سمگلنگ اور ٹیکس چوری روکنے کے لیے ’ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم‘ کتنا کارآمد ثابت ہو سکتا ہے؟
پاکستان میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے سگریٹ، سیمنٹ، فرٹیلائزر اور چینی کے پیداواری شعبوں میں ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم متعارف کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
ایف بی آر حکام نے پاکستان میں ایوان بالا کی ایک قائمہ کمیٹی کو ایک اجلاس میں بتایا کہ ان چار مصنوعات کے پیداواری شعبوں کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم آئندہ مالی سال کے آغاز یعنی یکم جولائی 2021 کو نافذ کر دیا جائے گا۔ حکام کے مطابق اس سسٹم کے نفاذ کے اگلے مرحلے میں یہ مشروبات کے پیداواری شعبے میں نافذ ہو گا۔
حکام کے مطابق اس سسٹم کے نفاذ سے ان پیداواری شعبوں میں ٹیکس چوری کو روکا جائے گا۔ یہ سسٹم پاکستان میں صنعتی شعبے میں ٹیکس چوری کو روک پائے گا یا نہیں، اس کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم تو دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے کام کر رہا ہے لیکن کیا پاکستان میں بڑے پیداواری شعبے اس سسٹم کو اپنے پیداواری اداروں میں آسانی سے نافذ ہونے دیں گے؟
ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے کام کرنے اور اس کے ذریعے ٹیکس چوری کو روکنے کے سلسلے میں ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ نے بتایا کہ اس سسٹم کے تحت پیداواری اداروں میں الیکٹرانک مشینیں لگائی جاتی ہیں جن میں کیمرے فٹ ہوتے ہیں
پیداواری مصنوعات پر بار کوڈ لگائے جاتے ہیں اور اس سسٹم کی سکیننگ میشنیں اس بار کوڈ کو ریڈ کرتی ہیں۔ اس سسٹم کے تحت پتا چلتا ہے کہ کتنی منصوعات تیار کی گئی ہیں۔‘
اشفاق تولہ نے وضاحت کی کہ ایک کمپنی سگریٹ کے ایک لاکھ پیکٹ تیار کرتی ہے تو اس سسٹم کے ذریعے اس پر خصوصی سٹیکر لگ جائیں گے اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے اداروں کو پتا چل جائے گا کہ سگریٹ کی کتنی پیداوار ہوئی۔
ایف بی آر کے سابق چیئرمین شبر زیدی نے اس سلسلے میں کہا کہ اس سسٹم کے تحت تیار کی گئی مصنوعات پر ایک سٹیمپ لگ جاتی ہے جو کہ کمپیوٹر کوڈڈ ہوتی ہے۔
سابق ممبر ان لینڈ ریونیو اینڈ پالیسی ایف بی آر رحمت اللہ وزیر نے کہا کہ ’ایک کمپنی میں جتنا بھی مال تیار ہو گا اس کی اس سسٹم کے ذریعے نگرانی ہو گی اور یہ ساری نگرانی رئیل ٹائم بنیادوں پر ہو گی کہ جس کے تحت سارا ڈیٹا ایف بی آر حکام کو ملے گا۔‘
ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم ٹیکس چوری کو کیسے روک پائے گا؟
ملک میں ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے ایف بی آر کی ویب سائٹ پر موجود اعلامیے کے مطابق ریونیو کے خسارہ کے تدارک کے لیے ‘پیداوار اور فروخت کے اعداد و شمار کو کم ظاہر کرنے کی وجہ سے اور مخصوص اشیا و مصنوعات پر لاگو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی و سیلز ٹیکس کی ادائیگی کو یقینی بنانے کے لیے ایف بی آر نے مخصوص مصنوعات جیسا کہ سیمنٹ، چینی، کھاد اور مشروبات کی درآمدات اور ان کی پیداوار کو جانچنے کے لیے الیکٹرانک ٹریک اینڈ ٹریس نظام کو رائج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘
شبر زیدی نے اس سلسلے میں کہا کہ ٹیکس چوری کو روکنے کے لیے یہ ایک موثر نظام ہے جو دنیا کے مختلف ممالک میں کامیابی سے نافذ ہے۔ انھوں نے کہ اس نظام کے ذریعے پتا چلے گا کہ مصنوعات کتنی تعداد میں تیار کی گئیں اور ان کی کتنی فروخت کی گئی۔
شبر زیدی نے کہا کہ ’اس سسٹم کے ذریعے نہ صرف پیداواری شعبوں کی جانب سے پیداوار اور فروخت کا صحیح ڈیٹا ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کے پاس ہو گا بلکہ اس کے ساتھ جعلی مصنوعات کی روک تھام بھی ہو سکے گی۔ جب بھی کوئی مخصوص شہ کسی کمپنی سے تیار ہو کر نکلے گی تو اس پر اس سسٹم کے تحت ایک مخصوص سٹیمپ لگی ہو گی جس کے ذریعے پتا چلے گا کہ یہ چیز کمپنی میں تیار کردہ ہے یا جعلی ہے۔‘
رحمت اللہ وزیر نے اس سلسلے میں بتایا کہ ’تیار شدہ مصنوعات پر ایک خاص سٹمپ لگی ہو گی اور جب بھی وہ کسی فیکٹری سے نکل کر گودام یا دکان پر پہنچے گی تو اس کے ذریعے بھی پتا چلایا جا سکے گا۔ اگر اس فیکٹری کی مصنوعات بغیر اس سٹیمپ کے فروخت ہو رہی ہیں تو اس کے مطلب ہے کہ انھوں نے چوری چھپے یہ کام کیا ہے اور اس کے ذریعے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔‘
