سابق امریکی صدر کے گھر پر مجرمانہ تحقیقات کے سلسلے میں چھاپہ، پاسپورٹ قبضے میں لینے کے بعد واپس کر دیے گئے
امریکی محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا میں واقع گھر پر چھاپے کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ کی تفصیلات جاری کرنے سے ‘اس کی تحقیقات میں ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔’
پیر کو ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ ایف بی آئی نے چھاپے کے دوران ان کے تین پاسپورٹ قبضے میں لے لیے تھے۔ عام طور پر ایسا اس وقت کیا جاتا ہے جب تحقیقات کرنے والوں کو شک ہو کہ مشتبہ شخص ملک سے فرار ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹرتھ ورلڈ پر پوسٹ کیے جانے والے ایک پیغام میں لکھا کہ ’یہ سیاسی حریف پر ایک ایسا حملہ ہے جیسا ہمارے ملک میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ تیسری دنیا!‘
ریپبلیکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مائیک راؤنڈز نے اتوار کو این بی سی کو بتایا: ’محکمۂ انصاف کو یہ دکھانا چاہیئے کہ یہ کوئی مچھلی پکڑنے کی مہم نہیں ہے، اور ان کے پاس اندر جانے کی جائز وجہ تھی، اور انھوں نے باقی سب طریقے استعمال کر کے دیکھ لیے تھے۔‘
قانون نافذ کرنے والے ادارے سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے بعد میں بی بی سی کے امریکی پارٹنر چینل سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ آٹھ اگست کو ہونے والی ریڈ میں سابق صدر ٹرمپ کے پاسپورٹ بھی قبضے میں لیے گئے تھے۔
ٹرمپ کی ٹیم کو محکمۂ انصاف سے بھیجی گئی ایک ای میل میں ایک اہلکار نے کہا: ’ہمیں معلوم ہوا ہے کہ فلٹر ایجنٹوں نے صدر ٹرمپ کے تین پاسپورٹ قبضے میں کیے تھے، جن میں سے دو کی معیاد ختم ہو چکی تھی اور ایک فعال سفارتی پاسپورٹ تھا۔‘
امریکی میڈیا کے مطابق سابق صدر کو اب یہ پاسپورٹ واپس کر دیے گئے ہیں۔
وارنٹ کی تفصیل جاری ہونے سے تحقیقات کو ناتلافی نقصان ہو سکتا ہے
امریکی محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ گذشتہ ہفتے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فلوریڈا میں واقع گھر پر چھاپے کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ کی تفصیلات جاری کرنے سے ’اس کی تحقیقات میں ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
محکمہ چاہتا ہے کہ وارنٹ کے لیے حاصل کی گئی عدالت کی دستاویز کو بھی خفیہ رکھا جائے۔
ایف بی آئی کے ایجنٹوں نے سابق صدر کی مار-اے-لاگو رہائش گاہ پر یہ ڈھونڈنے کرنے کی کوشش کی کہ آیا عہدہ چھوڑنے کے بعد ٹرمپ نے حکومتی ریکارڈ کے ساتھ کسی غیر مناسب طریقے سے تو چھیڑ چھاڑ نہیں کی۔
یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی امریکی صدر کے گھر پر مجرمانہ تحقیقات کے سلسلے میں چھاپہ مارا گیا ہے۔
ٹرمپ کے اتحادی ایف بی آئی کی ٹیم کو شدید برا بھلا کہہ رہے ہیں اور کئی ایک نے تو کہا ہے کہ ایفیڈیوٹ یا بیان حلفی کو عوام کے سامنے لانا چاہیئے۔
جمعے کو جاری کیے گئے وارنٹ کے مطابق ایک ہفتہ پہلے پام بیچ پر واقع اسٹیٹ سے خفیہ دستاویزات کے گیارہ سیٹس حاصل کیے گئے تھے۔
اب میڈیا کے کئی اداروں نے بیانِ حلفی کو غیر سر بہ مہر کرنے کے لیے رجوع کیا ہے۔
لیکن پراسیکیوٹرز نے پیر کو کہا کہ اس طرح کا کوئی اقدام ’جاری مجرمانہ تحقیقات کو اہم اور ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔‘
انھوں نے عدالت میں جمع کرائے گئے ایک بیان میں لکھا کہ ’اگر اسے ظاہر کر دیا گیا تو بیان حلفی حکومت کی طرف سے جاری تحقیقات کے ایک روڈ میپ کے طور پر سمجھا جائے گا، جس میں اس کی سمت اور ممکنہ راستے کی مخصوص تفصیلات اس طریقے سے مہیا کی جائیں گی جو مستقبل کے تحقیقاتی اقدامات کو بہت زیادہ متاثر کر سکتی ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ بیانِ حلفی کو مہر بند ہی رہنا چاہیئے کیونکہ انکوائری میں ’انتہائی کلاسیفائیڈ مواد ہے۔‘
اوہائیو سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے ریپبلیکن رکن جم جورڈن نے فوکس نیوز کو بتایا کہ محکمۂ انصاف میں مبینہ پولیٹیسائزیشن (سیاست بازی) کو سامنے لانے کے لیے 14 ایف بی آئی ایجنٹ سامنے آ گئے ہیں۔
اس طرح کے وارنٹ عام طور پر ایک جج کے دستخط کے بعد جاری کیے جاتے ہیں، جب استغاثہ یہ ممکنہ طور پر یقین دلانے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ جرم سرزد ہوا ہے۔
ٹرمپ کے گھر پر چھاپے کو جمعہ کو عوام کے سامنے لایا گیا، جو کہ مجرمانہ تحقیقات میں ایک انتہائی غیر معمولی بات ہے، اور جس کے متعلق اٹارنی جنرل میرک گارلینڈ نے کہا کہ ایسا انتہائی عوامی دلچسپی کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
پیر کو عدالت میں جمع کروائے گئے کاغذات کے مطابق استغاثہ نے کہا کہ بیانِ حلفی کو عوام سے اس لیے پوشیدہ رکھا جائے کیونکہ اس سے ایف بی آئی کے لیے خطرہ ہے۔
عدالت میں جمع کرائے گئے بیان کے مطابق ’اس معاملے کی ہائی پروفائل نوعیت کے مدِ نظر گواہوں کے بارے میں معلومات خصوصاً حساس ہو جاتی ہیں اور گواہوں کی شناخت کو ظاہر کرنے سے خطرہ ہے کہ یہ تحقیقات کے دوران ان کے تعاون پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔‘