سرجنگ گلیشیئر گلگت بلتستان کی وہ خوبصورتی جو اب یہاں کے رہائشیوں کو ’خوفزدہ‘ کر رہی ہے
یہاں پہنچ کر پہلی ہی نظر میں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ دور ہی سے آپ کو برف سے ڈھکی چوٹیاں دکھائی دینے لگتی ہیں اور اُن کے نیچے حدِ نگاہ تک سبزہ زار اور ان کے درمیان بل کھاتا اور اپنا رستہ بناتا دریاؤں کا پانی۔
میں گلگت بلتستان میں ضلع غذر میں ہوں اور یہ یٰسین کے علاقے میں درکوت کی وادی ہے۔ سفیدے کے درختوں کے درمیان چلتی کچی سڑک لکڑی کے ایک طویل معلق پل پار کرتی ہے تو ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے۔
میری ایک نظر دور ان دو گلیشیئرز پر بھی ہے جو درکوت کی وادی کے بالکل اوپر پہاڑوں پر ایسے معلق نظر آتے ہیں جیسے ابھی پھسل کر نیچے آ جائیں گے۔ مجھے انھی گلیشیئرز کی طرف جانا ہے۔ پل پار کر کے گاڑی کی رفتار آہستہ ہو گئی اور اس نے چھوٹے بڑے پتھروں پر اچھلنا شروع کر دیا۔
یہاں سے کچھ ہی دن پہلے سیلاب ہو کر گزرا ہے اور یہ پتھر سیلابی پانی ہی اپنے ساتھ لایا تھا۔ پتھروں سے نکل کر دوبارہ ہم ایک کچی سڑک پر واپس آئے جو بلندی کی طرف جا رہی ہے۔ بائیں جانب کچھ مکانوں کے کھنڈر کھڑے ہیں اور دائیں جانب اونچائی پر ایک خیمہ لگا ہے۔
خیمے کے ساتھ ہی ایک آدھ بنا چھوٹا سا مکان کا ڈھانچہ کھڑا ہے جس پر دو مزدور کام کر رہے ہیں۔ میں رُک گیا اور یہاں میری ملاقات اشرف خان سے ہوئی۔ ان کی عمر 58 برس ہے اور انھوں نے روایتی گلگتی ٹوپی پہن رکھی ہے۔ یہ ٹوٹا ہوا مکان انہی کا ہے جو سیلاب کی زد میں آ گیا تھا۔
اب وہ قدرے اونچائی پر دو کمرے بنا رہے ہیں جو انھیں آئندہ سردیوں سے پہلے مکمل کرنے ہیں ورنہ خیمے میں درکوت کی شدید سردی کو برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان کے خیمے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے درکوت کی پوری وادی نظر آتی ہے۔ سڑک کے ساتھ ان کے مکان سے آگے وہ جگہ ہے جہاں سے حالیہ سیلاب کا پانی گزرا۔
یہ پانی اس مرتبہ اس حفاظتی دیوار کو توڑ کر اس طرف آیا تھا جو اس جگہ آبادی کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک غیر سرکاری تنظیم نے کچھ عرصہ قبل بنائی تھی۔
وہاں سے آگے ایک چٹیل میدان نظر آ رہا ہے جو ایک بڑے رقبے پر پھیلا ہے۔ اس میں پرانے سیلابوں کا ملبہ دکھائی دیتا ہے جس کے اندر سفیدے کے درخت دھنسے ہوئے ہیں۔ لیکن اس میدان کے پار سبزہ شروع ہوتا ہے جو دور پہاڑوں کے دامن تک چلا جاتا ہے۔ درمیان میں ایک چھوٹی سی آبادی بھی ہے۔ اس سے آگے وہ گلیشیئرز ہے جہاں مجھے جانا ہے۔
یہاں سے یہ منظر اتنا خوبصورت ہے کہ اس کے چہرے پر پڑے سیلاب کے ملبے کا بدنما داغ بھی زیادہ بُرا نہیں لگتا۔ یہاں سکون ہے، تازگی ہے، خوبصورتی ہے اور ساتھ ہی وہ مادی اشیا بھی موجود ہیں جو زندگی کے لیے ضروری ہیں۔