پاکستان میں کتنی ٹیکس چوری ہوتی ہے؟
پاکستان میں سالانہ ٹیکس چوری پر بات کرتے ہوئے رحمت اللہ وزیر نے کہا اس کے بارے میں مختلف تخیمنے ہیں۔ تاہم اگر ہر سال جمع ہونے والے ٹیکس کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ چوری 30 سے 40 فیصد کے درمیان ہے۔
انھوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گذشتہ سال پاکستان میں چار ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع ہوا تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو 30 سے 40 فیصد یعنی 1000 سے 1200 ارب روپے ٹیکس اکٹھا نہیں ہو پایا جو انفرادی اور کاروباری سطح پر مختلف بہانوں اور طریقوں سے حکومت کے خزانے میں جمع نہیں کرایا گیا۔
انھوں نے کہا پاکستان میں صرف دو ہزار کمپنیوں کا ٹیکس ہی کل ٹیکس کا 80 سے 85 فیصد حصہ ہے اور باقی کمپنیاں تو مختلف طریقوں سے ٹیکس جمع کرانے سے بچ کر نکل جاتے ہیں۔
ماہر ٹیکس امور اشفاق تولہ کے اندازے کے مطابق بڑی پیداواری کمپنیوں کی جانب سے کم ٹیکس جمع کرانے کی وجہ سے قومی خزانے کو سالانہ چار سے پانچ سو ارب کا نقصان ہوتا ہے۔
ایف بی آر کے ترجمان نے رابطہ کرنے پر بتایا ’جن پیداواری شعبوں میں یہ سسٹم نافذ کیا جا رہا ہے ان کی جانب سے ٹیکس چوری اربوں روپے کی ہے۔‘
انھوں نے اس امید کا اظہار کی کہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے نفاذ سے ان شعبوں سے پانچ سے چھ ارب روپے زیادہ ٹیکس جمع ہو گا اور یہ مستقبل میں دس ارب روپے تک جا سکتا ہے۔
کیا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم نافذ ہو پائے گا؟
رحمت اللہ وزیر نے اس سسٹم کے نافذ ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس پر گذشتہ پانچ چھ برسوں سے کام ہو رہا ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔
انھوں نے کہا کہ ایف بی آر نے چار پانچ بڑے پیداواری شعبوں جن میں سیمنٹ، شوگر، مشروبات، سگریٹ وغیرہ شامل ہیں ان میں اس سسٹم کو نافذ کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان میں بڑے پیداواری شعبے 50 سے زائد ہیں اور اس وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ان چار پانچ شعبوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے۔ ان شعبوں سے منسلک لوگ کہتے ہیں کہ صرف ان کے شعبوں میں اس سسٹم کا کا نفاذ امتیازی اقدام ہے۔
سابق چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا سسٹم تو بہت اچھا ہے لیکن سوال یہی ہے کہ کیا بڑے صنعتی شعبے اس سسٹم کو اپنے ہاں نافذ ہونے دیں گے۔
اشفاق تولہ نے اس سلسلے میں کہا اس سسٹم کے نفاذ کے لیے بہت برسوں سے کام ہو رہا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ٹیکس ریفارمز کمیشن نے اس سلسلے میں ورلڈ بینک سے ٹرم آف ریفرنسز بھی بنائے تھے اس کے بعد اس پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہو سکی۔‘
بڑے پیداواری شعبوں میں اس سسٹم کے نفاذ کے خلاف مزاحمت اور اس سسٹم کی کامیابی پر جب ایف بی آر کے ترجمان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ایف بی آر اس سسٹم کو نافذ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔
پاکستان میں سگریٹ بنانے والے ادارے پاکستان ٹوبیکو کمپنی سے جب رابطہ کیا گیا اور سگریٹ کے پیداواری شعبے کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کے تحت آنے پر پوچھا گیا تو کمپنی کے ترجمان مدیح پاشا نے کہا کہ اگر اس سسٹم کے ذریعے ملک میں غیر قانونی سگریٹ کی خرید و فروخت کی روک تھام ہو سکے تو یہ ایک اچھا اقدام ہو گا۔
انھوں نے کہا اگر کسی فیکٹری میں بننے والی سگریٹ جس پر اس سسٹم کے تحت ٹیگ لگا ہو گا وہ قانونی ہو گی اور وہ جو اس ٹیگ کے بغیر ہو گی اس کی روک تھام ہو گی تو یہ قانونی طور پر کام کرنے والوں اور حکومت دونوں کے لیے اچھا ہو گا۔
مدیح پاشا سے جب پوچھا گیا کہ ان کی کمپنی اس سسٹم کے تحت اپنی پیداوار اور فروخت کو ریکارڈ کرنے کو کیسے دیکھتی ہے تو انھوں نے کہا کہ پاکستان ٹوبیکو کمپنی ایک لسٹڈ کمپنی ہے اور انھیں سالانہ مالی گوشواروں میں سب کچھ ظاہر کرنا پڑتا ہے اور کسی گڑبڑ کا امکان اس لیے بھی نہیں ہوتا کیونکہ بیرون ملک اس کمپنی کی پیرنٹ کمپنی کی جانب سے اسے پیداوار اور فروخت کے صحیح اعداد و شمار پیش کرنے کی سخت ہدایات ہوتی ہیں۔