سعودی عرب اربوں ڈالر خرچ کر کے فٹبال کی بڑی طاقت کیوں بننا چاہتا ہے؟
الہلال کلب سعودی عرب کی اول درجے کی فٹبال ٹیم ہے جس نے 66 ٹرافیاں جیت رکھی ہیں۔ اس کلب نے چار بار اے ایف سی چیمپیئنز لیگ بھی جیتی ہے اور یہ ایشیا میں فٹبال کی سب سے کامیاب ٹیم سمجھی جاتی ہے۔
اتنی متاثر کُن تاریخ کے باوجود 19 اگست 2023 کے دن کلب کی تاریخ میں ایک نئے باب کی شروعات ہوئیں جب نیمار جونیئر 65 ہزار شائقین کے سامنے اس کلب میں شامل ہوئے۔
برازیلی فٹ بال کھلاڑی الہلال کلب کی روایتی نیلی رنگ کی کٹ پہنے گراؤنڈ میں اترے تو پہلے آتش بازی ہوئی جس کے بعد ایک ڈرون شو ہوا جس میں نیمار کا چہرہ ریاض کے آسمان پر نمایاں تھا۔
الہلال کلب کے چاہنے والے عبداللہ بھی اس تقریب میں موجود تھے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت خاص دن ہے۔ نیمار بہت بڑا سٹار ہے۔ وہ اپنے ساتھ بہت سے فین بھی الہلال لائے گا۔ میں سمجھتا ہوں اب پورا برازیل ہماری حمایت کرے گا اور کلب ہر جگہ جانا جائے گا۔‘
سعودی عرب کو بین الاقوامی فٹ بال کا مرکز بنانے کی کوششوں کا آغاز کرسچیانو رونالڈو کی سعودی کلب النصر میں شمولیت سے ہوا تھا۔ رونالڈو نے جنوری میں سعودی کلب سے ڈھائی سال کا معاہدہ کیا تھا جس کے تحت رونالڈو کو 400 ملین ڈالر سے زیادہ کا معاوضہ ملے گا۔
رونالڈو کی آمد نے سعودی عرب میں فٹ بال لیگ کو نہایت تیزی سے بدلا اور کھیل کی دنیا کے بڑے نام مختلف کلبز میں شامل ہونے لگے۔ جون میں کریم بنزیما ریال میڈرڈ سے جدہ کے ال اتحاد کلب آ گئے۔
ان کے علاوہ سادیو مین، ریاد ماہریز، جارڈن ہینڈرسن، این گولو کانٹے بھی یورپی لیگ چھوڑ کر سعودی پرو لیگ میں شامل ہو چکے ہیں۔
رواں سال سعودی پرو لیگ نے بین الاقوامی کھلاڑیوں کی ٹرانسفر فیسوں کی مد میں 850 ملین ڈالر سے زیادہ رقم خرچ کی ہے جس میں وہ ماہانہ معاوضہ شامل نہیں جو ان کھلاڑیوں کو دیا جائے گا۔
لیگ کے چیف فنانشل افسر کارلو نوہرا کے مطابق اتنی بڑی تعداد میں پیسہ صرف ایک بار کے لیے ہی نہیں لٹایا گیا۔ سعودی حکومت نے فٹ بال لیگ کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس وقت تک مالی معاونت جاری رکھے گی جب تک منافع اور معیار کے اعتبار سے یہ دنیا کی سب سے اعلیٰ پائے کی لیگ نہیں بن جاتی۔
سعودی پرو لیگ انگلش پریمیئر لیگ اور لا لیگا سے مقابلہ کرنا چاہتی ہے۔
کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول تک بین الاقوامی کھلاڑیوں کو سعودی عرب لانے کے لیے پیسہ خرچ کرتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی مالیاتی قدر بہتر بنانے پر بھی کام کر رہے ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ بات اہم ہے کہ ہم خود کو مالیاتی اعتبار سے منافع بخش بنائیں تاکہ ہم اپنی معاشی ترقی خود سے کر سکیں اور صرف حکومتی پیسے پر انحصار نہ کریں۔‘
’سافٹ پاور‘
دنیا میں تیل برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کھیلوں کی دنیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے جس میں سعودی پرو لیگ کا چہرہ بدلنے کے علاوہ فارمولا ون اور ایل آئی وی گولف شامل ہیں۔
چند ناقدین سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کی وجہ سے اس عمل کو ’سپورٹس واشنگ‘ کا نام دے رہے ہیں تاکہ دنیا کی توجہ ہٹائی جا سکے۔
تاہم چند ماہرین کا ماننا ہے کہ شہرت ہی اس حکمت عملی کی واحد وجہ نہیں۔ سائمن چیڈوک پیرس کے سکیما بزنس سکول میں کھیل اور جیو پولیٹیکل اکانومی کے پروفیسر ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں ملک کھیلوں اور تفریح کو ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس سے وہ اپنی سافٹ پاور کا اظہار کر سکیں۔‘
’یہ اسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے جسے سعودی عرب استعمال کر رہا ہے۔ یہ قوموں کے درمیان عالمی سطح پر لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کا مقابلہ ہے۔ برطانیہ، امریکہ، فرانس، انڈیا اور بہت سے ممالک اس حکمت عملی کو استعمال کرتے رہے ہیں۔ اور اب سعودی بھی یہی کر رہے ہیں۔‘
سعودی عرب کی اس حکمت عملی کے پیچھے دوسرا اہم مقصد اپنی معیشت کو تیل کی دولت ختم ہونے سے پہلے ازسرنو تشکیل دینا ہے۔ تیل سعودی عرب کی معیشت کا 40 فیصد حصہ فراہم کرتا ہے۔
سعودی عرب کے شہزادہ محمد بن سلمان جس ’وژن 2030‘ کو پروان دے رہے ہیں اس میں کھیل ایک اہم ستون ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ معاشی طور پر تنوع کو فروغ دیا جائے اور تیل پر انحصار کو کم کرتے ہوئے نئے شعبہ جات کو ترقی دی جائے اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
کارلو نوہرا کا کہنا ہے کہ ’ایک جانب ہمارا مقصد سعودی عوام کو تفریح فراہم کرنا ہے اور دوسری جانب ہم مقامی ٹیلنٹ تیار کرنا چاہتے ہیں تاکہ طول المدتی اعتبار سے پرو لیگ فروغ پا سکے۔‘
سعودی عرب میں فٹ بال مقبول کھیل ہے اور ملک کی 80 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں اس کھیل سے جڑی ہوئی ہے۔
تاہم کیا ملک کی حالیہ کثیر سرمایہ کاری فائدہ مند ثابت ہو گی یا نہیں، یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ یہ حکمت عملی سعودی عرب کی اس خواہش کا اظہار کر رہی ہے کہ یہ فٹ بال کی دنیا کی ایک بڑی طاقت بننا چاہتا ہے۔