنا لینے اور مقصد کے حصول تک جدو جہد آزادی جاری رکھنے سے متعلق تھا جو حکومت کے زیر انتظام چلنے والے مشرق اخبار میں رپورٹ نہیں کیا گیا۔
شیخ مجیب الرحمان کی اس تقریر سے ایک روز پہلے روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں ان کا ایک بیان شائع ہو چکا تھا جس میں ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر اقتدار سنبھالنے کو تیار ہیں اور وہ دو وزرائے اعظم کی تجویز پر غور کرنے پر بھی آمادہ ہیں۔ واضح رہے کہ دو وزرائے اعظم کی تجویز پیپلز پارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو سے منسوب کی جاتی ہے۔
آٹھ مارچ 1971ء کے روزنامہ ’مشرق‘ کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ تحریک عدم تعاون یا سول نافرمانی کے پروگرام کی وضاحت کے لیے شیخ مجیب الرحمان کا ایک بیان بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس روز کے اخبار میں دوسری اہم ترین خبر یہی تھی۔
اس وقت کے سیاسی منظر نامے میں دھماکہ کر دینے والی شیخ مجیب الرحمان کی اس تقریر سے قبل یحییٰ خان نے یکم مارچ کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا اعلان کیا تھا، اس وقت عوامی لیگ نے احتجاج کے طور پر مشرقی پاکستان میں ہڑتال کی اپیل کی تھی۔
مغربی پاکستان کے اخبارات میں ان کی یہ اپیل بھی نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ دائیں بازو کا رجحان رکھنے والے اخبار ’نوائے وقت‘ میں اس روز پہلی سب سے بڑی خبر قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا اور دوسری بڑی خبر اسی اپیل سے متعلق تھی۔
یکم مارچ 1971ء کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے التوا کے بعد مشرقی پاکستان میں بڑے پیمانے پر ہنگامے ہوئے۔ ان ہنگاموں کی وجہ سے کئی شہروں میں کرفیو کے نفاذ کی نوبت آ گئی۔ مغربی پاکستان کے اخبارات میں یہ خبریں بھی نمایاں طور پر شائع ہوئیں۔
شیخ مجیب الرحمان کی 23 مارچ 1971 کی تقریر
شیخ مجیب الرحمان کے صد سالہ یوم ولادت کے موقع پر بنگلہ دیش حکومت نے ان کی سو اہم تقاریر کا ایک پورٹل جاری کیا تھا۔ پورٹل پر بنگلہ زبان میں ان کی 23 مارچ 1971 کو کی جانے والی تقریر کی وڈیو کے ساتھ تعارف میں یہ لکھا گیا ہے کہ مشرقی پاکستان میں وہ پہلا دن تھا جب یوم پاکستان نہیں منایا گیا اور نہ پاکستان کا پرچم لہرایا گیا۔ اس کے بجائے پورے صوبے میں بنگلا دیش کا جھنڈا لہرایا گیا۔
ویڈیو کے ساتھ لکھی گئی تحریر کے مطابق شیخ مجیب الرحمان نے اس دن تحریک عدم تعاون جاری رکھنے کے عزم کو دہرایا اور یہ بھی کہ تقریر میں انھوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ جب تک سات کروڑ افراد آزادی حاصل نہیں کر لیتے، جدوجہد جاری رہے گی۔
مغربی پاکستان کے اخبارات میں یہ تقریر بھی بہت نمایاں انداز میں شائع کی گئی۔ شیخ مجیب الرحمان نے اس روز مشرقی پاکستان کے اخبارات کے نام ایک خصوصی پیغام بھی جاری کیا جو 22 مارچ 1971ء کو ڈھاکہ کے روزنامہ ’آزاد‘ میں شائع ہوا تھا۔ یہ بیان 23 مارچ 1971ء کو مغربی پاکستان کے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔
شیخ مجیب کا یہ پیغام بھی ان کی سات مارچ 1971ء کی تقریر کے بنیادی نکات پر ہی مشتمل تھا۔
مشرقی پاکستان کے اخبارات نے ’یوم نجات بنگلہ دیش‘ کے عنوان سے خصوصی ایڈیشن شائع کیے تھے۔ ان ایڈیشنز کی اشاعت پر شیخ مجیب الرحمان نے اخبارات کو مبارک باد دی اور مقصد کے حصول کے لیے تحریک جاری رکھنے کا اعادہ کیا۔
