سمگل شدہ ایرانی تیل سے پریشان پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کی جنگ عوام کی جیب پر بھاری پڑ سکتی ہے؟
’دراصل یہ پیٹرولیم ڈیلرز اور حکومت کی جنگ ہے۔ ڈیلرز چاہتے ہیں کہ ان کا منافع 5 سے 6 فیصد تک بڑھایا جائے۔ اب حکومت کے پاس دو راستے ہیں۔ اگر حکومت اپنی جیب سے ان کا حصہ نہیں بڑھاتی تو اس کا بوجھ بھی عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا۔‘
پاکستان میں گزشتہ ایک سال کے دوران پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان کو چھوتی ہوئی نظر آئیں جس کے بعد گزشتہ چند ماہ کے دوران حکومت نے بتدریج کسی حد تک قیمتوں میں کمی کی۔
تاہم اس وقت بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ملک کی تاریخ میں سب سے بلند سطح پر موجود ہیں۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی ایک وجہ بھی ان قیمتوں کو ہی قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سارے قصے میں پیٹرول پمپ مالکان کا کہنا ہے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے بعد تیل کی کم ہوتی کھپت اور اخراجات میں اضافے کے ساتھ ساتھ سمگل شدہ سستے ایرانی تیل کی دستیابی نے ان کے کاروبار کو اتنا نقصان پہنچایا ہے کہ اگر حکومت نے ان کے منافع کے مارجن میں اضافہ نہ کیا تو ان کے لیے پیٹرول بیچنے کا کام جاری رکھنا ممکن نہیں ہو گا۔
ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت ان کے کمیشن یا مارجن میں اضافہ کرے اور اسی مطالبے کو منوانے کے لیے پاکستان میں پیٹرولیم پمپ مالکان کی تنظیم پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن نے ملک بھر میں سنیچر یعنی 22 جولائی سے ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر رکھا تھا، جسے اب دو دن کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔
پیٹرولیم ڈیلرز کے مطابق مشیر پیٹرولیم نے ڈیلرز کے مارجن پر نظر ثانی کے لیے کمیٹی بنا دی ہے اور 48 گھنٹے کے اندر کمیٹی دوبارہ بیٹھ کر ڈیلرز کمیشن کو حتمی شکل دے گی۔
پیٹرولیم ڈیلرز کے مطابق حکومت سے مذاکرات کا حتمی راؤنڈ 48 گھنٹوں بعد ہوگا۔
منافع میں کمی
پیٹرولیم ڈیلرز کی اس ہڑتال کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟
پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز کا دعویٰ ہے کہ ان کے ملک بھر میں 10,000 سے زائد اراکین ہیں۔
حال ہی میں تنظیم نے ہڑتال کے اعلان سے قبل اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے وزیر اعظم شہباز شریف، وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق سے اپیل کی تھی کہ ان کے کم ہوتے ہوئے منافع اور بڑھتی کاروباری لاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیلرز کے مارجن میں اضافہ کیا جائے۔
پاکستان پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمیع خان کا کہنا ہے کہ کنزیومر پرائس انڈیکس 38 فیصد تک بڑھ چکی ہے جبکہ شرح سود میں اضافے اور بجلی اور دیگر یوٹیلیٹی کے نرخوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 1999 میں اس وقت کی حکومت کے ساتھ ہونے والے ایک معاہدے کے مطابق پانچ فیصد منافع کا مارجن طے ہوا تھا۔
تاہم ان کا دعویٰ ہے کہ 2004 میں منافع کا یہ مارجن کم ہو کر چار فیصد رہ گیا تھا جبکہ موجودہ حکومت نے منافع کے مارجن کو 6 روپے فی لیٹر کر دیا جس سے ان کا منافع تقریباً 2.4 فیصد رہ گیا۔
ان کے مطابق پیٹرولیم ڈیلرز کے لیے یہ قابل قبول صورتحال نہیں۔