اشرف خان نے مجھے بتایا کہ یہاں لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ سیلاب ان کی آلو کی فصل تباہ کر گیا تھا۔ مویشی پال کر بھی لوگ روزگار کماتے ہیں اور لکڑی پر کشیدہ کاری کرنے کی صنعت بھی یہاں موجود ہے یا پھر یوں کہیے کہ تھی۔
اس خوبصورت وادی سے کون جانا چاہے گا؟
اشرف خان کہتے ہیں کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران درجنوں خاندان درکوت کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ’پہلی مرتبہ سنہ 1978 میں یہاں بہت بڑا سیلاب آیا تھا۔ اس کے بعد بھی بہت سے لوگ یہاں سے گلگت کی طرف چلے گئے تھے کیونکہ ان کے گھر اور زمینیں ختم ہو گئی تھیں۔‘
اس کے بعد بھی کچھ سال چھوڑ کر کچھ برسوں میں لگاتار سیلاب آتے رہے اور لوگ درکوت سے ہجرت کرتے رہے لیکن اشرف خان بتاتے ہیں کہ سنہ 2010 میں اور اس کے بعد سے لگ بھگ ہر سال گرمیوں میں اوپر پہاڑوں سے آنے والے سیلاب درکوت کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
ان میں درجنوں افراد پانیوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی زد میں آ کر جان سے گئے جبکہ کئی خاندانوں کا ذریعہ معاش اس وقت ختم ہو گیا جب سیلاب کے ملبے نے ان کی زمینوں کو ناقابلِ کاشت بنا دیا اور رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
اپنے خیمے کے پاس کھڑے ہو کر نیچے وادی کی طرف اشارہ کر کے اشرف خان نے بتایا کہ پہلے ’اس سامنے والے حصے پر سیلاب آیا تو پھر لوگوں نے دوسری طرف اپنے گھر بنائے، وہ اگلے سال سیلاب میں چلے گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے اور زیادہ آگے جا کر گھر بنائے، اس سے اگلے سال وہ بھی تباہ ہو گئے۔ اس کے بعد وہ یہ گاؤں ہی چھوڑ کر چلے گئے۔‘
اشرف خان کہتے ہیں کہ کچھ لوگ جو یہاں اچھی خاصی زمین کے مالک تھے اب گلگت شہر میں جا کر محنت مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ ‘اب یہاں کمانے کے ذرائع بہت محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ہر سال گرمیوں میں یہ بھی نہیں پتہ ہوتا کہ گھر بھی بچیں گے یا نہیں۔’
یہاں اتنے زیادہ سیلاب کیوں آتے ہیں؟
اس کا اشرف خان کے پاس کوئی مصدقہ جواب تو نہیں لیکن ان کو اتنا معلوم ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے گرمی زیادہ ہوتی جا رہی ہے اور پہاڑوں پر برف بھی کم پڑتی ہے۔ ’برف کم پڑتی ہے تو گلیشیئرز پگھلتے ہیں۔ برف ہو تو برف پگھلتی ہے گلیشیئرز نہیں پگھلتے۔‘ اشرف خان کو بس اتنا ہی پتا ہے۔
وہ سامنے نظر آنے والے دو گلیشیئرز میں سے ایک کی طرف اشارہ کر کے بتاتے ہیں اس گلیشیئر کا منھ یا سناوٹ پہلے بہت نیچے تک ہوا کرتا تھا۔ وہ پگھل کر ختم ہوتا اب کئی میٹر اوپر چلا گیا ہے۔ ’اس گلیشیئر کے نیچے ایک بہت بڑی جھیل ہے۔ پہلے یہ بہت چھوٹی ہوتی تھی۔ ہم چھوٹے تھے تو گلیشیئر کے پانی کے ساتھ جو پھل نیچے جھیل میں آتے تھے وہ نکال کر کھاتے تھے۔‘
