سرکاری خرچ پر بھرتی سوشل میڈیا انفلوئنسرز جن کے ’ایک ہزار فیس بُک فرینڈز ہونا لازم تھا
پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتیں سوشل میڈیا پر پیغام رسائی کے لیے اکثر سوشل میڈیا سیل قائم کرتی آئی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ معاوضے کے ساتھ انٹرن شپ دے کر سوشل میڈیا پر مواد بنانے اور شیئر کرنے کے لیے ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ بھرتی کر لیے جاتے ہیں۔
آج کل یہ معاملہ پھر زیرِ بحث ہے کیونکہ صوبہ خیبرپخونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی سابقہ حکومت نے جن 1109 نوجوانوں کو بطور ’سوشل میڈیا انفلوئنسر‘ انٹرن شپ پر بھرتی کیا تھا انھیں صوبے کی نگران حکومت نے اب فارغ کر دیا ہے۔
تاہم سابقہ حکومت کے پی ٹی آئی رہنما اس منصوبے کے دفاع میں کہتے ہیں کہ اس کے ذریعے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر آگاہی دی جاتی تھی اور نوجوانوں کو روزگار دیا جاتا تھا۔
سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھرتی کرنے کا منصوبہ کیا تھا؟
سنہ 2022 کے اوائل کے ایک سرکاری اشتہار کے مطابق کے پی کے حکومت ’سوشل میڈیا انفلوئنسرز‘ بھرتی کرنا چاہتی تھی جن کی کم سے کم تعلیم انٹرمیڈیٹ اور ڈپلومہ ہو اور ان کے ’کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کم از کم ایک ہزار فالوورز ہوں۔‘
اشتہار کے مطابق ان انٹرنز کے ذمے ’حکومت کے خلاف منفی پوسٹ کا جواب دینا‘، پروپیگنڈا کی اطلاع دینا، فیک نیوز کی نشاندہی، حکومتی منصوبوں کی تشہیر اور سماجی آگاہی جیسے کام تھے۔
کے پی حکومت کی ویب سائٹ پر 2021 سے 2023 کے لیے اس منصوبے کی تفصیلات کے مطابق اس پر 870 ملین کی لاگت آئے گی اور اس سلسلے میں ماہانہ 25 ہزار روپے پر 1360 نوجوانوں کو انٹرنشپ پر بھرتی کیا جائے گا۔
اس کا مقصد بے روزگاروں کی مالی مدد، سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کا فروغ اور سماجی تعلیم کی فراہمی بتایا گیا۔ انٹرن شپ ختم ہونے پر انٹرنز کو نظام میں بہتری کے لیے تجاویز پر مبنی رپورٹ بھی جمع کرانا تھی۔
کے پی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق انٹرن کے لیے لازم ہو گا کہ اس کے معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹس ہوں ’خاص کر فیس بک آئی ڈی جس پر کم از کم ایک ہزار فرینڈز ہوں۔‘
نگران حکومت نے منصوبہ بند کیوں کیا؟
صوبائی حکومت کے محکمہ اطلاعات کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں شامل سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے منصوبے کو بند کیا جاتا ہے کیونکہ ’نگران حکومت کا کام صرف انتخابات کا انعقاد ہے اور الیکشن کمیشن کی جانب سے نئی تعیناتیوں اور نئے منصوبے شروع کرنے پر پابندی عائد ہے۔‘
اس اعلامیے میں کہا گیا کہ موجودہ حالات میں اس منصوبے کا جاری رہنا وسائل کا ضیاع ہے اور اس لیے اس سلسلے میں تمام ملازمین کی تنخواہیں اور اعزازیے فوری طور پر روکے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں نگران حکومت کے مشیر اطلاعات فیروز جمال کاکا خیل نے چند روز پہلے میڈیا کو بتایا تھا کہ سابق حکومت نے پارٹی پروپیگنڈا کے لیے ان سوشل میڈیا انفلوئنسرز کو تعینات کیا تھا اور ان کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کے لیے کام کرنا تھا۔
انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس کے بارے میں تحقیقات کی جائیں گی کہ سرکاری خرچ پر کیوں ایک جماعت نے اپنی تشہیر کی۔
لیکن وزارت اطلاعات میں ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ بنیادی طور پر یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے والے نوجوانوں کی انٹرن شپ کا پروگرام ابتدائی طور پر سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد نوجوانوں کو ایک سال کے لیے مختلف محکموں میں انٹرن شپ دینا تھا تاکہ مستقبل میں وہ کسی بھی ملازمت کے لیے اگر درخواست دیں تو ان کے پاس مطلوبہ تجربہ ہونا چاہیے۔
