سات بچوں کی پیدائش: جب ایبٹ آباد کے جناح ہسپتال میں غیر معمولی آپریشن کرنے والی ڈاکٹر حاملہ خاتون کی رپورٹس دیکھ کر چونک اٹھیں
حمل ٹھہرنے کے بعد ہی ہمیں پتا چل گیا تھا کہ ایک سے زیادہ بچے ہیں۔ جس نجی کلینک سے علاج کروا رہے تھے انھوں نے اہلیہ کی طبیعت زیادہ خراب ہونے پر ہمیں ہسپتال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا تھا۔‘
یہ گذشتہ روز صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد میں سات بچوں کے باپ بننے والے خوشی سے چہکتے یار محمد کے الفاظ ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ بڑی بے چارگی میں جناح انٹرنیشنل ہسپتال ایبٹ آباد پہنچے تھے جہاں پر اللہ نے ہمیں چار بیٹے اور تین بیٹیاں دی ہیں۔ ہم لوگ بہت خوش ہیں۔‘
یار محمد کا تعلق ضلع بٹگرام سے ہے۔ ان کی اہلیہ نے نجی میڈیکل کالج سے منسلک ٹیچنگ ہسپتال جناح انٹرنیشنل میں سات بچوں کو جنم دیا ہے۔
ہسپتال ذرائع کے مطابق تمام نومولود بچوں اور ان کی ماں کی طبیعت مستحکم ہے۔
یار محمد کی ان بچوں سے پہلے بھی دو بچیاں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اب ان بچوں کی پرورش اور تربیت ان کے لیے بالکل بھی مشکل نہیں ہو گی کیونکہ وہ مشترکہ خاندانی نظام میں رہائش پذیر ہیں جہاں پر سب خاندان والے ان کی مدد کریں گے۔‘
جب غیر معمولی آپریشن کرنے والی ڈاکٹر بھی چونک اٹھیں
جناح ہسپتال ایبٹ آباد میں ایک پچیدہ آپریشن کے ذریعے بچوں کی پیدائش میں مدد فراہم کرنے والی گائنا کالوجسٹ ڈاکٹر حنا فیاض کے مطابق خاتون پہلی مرتبہ ان کے پاس ہفتے کے روز آئیں تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘الٹراساؤنڈ اور دیگر رپورٹس میں ہمیں پتا چلا کہ ان کے حمل میں پانچ بچے ہیں۔ حمل کو تقریباً آٹھ ماہ گزر چکے تھے۔‘
ڈاکٹر حنا فیاض کے مطابق انھوں نے خاتون کی رپورٹس دیکھیں تو وہ چونک اٹھیں۔ ‘خاتون کا بلڈ پریشرخطرناک حد تک بڑھا ہوا تھا۔ ان کا پیٹ بہت زیادہ پھولا ہوا تھا۔ اس سے پہلے زچگی کے دوران ان کے دو بڑے آپریشن ہو چکے تھے۔
’جہاں پر پہلے ٹانکے لگے تھے وہاں پر ان کو بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ خطرہ تھا کہ ٹانکے اور بچہ دانی پھٹ نہ جائیں جس سے خاتون اور ان کے بچوں کی زندگی کو خطرہ ہو سکتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک اور خطرہ یہ بھی تھا کہ خاتون کہیں پوسٹ پارٹم ہیمرج کا شکار نہ ہو جائیں یعنی بچے کی پیدائش کے بعد بہت زیادہ خون بہنا شروع نہ ہو جائے۔ خاتون کا بلڈ پریشر پہلے ہی زیادہ تھا۔ اس سے ان کو جھٹکے لگنا بھی شروع ہو سکتے تھے۔‘
ڈاکٹر حنا فیاض کا کہنا تھا کہ میرا یہ او پی ڈی کا دن تھا۔ ‘میں نے اپنی ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ڈاکٹر روبینہ بشیر سے پورے کیس پر بات کی۔ جس پر انھوں نے خاندان کی رضامندی سے فی الفور آپریشن کرنے کی صلاح دی تھی۔
’اتنے بڑے آپریشن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تیاریاں کی گئیں۔ بچوں کے وارڈ کے ماہر ڈاکٹروں کو ایمرجنسی کال دی گئی۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘خاندان والوں کے پاس خون کا انتظام بھی نہیں تھا۔ خون کا انتظام بھی ہم نے خود کیا تھا۔ سارے انتظامات میں جناح انٹرنیشنل کا جدید انفراسٹریکچر ہمارے بہت کام آیا تھا۔‘
آپریشن کا خطرناک مرحلہ