صحافی تنویر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان خام تیل امپورٹ کرتا ہے جو پہلے ریفائنری میں جاتا ہے اور پھر ملک بھر میں کمپنیوں کے ذریعے ڈیلرز تک پہنچتا ہے جو صارفین کو پیٹرول فروخت کرتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پیٹرولیم ڈیلرز ہڑتال کرتے ہیں تو یہ موثر ہو سکتی ہے۔
ایرانی تیل کے باعث فروخت میں کمی
پاکستان کی حالیہ مردم شماری کے مطابق ملک کی کل آبادی 24 کروڑ سے زیادہ ہے اور حکومتی اعداد و شمار کے مطابق ملک میں یومیہ 489 بیرل تیل استعمال کیا جاتا ہے۔
تاہم عبدالسمیع خان کا کہنا ہے کہ سستے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی سمگلنگ کی وجہ سے ان کی فروخت میں 30 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے سمگل شدہ ایرانی پیٹرول کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں سمگل شدہ ایرانی تیل کا کاروبار دہائیوں سے جاری ہے اور پاکستان کی حکومت نے ماضی میں متعدد بار ملک میں تیل کی سمگلنگ اور فروخت پر پابندی لگانے کے وعدے اور دعوے کیے ہیں لیکن آج تک اس کاروبار کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔
بلوچستان کے بیشتر پیٹرول پمپس پر ایرانی پیٹرول اور ڈیزل ارزاں نرخوں پر دستیاب ہوتا ہے اور اس صوبے کا پہیہ زیادہ تر سمگل شدہ ایرانی پیٹرولیم مصنوعات کے سر پر ہی چلتا ہے۔ ایرانی پیٹرول کی یہ سمگلنگ نیلے پِک اپ ٹرکوں کے ذریعے ہوتی ہے جنھیی مقامی لوگ ’زمباد‘ کہتے ہیں۔
بلوچستان کے ایران سے متصل سرحد سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کراچی سے لیکر ملک کے دیگر علاقوں میں پہنچایا جاتا ہے۔
عبدالسمیع خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر مملکت مصدق ملک سے خود رابطہ بھی کیا اور تمام اہم اخبارات میں اپنی اپیلیں شائع کیں۔
’مصدق ملک نے کراچی آنے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں آئے۔‘
’دباؤ عوام پر ہی آئے گا‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر پیٹرولیم ڈیلرز کے منافع بڑھایا گیا تو اس کا بوجھ عوام پر ہی آئے گا۔
معاشی تجزیہ نگار محمد سہیل کہتے ہیں کہ تیل کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں لیکن ڈیلرز کا مارجن اس طریقے سے نہیں بڑھا۔
’اس کے علاوہ افراط زر اور شرح سود میں اضافہ ہے۔ اب جتنا بھی مارجن بڑھے گا اس کا دباؤ کنزیومر پر ہی آئے گا لیکن یہ حکومت نہیں چاہتی کہ الیکشن سے قبل عوام پر مزید دباؤ ڈالے۔‘
یاد رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کر چکے ہیں کہ 14 اگست کے بعد موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے گی جس کے بعد نگران سیٹ اپ تشکیل پائے گا۔
ایسی صورت حال میں جب موجودہ حکومت یہ قدم اٹھانے سے گریزاں ہے، محمد سہیل کا کہنا ہے کہ جو آنے والی حکومت ہو گی، یعنی نگران حکومت، ’اس پر یہ دباؤ ہوگا کہ پیٹرولیم ڈیلرز کا مارجن بڑھایا جائے۔‘
کراچی کی محمد علی جناح یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر محمد معراج کہتے ہیں کہ ’دراصل یہ ڈیلرز اور حکومت کی جنگ ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیلرز چاہتے ہیں کہ ان کا منافع 5 سے 6 فیصد بڑھایا جائے جو اس وقت ڈھائی فیصد ہے۔‘
ڈاکٹر محمد معراج نے کہا کہ اگر حکومت ان کا مطالبہ مانتی ہے تو ڈیلرز کو فی لیٹر تقریباً 12 روپے ملیں گے۔
ان کے مطابق ’حکومت کے پاس اب دو راستے ہیں: یا تو اپنے حصے میں سے مارجن دیں یا پھر یہ بوجھ بھی عوام پر ڈال دیں۔ اگر حکومت اپنی جیب سے ڈیلرز کا حصہ نہیں بڑھاتی تو عوام کو ہی بھگتنا پڑے گا۔‘