ہم نے اس انٹرن شپ پروگرام میں کام کرنے والے مختلف نوجوانوں سے رابطہ کیا اور اس بارے میں معلومات جمع کرنے کی کوشش کی۔
یہ سوشل میڈیا انفلوئنسر کیا کرتے تھے؟
پشاور سے تعلق رکھنے والی جویریہ بتول نے صحافت میں گریجویشن کے بعد اس انٹرن شپ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس انٹرن شپ کے دوران انھوں نے لوگوں کو آگاہی دی اور گھریلو تشدد پر کام کیا، خواتین کی تعلیم اور انھیں بااختیار بنانے کے لیے سوشل میڈیا پر متحرک اور بااثر پوسٹ شیئر کیں۔
’پھر میں پروڈکشن سائیڈ پر چلی گئی اور وہاں ہم نے خیبر پختونخوا کے ٹیلنٹ کو سامنے لانے کے لیے پروگرام ترتیب دیے جن میں سے ایک کا نام تھا ’ایسا ہے پحتونخوا‘۔ ہم اس میں بہت سے ٹیلنٹڈ افراد کو سامنے لائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پروگرام کو ختم ہونے میں ابھی چند ماہ باقی تھے کیونکہ انھیں گذشتہ سال ستمبر میں تعینات کیا گیا تھا اور یہ پراجیکٹ اکتوبر میں ختم ہو جانا تھا۔
ضلع خیبر کے طارق آفریدی کو پچیس ہزار روپے ماہانہ پر بھرتی کیا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ’بالکل نہیں‘ اور انھوں نے ان آٹھ ماہ کی انٹرن شپ میں ’کوئی 400 پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کیں‘ جو سماجی کاموں سے متعلق تھیں۔ جیسے سیلاب کے دنوں میں آگاہی، انسداد پولیو مہم اور تعلیمی اداروں میں بچوں کے داخلے سے متعلق شعور دینا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ڈبل گریجویٹ ہوں، تعلق قبائلی علاقے سے ہے اور مجھے بے روزگاری کے اس دور میں کچھ رقم مل جاتی تھی۔‘ ان کے مطابق روزگار کے دوران انھوں نے ’کبھی بھی پاکستان تحریک انصاف کی تشہیر نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کبھی اس بارے میں کچھ کہا گیا کہ ہم کوئی سیاسی پوسٹ سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔‘
اس منصوبے کے دوران انھیں باقاعدہ تربیت فراہم کی گئی اور پھر انھوں نے وہ پوسٹ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے شیئر کیں۔
طارق کا کہنا ہے کہ ’جب سیلاب آ رہے تھے تو ہم نے اس سے بچاؤ اور محفوظ رہنے کے لیے اعلانات کیے۔ اسی طرح انسداد پولیو مہم کے لیے لوگوں کو آگاہی دی۔‘
ان کے مطابق ’یہ وہ جدید نظام ہے جس میں حکومت کے اعلانات لوگوں تک پہنچائے جاتے ہیں اور پھر لوگوں کا فیڈ بیک جانچا جاتا ہے اور یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ان کا پیغام کتنے لوگوں تک پہنچا۔‘
’میرے پیج کے پانچ لاکھ فالوورز ہیں‘
ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے محمد جاوید نے گومل یونیورسٹی سے صحافت کی ڈگری حاصل کی۔ دامان ٹی وی کے نام سے ان کا سوشل میڈیا پیج مقامی سطح پر کافی مقبول ہے۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھیں پوسٹ بنا کر بھیجی جاتی تھیں جنھیں وہ اپنے پیجز پر شیئر کرتے تھے۔ ان میں صوبے کے مختلف شہروں میں ترقیاتی منصوبوں کی پوسٹ ہوتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ سال 2022 فروری میں خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے تحت سوشل میڈیا پر کام کرنے والے نوجوانوں کے لیے پروجیکٹ کے طور پر ایک انٹرشپ پروگرام شروع کیا گیا جس کو باقاعدہ طور پر کے پی انٹرنشپ پورٹل پر تشہیر کے بعد آن لائن اپلائی کرنے کا کہا گیا۔