لیکن اب یہ جھیل اتنی بڑی ہو چکی ہے کہ چند سال قبل اشرف خان کے چچا زاد بھائی اس میں گر کر ہلاک ہو گئے تھے۔ اشرف خان کہتے ہیں کہ ان کے پاس تو اتنے بھی وسائل نہیں کہ وہ درکوت سے ہجرت کر سکیں۔ انھیں یہ بھی علم نہیں کہ برف کیوں کم پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے گلیشیئرز پگھلتے ہیں اور سیلاب آتے ہیں۔
اشرف خان نے مجھے وہ راستہ سمجھایا جو مجھے اس جھیل اور اس کے اوپر گلیشیئرز تک لے جائے گا جو یہاں سے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے وہاًں پہنچنے میں پیدل چل کر لگ بھگ ایک گھنٹے کا وقت لگا۔
کیا صرف درکوت کے لوگوں کا مستقبل خطرے میں ہے؟
میں جھیل کے بالکل اوپر کھڑا ہوں۔ سامنے واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ یہاں دو گلیشیئرز تھے جو کبھی نیچے آ کر آپس میں مل جاتے ہوں گے لیکن اب بہت پیچھے جا چکے ہیں۔
ایک گلیشیئر کے پانی نے نیچے جھیل بنا رکھی ہے۔ گرمیوں اور برسات کے موسم میں یہ جھیل انتہائی تیزی سے بھر جاتی ہو گی اور اس سے سیلاب کے نکلنے کا خدشہ بھی موجود ہے۔ سیلاب کا یہی پانی نیچے وادی میں جا کر دو اطراف سے آنے والے مزید نالوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹے دریا کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور نیچے کے علاقوں کی طرف بڑھتا ہے۔
کئی میلوں کا سفر کرتے اسی طرح ایک چھوٹے دریا میں دوسرا ملتا جاتا ہے، وہ بڑا ہوتا جاتا ہے اور آخر کار یہ بڑا دریا نیچے جا کر گلگت شہر سے تھوڑا آ گے دریائے سندھ میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہندوکش، ہمالیہ اور قراقرم کی اس مغربی سمت کا تمام علاقہ دریائے سندھ کا کیچمنٹ ایریا ہے۔
یعنی اس پورے علاقے میں جتنے گلیشیئرز پگھلیں گے، گلیشیئر کے سیلاب آئیں گے، بارشیں ہوں گی، وہ سارا پانی دریائے سندھ میں جائے گا اور دریائے سندھ وہ پانی لے کر یہاں شمال سے پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب تک جاتا ہے۔ جتنا یہاں سیلاب کا پانی زیادہ ہو گا اتنا نیچے نقصان کا خطرہ بھی زیادہ ہو گا۔
اس لیے درکوت جیسے علاقوں میں ہونے والے سیلابوں کے حادثے صرف درکوت ہی کے لوگوں کے لیے پریشانی کا سبب نہیں ہیں۔
اشرف خان کو سمجھ نہ آنے والی چیز آخر ہے کیا؟
ڈاکٹر ضیا ہاشمی اسلام آباد میں گلوبل چینج امپیکٹ سٹڈیز سینٹر میں گلیشیئولوجی کے ماہر ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پاکسان میں گذشتہ کئی سالوں سے گلیشئیرز بہت تیزی سے پگھل رہے ہیں۔
یعنی جو چیز اشرف خان کو سمجھ نہیں آ رہی وہ گلوبل وارمنگ یا کلائیمیٹ چینج ہے۔ تو یہ ہے کیا؟ ڈاکٹر ضیا ہاشمی کہتے ہیں اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ کرہ ارض کا درجہ حرارت گذشتہ ایک صدی کے دوران بہت بڑھ چکا ہے۔ اس درجہ حرارت میں ایک درجے کا فرق بھی اتنا بڑا ہوتا ہے کہ وہ گلیشیئرز کے پگھلنے کی رفتار کو خاصی حد تک بڑھا دیتا ہے۔