اپنے اس پیغام میں انھوں نے اپنا وہ جملہ ایک بار پھر دہرایا کہ عوام اپنے گھروں کو قلعوں میں تبدیل کر لیں۔ مغربی پاکستان کے اخبارات نے سات مارچ کی تقریر کی رپورٹنگ کرتے ہوئے یہ نکتہ شائع نہیں کیا تھا لیکن اس دفعہ یہ جملہ شائع ہوا۔ اس روز ان کا ایک اور جملہ بھی شائع ہوا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کے عوام اب توپوں، گولیوں اور سنگینوں سے مرعوب نہیں ہوں گے کیوں کہ وہ متحد ہیں۔
سال 1971ء میں مارچ کا مہینہ جیسے جیسے اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا تھا، مشرقی پاکستان کا سیاسی سٹیج ڈیڈ لاک، کشیدگی اور تصادم کی طرف بڑھ رہا تھا۔
عوامی لیگ کے ایک اہم راہنما تاج الدین احمد کا بیان 22 مارچ 1971ء کو وہاں کے مقامی روزنامہ ’آزاد‘ میں شائع ہوا کہ ان کی جماعت اب مذاکرات کو طول نہیں دینا چاہتی۔ واضح رہے کہ شیخ مجیب الرحمان مستقبل کے آئین کی تشکیل اور انتقال اقتدار کے سلسلے میں یحییٰ خان سے مذاکرات میں مصروف تھے۔
مشرقی پاکستان میں جس روز یہ بیان شائع ہوا، اسی روز مغربی پاکستان کے اخبارات میں شیخ مجیب اور یحییٰ خان کے درمیان ایک ملاقات کی خبر شائع ہوئی۔ یہ ملاقات 70 منٹ تک جاری رہی تھی۔ ملاقات پہلے سے طے شدہ نہیں تھی۔ اس ملاقات میں شیخ مجیب کے ساتھ تاج الدین احمد بھی شریک تھے۔
ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے بتایا کہ یہ ملاقات بعض نکات کی وضاحت کے لیے تھی۔ یہ نکات کیا تھے، شیخ مجیب نے ان کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یحییٰ خان سے ڈھاکہ میں اسی روز ملاقات کی تھی۔ اس روز ڈھاکہ میں بھٹو کی حمایت اور مخالفت میں مظاہرے بھی ہوئے۔
اس ملاقات سے چار روز قبل بھی شیخ مجیب الرحمان نے یحییٰ خان سے ڈھاکہ میں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کی خاص بات یہ تھی کہ وہ ایوان صدر ڈھاکہ میں جس گاڑی میں سوار ہو کر پہنچے، اس پر سیاہ جھنڈا لہرا رہا تھا۔ مغربی پاکستان کے اخبارات میں شیخ مجیب الرحمان کی اس طرح آمد کی یہ خبر بھی نمایاں طور پر شائع ہوئی۔
25 مارچ 1971ء
متحدہ پاکستان کی تاریخ میں 25 مارچ 1971ء کا دن خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے۔ اُس روز جو واقعات پیش آئے، بنگلہ دیش کی طرف سے اس کی تفصیل مختلف انداز میں پیش کی جاتی ہے جبکہ مغربی پاکستان کے اخبارات میں ان واقعات کی تفصیل مختلف تھی۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والی ان اطلاعات کا بنیادی ذریعہ شیخ مجیب الرحمان ہیں یا عوامی لیگ کے دیگر راہنما۔
بنگلہ دیش کے نقطہ نظر ہی نہیں بلکہ متحدہ پاکستان کے حامیوں کے خیال میں بھی یہ دن فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس روز فریقین صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے تھے۔ ملک کے فوجی حکمراں یحییٰ خان نے شیخ مجیب الرحمان، ان کے ساتھیوں اور عوامی لیگ کو غدار قرار دے کر امن کی بحالی کے لیے ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا جبکہ عوامی لیگ کی طرف سے فوجی سرگرمیوں کے خلاف مزاحمت شروع کر دی گئی۔
سنہ 1972 میں بنگلہ دیش میں ‘Bangladesh Genocide And World Press’ کے عنوان سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں کتاب کے مرتب فضل القادر چوہدری نے اس سلسلے میں دنیا کے بعض اخبارات میں شائع ہونے والی خبریں جمع کی ہیں۔
ان میں برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلی گراف کے نامہ نگار سائمن ڈرنگ کی رپورٹ بھی شامل ہے۔ کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے اُس روز آپریشن کی خبریں چھپانے کے لیے غیر ملکی نامہ نگاروں کو ہوٹل میں بند کر دیا تھا یا کراچی روانہ کر دیا تھا۔
کتاب کے مطابق سائمن ڈرنگ نے اس موقع پر حواس بحال رکھے اور پاکستانی حکام کی گرفت میں آنے سے بچ گئے۔ یوں 26 مارچ کے ڈیلی ٹیلی گراف میں ان کی ارسال کردہ رپورٹ شائع ہو گئی۔ رپورٹ کا ایک پیراگراف فضل القادر چوہدری نے اپنی کتاب میں اس طرح درج کیا ہے:
