سلطانہ بیگم لال قلعہ پر ملکیت کا دعویٰ کرنے والی انڈین خاتون کون ہیں؟
گذشتہ دنوں دلی ہائی کورٹ نے کولکتہ کی رہائشی 69 سالہ خاتون سلطانہ بیگم کی اُس درخواست کو مسترد کر دیا جس میں انھوں نے دلی کے تاریخی لال قلعہ پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہوئے استدعا کی تھی کہ انڈین حکومت نے ان کی پراپرٹی (لال قلعہ) پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے اور یہ کہ عدالت انھیں اس پراپرٹی کا قبضہ واپس دلوائے یا پھر اس کا معاوضہ ادا کروائے۔
سلطانہ بیگم کا دعویٰ ہے کہ وہ آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ کے پڑپوتے مرزا محمد بیدار بخت کی بیوہ اور لال قلعہ کی قانونی وارث ہیں۔
بی بی سی اُردو سے بات کرتے ہوئے سلطانہ بیگم نے بتایا کہ اگرچہ عدالت نے اُن کی درخواست مسترد کر دی ہے لیکن وہ اس فیصلے پر مایوس نہیں ہوئی ہیں۔ ’میں خدا پر یقین رکھتی ہوں، اور ایک دن میں اپنا حق لے کر رہوں گی۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مجھے میرا حق ملے گا۔‘
سلطانہ بیگم ان دنوں کولکتہ کے نواحی علاقے ہوڑہ کی ایک افلاس زدہ بستی میں رہتی ہیں۔
سلطانہ بیگم نے بی بی سی کو یہ بھی بتایا کہ انھوں نے بہت پہلے حکومت سے درخواست کی تھی کہ بہادر شاہ ظفر کی باقیات کو رنگون سے لا کر مہرولی میں واقع ظفر محل میں دفن کیا جائے۔
یاد رہے کہ انڈیا کی مرکزی حکومت نے سلطانہ بیگم کی چھ ہزار روپے ماہانہ پیشن مقرر کر رکھی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’چھ ہزار روپے میں آج کیا ملتا ہے۔ حکومت کو سوچنا چاہیے۔ بیگم صاحبہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا محمد بیدار بخت کی بیوہ ہیں۔‘
سلطانہ بیگم کی عمر 69 برس ہے۔
ان کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا تعلق لکھنؤ کے نزدیک واقع قصبے کاکوری سے ہے۔
مغل بادشاہ شاہجہاں نے جب 17ویں صدی کے وسط میں اپنا دارالسلطنت آگرہ سے دلی متقل کیا تو انھوں نے فصیل بند شہر شاہجہان آباد تعمیر کروایا۔
لال قلعہ دریائے جمنا کے کنارے شاہی محل کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ شاہجہاں کے بعد آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک یہ مغلوں کا پايہ تخت رہا۔ بہادر شاہ ظفر کو معزول کرنے کے بعد انگریزوں نے انھیں ملک بدر کر کے برما کے دارالحکومت رنگون بھیج دیا تھا۔ وہیں انھوں نے وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
سلطانہ بیگم کے مطابق جب وہتین برس کی تھیں اس وقت ان کے نانا انھیں لے کر کولکتہ آ گئے تھے۔ یہیں تیرہ برس کی عمر میں ان کی شادی بیدار بخت سے ہوئی، جو ان سے عمر میں تیس برس بڑے تھے۔ اب وہ ہوڑہ میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہتی ہیں۔
لال قلعہ پر ملکیت کا مقدمہ دلی ہائی کورٹ میں اس ہفتے کے اوائل میں سماعت کے لیے آیا تھا۔
سلطانہ بیگم نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ وہ بہادر شاہ ظفر کے پڑپوتے مرزا بیدار بخت کی بیوہ ہیں، جو بچپن میں کسی کے ساتھ خفیہ طریقے سے رنگون سے فرار ہو کر انڈیا آ گئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’حکومت ہند نے سنہ 1960 میں بیدار بخت کو بہادر شاہ ظفر کا وارث تسلیم کیا تھا اور بیدار بخت کی موت کے بعد اُن کی پینشن انھیں ملنے لگی۔‘
عدالت عالیہ نے ان کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پہلے اتنی تاخیر سے عدالت آنے کی وضاحت کیجیے۔
عدالت نے پوچھا کہ ’آپ کا کہنا ہے کہ سنہ 1857 میں آپ کے ساتھ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے ناانصافی کی تھی۔ 170 برس بعد آپ نے عدالت سے رجوع کیا ہے۔ آپ اس تاخیر کی وضاحت کیجیے۔ اس کے بعد ہم اس مقدمے کے پہلوؤں پر غور کریں گے۔ آپ کس طرح قلعہ کی مالک ہیں یہ ہم تب دیکھیں گے۔‘
عدالت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ درخواست گزار خاتون غریب اور ناخواندہ ہیں۔
ججز نے کہا کہ وہ اس پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے ہیں کہ بہادر شاہ ظفر ان کے جد امجد تھے یا نہیں۔ وہ صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد وہ اب کس طرح عدالت آ سکتی ہیں۔
سلطانہ بیگم نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے شوہر بیدار بخت چونکہ رنگون سے فرار ہو کر آئے تھے اس لیے انھوں نے اپنی پوری زندگی خوف اور ڈر میں گزاری۔ ’میں جب بھی دلی جانے کے لیے کہتی وہ ہمیشہ منع کر دیتے اور یہی کہتے تمھیں کوئی زہر دے دے گا۔ انھیں بھی ایک بار زہر دیا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ڈر ان کی نفسیات میں تھا۔ میں آزاد ملک میں پیدا ہوئی اور پلی بڑھی۔ مجھے کوئی ڈر نہیں ہے۔ میں اپنے حق کے لیے ہر دروازے پر دستک دوں گی۔‘
انھوں نے بتایا کہ لال قلعہ پر اپنی ملکیت ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس جو بھی دستاویزات تھیں، انھیں عدالت میں پیش کیا تھا۔ اس میں ان اشیا کی وہ فہرست بھی شامل تھی جو انگریزوں نے1857 میں آخری باشاہ بہادرشاہ کو گرفتار کرنے کے بعد ان کے قبضے اور لال قلعہ سے ضبط کی تھیں۔
عدالت نے سلطانہ بیگم کی درخواست ضرور مستر کر دی ہے لیکن وہ خود کو دلی کے وسط میں واقع تاریخی لال قلعہ کا اصل وارث سمجھتی ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ ایک نہ ایک دن انھیں ان کا حق ضرور ملے گا۔