اور درجہ حرارت کے بڑھنے کے پیچھے انسان کا اپنا ہاتھ ہے۔ زیادہ فیکٹریاں، گاڑیاں اور ان میں ایندھن کا جلنا اور پھر آبادی کے لیے درختوں کا بڑے پیمانے پر کٹاؤ درجہ حرارت کے بڑھنے کا سبب سمجھا جا رہا ہے۔
یہ گلیشیئرز کو کس طرح متاثر کر رہا ہے؟
ڈاکٹر ضیا ہاشمی سمجھاتے ہیں۔ ’گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گرمی بڑھ رہی ہے اور گرمی میں گلیشئرز کی نیچے کی تہیں پگھلتی ہیں۔ جب یہ لیئرز پگھلتی ہیں تو گلیشیر میں حرکت ہوتی ہے۔ وہ اپنی جگہ چھوڑتا ہے۔ ایسے گلیشیئر کو سرجنگ گلیشیئر بھی کہا جاتا ہے۔ گلیشیئرز کی یہ حرکت گلیشیئرز کے سیلابوں یعنی گلاف کا سبب بھی بنتی ہے۔‘
گلیشیئرز تیزی سے پگھلنے اور گلاف کی صورت میں جو سیلاب آتا ہے وہ فلیش فلڈ ہوتا ہے جو تیزی سے پہاڑوں میں آباد لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔ اسی طرح کا ایک گلاف یا گلیشیئر کا سیلاب سنہ 2022 میں ہنزہ کے علاقے حسن آباد میں بھی آیا تھا۔ یہ سیلاب اوپر شیشپر وادی میں موجود کئی کلومیٹر طویل شیشیپر گلیشیئر میں سے نکلا تھا۔
درکوت سے نکل کر میں نے اسی طرف کا رخ کیا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ گلاف ہے کیا چیز اور یہاں پہاڑوں میں رہنے والے لوگ اس سے اتنا خوفزدہ کیوں ہیں۔ حسن آباد پہنچ کر میں نے دیکھا کہ یہاں جو بہت بڑا اور مضبوط پل ہوا کرتا تھا وہ شیشپر کے سیلاب نے توڑ دیا تھا۔ پانی اتنا زیادہ اور اتنی رفتار سے آیا تھا۔ یہ پل پاکستان کے باقی علاقوں کو ہنزہ اور اوپر چین کے ساتھ ملاتا تھا۔
گلیشیئر کا سیلاب خطرناک کیوں ہے؟
یہاں میری ملاقات طارق جمیل سے ہوئی۔ وہ سماجی کارکن ہیں اور کئی سالوں سے گلاف جیسے مسائل پر کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ شیشپر گلیشیئر نے اوپر وادی میں بنیادی طور پر ایک دوسرے گلیشیئر کے پانی کر روک رکھا ہے۔ گرمیوں میں وہاں پانی زیادہ تیزی سے آتا ہے اور ایک جھیل بن جاتی ہے۔ جب وہ جھیل پھٹتی ہے تو سیلاب آتا ہے۔
ہم نے اس مقام تک جانے کا فیصلہ کیا۔ تقریباً تین گھنٹے تک ہمیں شیشپر گلیشئر کے اوپر چلنا پڑا۔ وہ مقام جہاں جھیل موجود تھی میں بالکل اس کے اوپر کھڑا ہوں۔ دور مغرب کی جانب ایک اور گلیشیئر ہے، جس کا پانی نکل کر شیشپر کی طرف آ رہا ہے۔ لیکن اس پانی کے نیچے جانے کے لیے کئی فٹ اونچے برف کے کالے رنگ کے پہاڑ کے نیچے سے ایک چھوٹا سا راستہ ہے۔
یہی راستہ جب بند ہوا تھا اور گرمیوں میں ساتھ والے گلیشیئر کی طرف سے پانی کی آمد زیادہ ہو گئی تھی تو اس جگہ جھیل بن گئی تھی۔ طارق جمیل نے مجھے بتایا کہ ’جھیل کی سطح کئی مکعب فٹ بلند تھی۔ اور جب وہ خالی ہوئی تو لگ بھگ 70 گھنٹے میں ساری خالی ہو گئی۔‘