درخواست دینے پر انھیں ’انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کال وصول ہوئی اور جون میں انٹرویو ہوئے۔ دوسرے مرحلہ جولائی میں ہوا، پھر پشاور بلایا گیا جہاں ایک بڑے پینل کے تحت سوشل میڈیا کے اکاؤنٹ چیک کیے گئے اور پھر تعیناتی ہوئی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمیں پراجیکٹ ڈائریکٹر کی جانب سے بذریعہ پورٹل مختلف ٹاسک دیے جاتے تھے جس میں خیبرپختونخوا میں ہونے والی انسداد پولیو مہم ہو یا پھر ایجوکیشن میں سالانہ داخلے‘ شامل تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ سابق صوبائی حکومت کے مختلف پراجیکٹس کا تشہیری مواد شئیر کیا جاتا تھا جسے وہ اپنے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کرتے پھر لنکس اور سکرین شاٹ پورٹ پر اپ لوڈ کر دیتے۔
محمد جاوید کہتے ہیں کہ سابق حکومت کے جانے کے بعد نگران حکومت کی تشہیری مہم شروع کی گئی جس میں ان کے روزمرہ کے معمولات اور خاص کر مفت آٹے کی تقسیم پر ایک آگاہی مہم چلائی گئی۔
’خیبرپختونخوا حکومت نے جو بھی انٹرن بھرتی کیے تھے وہ صرف وہی کام شئیر کرتے تھے جو پراجیکٹس ڈائریکٹر کی جانب سے دیا جاتا تھا اور ان نو ماہ میں، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ تحریک انصاف یا پھر عمران خان کی تصویر شئیر کی گئی ہو۔‘
’یہ بے بنیاد پراپیگنڈہ کیا گیا کہ سوشل میڈیا والے تحریک انصاف سے تھے، اس میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو جمیعت سمیت مختلف جماعتوں سے تعلق رکھتے تھے۔‘
یہ سوشل پوسٹ بنانے والے کون تھے؟
ایک اور سابقہ انٹرن ابوبکر نے کہا کہ وہ ہفتے میں تین سے چار دن دفتر جاتے تھے اور باقی دن گھر سے کام کرتے تھے۔
’ہم لوگوں کی آگاہی کے لیے سوچ بچار کر کے (پیغامات) تخلیق کیا کرتے تھے تاکہ لوگوں تک مؤثر پیغام پہنچایا جا سکے۔ اس کے لیے اگر ضرورت ہوتی تو ویڈیو یا آڈیو پیغام بھی تیار کیے جاتے تھے۔ فیس بک پیج سے لے گرافک اور کے پی پورٹل کے لیے تصاویر یا خبریں بھی اس پر شیئر کیا کرتے تھے۔‘
تاہم سوشل میڈیا پر متحرک کارکن اور پسماندہ علاقے میں سوشل میڈیا پر کام کرنے والے نصرت گنڈا پور نے بتایا کہ اس منصوبے میں بہت خامیاں تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور ان میں بیشتر کو صرف پوسٹیں شیئر کرنے کا کہا گیا حالانکہ یہ کام کم افراد سے بھی ہو سکتا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کیا کہتے ہیں؟
سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ باقاعدہ سالانہ ترقیاتی پروگرام میں منظور ہوا تھا اور اس میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اعزازیے پر انٹرن شپ پروگرام پر ایک سال کے لیے تعینات کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک میں اتنی بے روزگاری ہے ’اگر ایک ہزار کے لگ بھگ نوجوانوں کو ان کی اپنی متعلقہ فیلڈ میں انٹرن شپ دی گئی تو کون سی ایسی بڑی بات تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ نگران حکومت کے پاس کوئی اختیار نہیں کہ وہ ان منصوبوں کو ختم کرے، ان کا اختیار صرف آزاد اور منصفانہ انتخابات منعقد کرانا ہے۔
سابق دور میں وزیر اعلیٰ کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے کہا کہ یہ ایک بہترین منصوبہ تھا اور موجودہ دور کے لیے لوگوں تک حکومت کے پیغام یا اعلان پہنچانے کا مؤثر طریقہ ہے۔
’یہ بھی معلوم ہو رہا تھا کہ پیغام کتنے لوگوں تک پہنچ رہا ہے اور لوگوں کی فیڈ بیک کیا آ رہا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’سوشل میڈیا ایک نیا پلیٹ فارم ہے، جیسے ہم اخبارات اور ریڈیو ٹی وی پر حکومتی پراجیکٹس کی تشہیر کرتے تھے، ویسے ہی اب نئی جہت کو مدِنظر رکھتے ہوئے سوشل میڈیا کو استعمال کیا گیا اور یہ موجودہ دور کے عین مطابق ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اخبارات میں بھی تو اشتہارات دیے جاتے ہیں اور اب تو سوشل میڈیا کا دور ہے۔