ترجمہ: ڈھاکہ اب تباہی اور دہشت کا شہر ہے۔ پاکستانی فوج کی 24 گھنٹے بے رحمانہ بمباری میں سات ہزار سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ طلبہ اپنے ہاسٹلوں کے بستروں میں مارے گئے ہیں۔ قصائی بازاروں میں اپنی دکانوں کے پیچھے مارے گئے ہیں۔
26 مارچ 1971ء کے روزنامہ ’نوائے وقت‘ میں مشرقی پاکستان کے واقعات کی خبریں نمایاں انداز میں شائع کی گئیں۔ سنہ 26 مارچ کا یہ اخبار تین شہ سرخیوں کے ساتھ شائع ہوا۔
اخبار کی دوسری شہ سرخی میں بتایا گیا کہ مشرقی پاکستان کے دو بڑے شہروں چاٹگام اور رنگ پور میں فائرنگ ہوئی ہے۔ ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 64 تھی۔ لیکن اسی خبر کی تفصیل میں بتایا گیا کہ ہلاکتیں 57 تھی۔
مغربی پاکستان میں شائع ہونے والی یہ خبریں عوامی لیگ کے قائدین کے حوالے سے شائع ہوئیں۔ فوجی ذرائع سے سامنے آنے والی خبر یہ تھی کہ فوجی نقل و حرکت میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے فائرنگ ناگزیر ہو گئی تھی۔
اخبار نے عینی شاہدین کے حوالے سے لکھا کہ: فوجی جوانوں کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مختلف ہجوموں نے رکاوٹیں کھڑی کر دی تھیں۔ فوج نے یہ رکاوٹیں ہٹانی شروع کیں تو مشتعل ہجوم نے نصیر آباد نامی مقام پر حضرت بایزید بسطامی نام کے بزرگ کے مقبرے کے قریب ان پر حملہ کر دیا۔ جواب میں فوج نے فائرنگ کی جس میں دو افراد ہلاک ہو گئے۔ نصیر آباد سے کچھ فاصلے پر فقیر پاڑا کے مقام پر بھی تصادم ہوا۔ یہاں فائرنگ کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے۔
خبر کے مطابق بندرگاہ میں بحری جہاز سے گولہ بارود لے کر آنے والے ایک ٹرک پر حملہ کر دیا گیا۔ ہجوم نے یہاں سڑک کے علاوہ ریل کی پٹڑی بھی تباہ کر کے فوجی نقل و حرکت ناممکن بنا دی جبکہ ایک پل کو اڑا دیا گیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق یہاں فائرنگ کی گئی۔
اخبار نے سرکاری نیوز ایجنسی کے حوالے سے بتایا کہ: ہجوم نے چاٹگام چھاؤنی کی جانب جانے والے راستے بند کر دیے تھے۔ اخبار نے اسی خبر میں عوامی لیگ چاٹگام کے جنرل سیکریٹری ایم اے حنان کا بیان شائع کیا جس میں انھوں نے بحری جہاز ’سوات‘ پر ہجوم کے حملے کی تصدیق کی اور بتایا کہ وہاں فائرنگ کے واقعات میں دو افراد ہلاک ہوئے۔
اسی خبر میں شیخ مجیب الرحمان کا بیان بھی شائع ہوا جس میں انھوں نے بتایا کہ سید پور، رنگ پور اور جے دیو پور نامی مقامات پر بھی فوجی کارروائی ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ امن و امان کی بحالی کے سلسلے میں پولیس کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور تمام کارروائیاں فوج کر رہی ہے۔ انھوں نے ان واقعات کے خلاف احتجاجی ہڑتال کی اپیل بھی کی جو خبر میں شامل تھی۔
ایک علیحدہ خبر میں بتایا گیا کہ رنگ پور میں تشدد کے واقعات ہوئے ہیں جن پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ خبر میں عوامی لیگ کے سیکریٹری جنرل تاج الدین احمد کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان واقعات میں فائرنگ بھی ہوئی جس کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ خبر میں ہلاکتوں کی تعداد کا ذکر نہیں تھا۔
حکومت کے زیرِ انتظام چلنے والے روزنامہ ’مشرق‘ نے اپنی اسی روز کی اشاعت میں تاج الدین کے حوالے سے رنگ پور میں فائرنگ اور ہلاکتوں کی خبر شائع کی۔ اس خبر میں ہلاکتوں کی تعداد درج نہیں تھی۔ ’نوائے وقت‘ کے مقابلے میں یہ خبر نمایاں نہیں تھی لیکن یہ خبر بھی اخبار کے اوپر کے حصے میں تین کالمز میں شائع ہوئی۔