‘پہلے اس جھیل کو خالی ہونے میں وقت زیادہ لگتا تھا اس مرتبہ یہ جلدی خالی ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ گلیشیئر زیادہ پگھلنے کی وجہ سے اس کا منھ بڑا ہو گیا تھا اور پانی کو زیادہ راستہ ملا اور اسی وجہ سے نیچے اس سیلاب نے بہت زیادہ تباہی مچاہی۔ حسن آباد کا پل بھی اسی وجہ سے گر گیا۔‘
گلیشیالوجی کے ماہر ڈاکٹر ضیا ہاشمی سمجھتے کہتے ہیں کہ شیشپر بھی سرجنگ گلیشیئر ہے۔ ’حرکت ہی کی وجہ سے شیشپر نے نیچے آ کر ساتھ والے دوسرے گلیشیر کے پانی کا راستہ روکا جس کی وجہ سے جھیل بنی اور پھر اس کے پھٹنے کی وجہ سے گلاف ہوا یعنی گلیشیئر کا سیلاب آیا۔‘
گلوبل درجہ حرارت بڑھانے میں پاکستان کا کتنا ہاتھ ہے؟
ڈاکٹر ضیا ہاشمی سمجھتے ہیں کہ گلوبل وارمنگ یعنی کرہ ارض یا زمین کے درجہ حرارت کے بڑھنے میں پاکستان کا حصہ بہت کم یا نہ ہونے کے برابر ہے لیکن پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جو گلوبل وارمنگ یا کلائیمیٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی) سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔
’یہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کی وجہ سے ہوا ہے جہان ایندھن کے جلانے کی شرح بہت زیادہ ہے اور اس سے بننے والی نقصان دہ کاربن کرہ ارض کو گرما رہی ہے۔‘
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کا گلوبل وارمنگ میں کوئی زیادہ ہاتھ نہیں ہے تو اس کو روکنے میں بھی اس کا حصہ کوئی بہت بڑا نہیں ہو سکتا جس سے وہ خود پر ہونے والے منفی اثرات کو بھی روک سکے۔
تو پھر پاکستان کیا کرے؟
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کے لیے ممکن یہ ہے کہ وہ ’اڈیپٹ‘ کر سکتا ہے یعنی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے ہونے والے نقصان سے بچاؤ کے اقدامات کر سکتا ہے۔ اور اس کے لیے پاکستان کے پاس کافی وقت تھا۔ سنہ 2010 میں سیلاب اور اس کے بعد کئی دوسری قدرتی آفات اس کو خبردار کر چکی تھیں۔
سنہ 2022 کے سیلاب نے ایک مرتبہ پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا پاکستان نے تمام سالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچنے کی تیاری کی ہے۔ اس سیلاب نے پاکستان میں جو نقصان کیا، کیا بہتر حفاظتی اقدامات اور مینیجمنٹ سے اس نقصان سے بچا جا سکتا تھا؟
کہانیوں کی اس سیریز میں اسی سوال کو لے کر میں پاکستان کے ان شمالی علاقوں سے نیچے جنوب کی طرف دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا ہوں اور یہ دیکھ رہا ہوں کہ سنہ 2022 کے سیلاب کی تباہی کے پیچھے زیادہ ہاتھ کس کا تھا، موسمیاتی تبدیلی کا یا پھر حکومتی بدانتظامی کا۔ کیا یہاں سے دریائے سندھ میں پانی زیادہ گیا یا پانی کو منظم طریقے سے سنبھالنے کے انتظامات موجود نہیں تھے۔ میرا اگلا پڑاؤ صوبہ خیبرپختونخوا ہو گا جہاں فلیش فلڈز نے بہت زیادہ تباہی مچائی۔