ڈاکٹر حنا فیاض کا کہنا تھا کہ اس آپریشن میں مجھے میری تین جونیئر ٹی ایم او ڈاکٹر شہیلہ، ڈاکٹر مریم اور ڈاکٹر ربیہ کے علاوہ ماہر پیرا میڈیکس اور بے ہوشی فراہم کرنے والے ڈاکٹرز نے مدد فراہم کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ آپریشن تو ایک گھنٹے پر محیط تھا۔ مگر جب پیٹ کھولا تو آنتیں، بچہ دانی اور پیشاب کی تھالی جڑے ہوئے تھے۔ مریضہ کا پیٹ پہلے ہی حد سے زیادہ پھولا ہوا تھا جس وجہ سے راستہ بنا کر بچہ دانی تک پہچنا بھی نازک اور مشکل مرحلہ تھا۔‘
‘جب ایک مرتبہ اس مرحلے میں کامیاب ہو کر ہم بچہ دانی تک پہنچے تو ایک ایک بچے کو ماں سے الگ کرتے جاتے تھے۔ اس میں بھی بہت احتیاط کی ضرورت تھی کہ زیادہ خون نہ بہے۔‘
‘سات بچوں کا بچ جانا معجزہ ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے پہلے میں نے پیدائش کے لیے ایک بڑا آپریشن کیا تھا جس میں تین بچوں کی پیدائش میں مدد فراہم کی تھی۔ ‘اس لیے اس میں میرا کچھ تجربہ تھا مگر تین سے زیادہ بچوں کو پیدائش میں مدد فراہم کرنا پہلی مرتبہ تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے یہ تجربہ تو تھا کہ اکثر اوقات الڑا ساؤنڈ میں بچوں کی صیحح تعداد نہیں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لیے ہم نے اپنے طور پر چھ بچوں کا ذہن بنا رکھا تھا۔ کٹ وغیرہ بھی چھ بچوں ہی کے لیے تیار کی تھیں۔ مگر جب بچوں کو ماں سے الگ کرنا شروع کیا تو دیکھا کہ یہ تو سات بچے تھے۔
ہسپتال میں کٹ موجود تھی فوری طور پر ساتویں بچے کے لیے بھی کٹ منگوائی گئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت میری خوشی کی انتہا نہیں رہی تھی جب ہم نے ساتویں بچے کو بھی زندہ سلامت پیدائش میں مدد فراہم کرکے وٹامن ڈی فراہم کردی تھی۔ عموماً ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ پورے کے پورے بچے زندہ سلامت ہوں۔‘
بچوں کو ہسپتال کی نرسری جبکہ ماں کو آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا ہے جہاں پر بچے اور ماں مستحکم ہیں۔ بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوئی ہے اس لیے ہوسکتا ہے کہ ان کو کچھ دن نرسری میں رکھنا پڑے۔
زیادہ بچوں کی پیدائش ادوایات کا نتیجہ
ڈاکٹر حنا فیاض کا کہنا تھا کہ خاتون نے حمل ٹھہرانے والی ادویات کا استعمال کیا تھا۔ ‘ادویات استعمال کرنے سے عورت کے جسم میں ایک سے زیادہ انڈے میچور ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں بیک وقت دو یا دو سے زیادہ حمل ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہماری رائے کے مطابق خاتون کے ایک ساتھ سات بچوں کی پیدائش کی وجہ بھی حمل ٹھہرانے والی ادویات کا استعمال ہے۔ ‘جس وجہ سے اتنے زیادہ حمل ٹھہر گئے تھے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہمیں خاتون کی ہسٹری سے جو پتا چلا ہے کہ اس کے مطابق 30 کے ابتدائی پیٹے میں موجود خاتون کے تین سال ہو گئے تھے حمل نہیں ٹھہر رہا تھا جس وجہ سے انھوں نے ان ادویات کا استعمال کیا تھا۔‘
ڈاکٹر حنا فیاض کا کہنا تھا کہ اب یہ نہیں پتا کہ انھوں نے یہ ادویات کسی ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کی تھیں یا نہیں۔ اگر ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کی ہوتیں اور مجھ سے کوئی مشورہ کرتا تو میں اس کو ایسی ادویات استعمال کرواتی جن سے ایک سے زیادہ انڈے میچور نہیں ہوتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بیک وقت دو یا دو سے زیادہ حمل ٹھہرنے کی آج کل زیادہ تر وجوہات میں ایسی ہی ادویات دی جاتی ہیں۔
‘اس لیے خواتین کو چاہیے کہ وہ ایسے معاملات میں بہت زیادہ محتاط رہیں۔ صرف ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے ادویات استعمال کریں۔ مذکورہ خاتون اور اس کے بچے تو خوش قسمت تھے مگر ہر کوئی اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا ہے۔