مشرقی پاکستان میں جس روز تشدد کے یہ واقعات ہوئے، اسی روز ملک کے فوجی حکمراں جنرل یحییٰ خان نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے عوامی لیگ پر پابندی عائد کردی۔ انھوں نے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کے ساتھیوں کو غدار قرار دیا۔
انھوں نے الزام لگایا کہ شیخ مجیب مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش کر رہے تھے۔ یحییٰ خان نے اسی خطاب میں ملک میں سنسرشپ کے نفاذ کا بھی اعلان کیا۔ انھوں نے (بقول ان کے اپنے) ملک بچانے کے لیے فوجی آپریشن شروع کرنے کا حکم بھی دیا۔
اس آپریشن کے دوران مشرقی پاکستان کے کن علاقوں میں کیا کارروائیاں ہوئیں اور شیخ مجیب الرحمان کو کب گرفتار کیا گیا، اس کی کوئی اطلاع پاکستانی اخبارات میں شائع نہیں ہوئی۔
البتہ سنسرشپ کے نفاذ کے بعد مشرقی پاکستان سے آنے والی خبروں کی نوعیت بدل گئی۔ اپریل میں اس قسم کی خبریں شائع ہوئیں کہ مشرقی پاکستان سے انڈیا نقل مکانی کر جانے والے بنگالیوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے۔
بعض خبروں میں بتایا گیا کہ حالات معلوم پر آنے شروع ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال 10 اپریل 1971ء کے ’مشرق‘ میں دکھائی دیتی ہے۔ خبر میں بتایا گیا کہ چٹاگانگ میں سماج اور ملک دشمن عناصر کا صفایا کر دیا گیا ہے جبکہ بیشتر لوگوں نے خود کو فوج کے حوالے کر دیا ہے۔ خبر میں یہ بھی کہا گیا کہ محب وطن عوام کے تعاون سے مسلح بھارتیوں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
یہ وہی زمانہ ہے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان مشرقی اور مغربی پاکستان کے محاذوں پر کشیدگی بڑھ رہی تھی۔ لہٰذا اپریل تا دسمبر دونوں ملکوں کے درمیان جھڑپوں اور سفارتی سرگرمیوں کی خبروں میں اضافہ ہو گیا تھا۔
البتہ 4 اپریل 1971ء کی ایک خبر اس بحران میں ایک نئے عنصر کی آمد کی خبر دیتی ہے۔ یہ خبر بھارتی پارلیمنٹ سے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خطاب کی ہے۔
اپنی تقریر میں انھوں نے کہا کہ انڈیا مشرقی پاکستان کے واقعات پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ خبر میں بتایا گیا کہ کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو تسلیم کر لیا جائے۔ بھارتی حکومت نے یہ مطالبہ 6 دسمبر 1971ء کو تسلیم کر لیا۔ اسی روز پاکستان نے انڈیا کے ساتھ تعلقات منقطع کر دیے۔
اپریل میں اندرا گاندھی کا بیان ایک خاص واقعے کی وجہ سے اہمیت اختیار کر گیا۔ 24 مارچ 1971ء کے ’نوائے وقت‘ میں یہ خبر شائع ہوئی کہ انڈیا نے کلکتہ میں پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمیشنر مہدی مسعود کو تحفظ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
خبر کے مطابق بعض عناصر نے ڈپٹی ہائی کمیشن کی عمارت پر قبضہ کر لیا تھا اور وہاں مشرقی پاکستان کی جلاوطن حکومت کا دفتر قائم کر دیا گیا تھا۔ پاکستانی ہائی کمشنر نے کلکتہ کے چیف سیکریٹری سے کہا کہ وہ عمارت خالی کروائیں تو انھوں نے اس پر معذوری ظاہر کر دی۔
اسی تنازعے کے دوران انڈین حکومت نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو آگاہ کیا کہ وہ جلاوطن حکومت کو تسلیم کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ پاکستانی حکومت نے انڈیا کی یہ وضاحت مسترد کر دی۔
بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کب قائم ہوئی؟ ایک اطلاع کے مطابق 17 مارچ 1971ء کو یہ انڈین سرحد کے قریب محب پور کے مقام پر بنائی گئی تھی۔ .وکی پیڈیا کے مطابق ایسا 10 اپریل 1971ء کو ہوا تھا۔ یہ جب بھی ہوا، پاکستانی اخبارات میں اس کی کوئی اطلاع شائع نہیں ہوئی۔