سری لنکا معاشی بحران اور پرتشدد مظاہروں کے بعد

سری لنکا معاشی بحران اور پرتشدد مظاہروں کے بعد

سری لنکا معاشی بحران اور پرتشدد مظاہروں کے بعد ایمرجنسی نافذ

سری لنکا میں صدر کی رہائشگاہ کے باہر ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے بعد ملک بھر میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

مظاہرین نے جمعرات کو کولمبو میں صدر گوتابایا راج پکشے کی ذاتی رہائش گاہ کے قریب رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ جس کے بعد سے فوج کو تعینات کیا گیا ہے اور اب اسے بغیر وارنٹ کے مشتبہ افراد کو گرفتار کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ سری لنکا ایک بڑے معاشی بحران سے دوچار ہے جو کہ جزوی طور پر غیر ملکی کرنسی کے زخائر میں کمی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔

بحرالہند میں سوا دو کروڑ سے زیادہ آبادی والے اس ملک کو بڑے پیمانے پر بجلی کی لوڈشیڈنگ، ایندھن، ضروری اشیائے خوردنی اور ادویات کی کمی کا سامنا ہے جس کے سبب عوام کا حکومت کے خلاف غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔

یاد رہے کہ جمعرات کو صدر راج پکشے کے گھر کے باہر احتجاج پرامن طور پر شروع ہوا، لیکن شرکاء کا کہنا تھا کہ پولیس نے آنسو گیس، واٹر کینن فائر کیے اور وہاں موجود لوگوں کو زدوکوب کیا جس کے بعد معاملات پرتشدد ہو گئے۔ اور مظاہرین نے احتجاج کے دوران پولیس پر جوابی پتھراؤ کیا تھا۔

جلی ہوئی گاڑیاں پرتشدد واقعات کا منظر پیش کرتی ہیں
جلی ہوئی گاڑیاں پرتشدد واقعات کا منظر پیش کرتی ہیں

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایک اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ جھڑپوں کے دوران مبینہ طور پر کم از کم دو درجن پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں گذشتہ رات 5000 سے زیادہ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور صدر گوتابایا راج پکشے کے گھر کی طرف ریلی نکالی۔

صدر کے گھر پر حملے کی کوششوں کے دوران ایک ہجوم کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی، جس کے بعد 45 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور اس واقعے میں ایک شخص شدید طور پر زخمی ہے۔

جمعرات کی رات نافذ کیا جانے والا کرفیو جمعے کی صبح اٹھا لیا گیا تھا تاہم شہر میں پولیس اور فوج کی موجودگی بڑھا دی گئی ہے۔ ایک جلی ہوئی بس صدر راج پکشے کے گھر کی طرف جانے والی سڑک کے بیچوں بیچ اب بھی کھڑی ہے۔

جمعرات کو کیا ہوا تھا؟

جمعرات کی رات ہزاروں افراد نے سری لنکا کے صدر راج پکشے کے گھر کی طرف ایک احتجاجی ریلی نکالی اور ملک میں جاری شدید معاشی بحران کے باعث ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ ان مظاہرین میں کئی نامعلوم سوشل میڈیا کارکن بھی شامل تھے۔

مظاہرین نے ٹائروں کو آگ لگا کر دارالحکومت کی مرکزی شاہراہ کو بلاک کر دیا۔ اس دوران احتجاج پرتشدد شکل اختیار کر گیا اور مظاہرین نے فوج کی دو بسوں اور ایک جیپ کو آگ لگا دی اور پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا۔

سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔ جبکہ مظاہرین کو ہٹانے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی گئی تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اس کے لیے اصل گولیوں کا استعمال کیا ہے یا ربڑ کی گولیوں کا۔

خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو راج پکشے اپنے گھر پر نہیں تھے لیکن اعلیٰ فوجی حکام نے اس بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

ایک نجی ٹی وی نیٹ ورک مظاہرے کو براہ راست نشر کر رہا تھا جسے فوری طور پر روک دیا گیا۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکومت کے دباؤ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں مرد اور خواتین صدر راج پکشے اور ان کے خاندان کے خلاف نعرے لگا رہے تھے، اور مطالبہ کر رہے تھے کہ طاقتور راج پکشے خاندان کے تمام افراد مستعفی ہو جائیں۔

بس نذر آتش

ایک ریٹائرڈ بینکر اور مظاہرین میں سے ایک جگت لیانج کا کہنا ہے کہ ’میں اس حکومت پر بوجھ نہیں ہوں۔ میں مالی طور پر ٹھیک ہوں۔ لیکن میری دولت کسی کام کی نہیں ہے۔ میرے پاس بہت پیسہ ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں ان سے کچھ نہیں خرید سکتا، میں پیٹرول پمپ پر تیل نہیں خرید سکتا، جب میرے گھر میں گیس ختم ہو جاتی ہے تو میں اپنے سیلنڈر کو دوبارہ بھروا نہیں کروا سکتا۔ میرے خیال میں یہ اس ملک کا سیاہ ترین وقت ہے۔ ہم اپنے پیسوں سے کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہمارے لیڈر ہمیں مارے بغیر مار رہے ہیں۔‘

صدر گوٹابایا اور وزیر اعظم مہندا راج پکشے بھائی ہیں
ملک کے صدر اور وزیر اعظم دونوں ایک ہی خاندان سے ہیں اور بھائی ہیں

طاقتور راج پکشے خاندان

راج پکشے خاندان سری لنکا میں بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ گوٹابایا راج پکشے کے بڑے بھائی مہندا راج پکشے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور وہ ملک کے صدر رہ چکے ہیں۔

ان کے چھوٹے بھائی باسل وزیر خزانہ ہیں۔ سب سے بڑے بھائی چمل وزیر زراعت ہیں جبکہ ان کے بھتیجے نمل وزیر کھیل ہیں۔

مظاہرین

صورت حال یہاں تک کیسے پہنچی؟

خیال کیا جاتا ہے کہ کووڈ 19 کی وبا سری لنکا کی سنگین معاشی حالت کے لیے ذمہ دار ہے کیونکہ اس نے اس کی سیاحت کے شعبے پر شدید اثر ڈالا ہے۔ ساتھ ہی کئی ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کی بدانتظامی اور مسلسل قرضے لینے کی وجہ سے اتنی بری صورتحال پیدا ہوئی ہے۔

سری لنکا نے زرمبادلہ بچانے کے لیے مارچ سنہ 2020 میں درآمدات پر پابندی عائد کی تھی اور اس کے ذریعے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 51 ارب ڈالر کی بچت کی تھی۔

اس کے ساتھ ہی حالیہ دنوں میں سری لنکا میں ڈیزل کی قلت کے باعث کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوچکے ہیں لیکن اس دوران کسی بڑے لیڈر کے خلاف مظاہرہ نظر نہیں آیا۔

حکام اور میڈیا رپورٹس کے مطابق جمعرات کو ملک کے تمام پیٹرول پمپس پر ڈیزل دستیاب نہیں تھا۔ ملک کی سرکاری پاور کمپنی نے کہا تھا کہ وہ جمعرات سے 13 گھنٹے کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ کرنے جا رہی ہے کیونکہ اس کے پاس جنریٹروں کے لیے ڈیزل نہیں ہے اور یہ تاریخ میں سب سے طویل بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہونے جا رہی ہے۔

اس کے ساتھ ہی ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ بھی ٹھپ ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ زیادہ تر بسوں اور کمرشل گاڑیوں میں ڈیزل ہی ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو کہ ملک میں نہیں ہے۔

وزیر ٹرانسپورٹ دلام امونوگاما کا کہنا ہے کہ ’ہم گیراج میں کھڑی بسوں سے تیل نکال رہے ہیں تاکہ اس کا چلنے والی بسوں میں استعمال کیا جا سکے۔‘

بجلی

دوسری جانب ملک کی ایک تہائی بجلی ہائیڈرو پاور پلانٹس سے آتی ہے لیکن ملک کے ذخائر خطرناک نچلی سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ بہت سے سرکاری ہسپتالوں نے سرجری روک دی ہے کیونکہ ان کے پاس جان بچانے والی ادویات نہیں ہیں۔

سری لنکا کی راج پکشے حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے کہا ہے اور انڈیا اور چین سے مزید قرضے مانگے ہیں۔

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ترجمان گیری رائس نے جمعرات کو واشنگٹن میں صحافیوں کو بتایا کہ اس طرح کی بات چیت ’آنے والے دنوں میں‘ شروع ہونی چاہیے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ سری لنکا کے وزیر خزانہ اس بات چیت کے لیے امریکی دارالحکومت پہنچ رہے ہیں۔

بہر حال صدر راج پکشے نے کہا کہ ہنگامی صورت حال کا اعلان کرنے کا فیصلہ عوامی سلامتی، امن عامہ کے تحفظ اور ضروری خدمات کی بحالی کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔

ملک میں اقوام متحدہ کی نمائندہ حنا سنگر حمدی نے ایک ٹویٹ میں تمام گروپوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

یہ مظاہرے صدر راج پکشے کی مقبولیت میں بڑے پیمانے پر تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں، جنھوں نے سنہ 2019 میں اکثریتی جیت کے ساتھ اقتدار سنبھالا تھا اور ملک پر حکمرانی کے لیے استحکام اور ‘مضبوط ہاتھ’ کا وعدہ کیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *