سائنسدانوں نے نطفے یا انڈے کے بغیر انسانی جنین کا پورا ماڈل تیار کرلیا
سائنس دانوں نے نطفے (سپرم) ، بیضوں یا رحم کا استعمال کیے بغیر ایک ایسا وجود تیار کیا ہے جو ابتدائی انسانی جنین سے مماثلت رکھتا ہے۔
ویزمین انسٹی ٹیوٹ کی ٹیم کا کہنا ہے کہ سٹیم سیلز کا استعمال کرتے ہوئے بنایا گیا ان کا ’ایمبریو ماڈل‘ 14 دن کے حقیقی جنین کی ہو بہو مثال دکھائی دیتا ہے۔
یہاں تک کہ اس نے وہ ہارمونز بھی جاری کیے جو لیبارٹری میں حمل کے ٹیسٹ کو مثبت بنا دیتے ہیں۔
جنین ماڈل ہماری زندگی کے ابتدائی لمحات کو سمجھنے کا ایک اخلاقی راستہ فراہم کرنا ہے۔
نطفے کے ذریعے بیضے کو فرٹیلائز کرنے کے بعد کا پہلا ہفتہ ڈرامائی تبدیلی کا دور ہوتا ہے، جس کے دوران غیر واضح خلیوں کا مجموعہ ایک ایسی چیز بن جاتا ہے جو بالآخر سکین پرممکنہ بچے کی صورت پہچانا جاتا ہے۔
یہ اہم وقت اسقاط حمل اور پیدائشی نقائص کا ایک بڑی وجہ بن سکتا ہے لیکن اس کو بہت کم سمجھا جاتا ہے۔
ویزمین انسٹی ٹیوٹ آف سائنس سے تعلق رکھنے والے پروفیسر جیکب ہانا نے بتایا کہ ’یہ ایک بلیک باکس ہے اور یہ کوئی فرسودہ خیال نہیں ہے، ہمارا علم بہت محدود ہے۔‘
ابتدائی مواد
جنین کی تحقیق قانونی، اخلاقی اور تکنیکی مسائل سے بھری ہوئی ہے لیکن اب ایک تیزی سے ترقی پذیر میدان ہے جو قدرتی جنین کی نشوونما کی نقل کررہا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس تحقیق کو اسرائیلی ٹیم نے ابتدائی جنین میں ابھرنے والے تمام اہم ڈھانچوں کی نقل کرنے کے لیے پہلا ’مکمل‘ جنین ماڈل قرار دیا ہے۔
پروفیسر ہانا کا کہنا ہے کہ ’یہ دراصل 14 ویں دن کے انسانی جنین کی ایک نصابی تصویر ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔‘
نطفے اور بیضے کے بجائے، ابتدائی مواد سادہ سٹیم سیلز تھے جنھیں جسم میں کسی بھی قسم کے ٹشو (بافتیں) بننے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے دوبارہ پروگرام کیا گیا تھا۔
اس کے بعد ان سٹیم سیلز کو انسانی جنین کے ابتدائی مراحل میں پائے جانے والے چار قسم کے خلیوں میں تبدیل کرنے کے لیے کیمیکلز کا استعمال کیا گیا:
- ایپی بلاسٹ خلیات، جوایمبریو پراپر یا فیٹس بن جاتے ہیں
- ٹروفوبلاسٹ خلیات، جو پلیسینٹا بن جاتے ہیں
- ہائپوبلاسٹ خلیات، جو معاون تھیلی بن جاتے ہیں
- ایکسٹرا ایمبرویونک میسوڈرم خلیات
ان میں سے مجموعی طور پر 120 خلیوں کو ایک عین تناسب میں ملایا گیا اور پھر سائنسدان پیچھے ہٹ گئے اور دیکھتے رہے۔
مرکب کے تقریباً ایک فیصد نے خود بخود اپنے آپ کو ایک ایسی ساخت میں اکٹھا کرنا شروع کیا جو انسانی جنین سے مماثلت رکھتا ہے، لیکن یہ اس سے ہوبہو مشابہت نہیں رکھتا ہے۔
پروفیسر ہانا کہتے ہیں کہ ’میں خلیوں کو بہت زیادہ کریڈٹ دیتا ہوں کہ آپ کو صحیح مرکب بنا کر انھیں صحیح ماحول دینا ہوتا ہے اور یہ کام کر جاتا ہے۔ یہ ایک حیرت انگیز واقعہ ہے۔‘
جنین کے نمونوں کو بڑھنے اور نشوونما پانے دیا گیا جب تک کہ وہ فرٹیلائزیشن کے 14 دن بعد جنین جیسے نہیں دکھنے لگے۔
بہت سے ممالک میں جنین کی تحقیق قانونی طور پر ممنوع ہے۔
پروفیسر ہانا بی بی سی کو ایمبریو ماڈل کے تھری ڈی ٹور دینے کے دوران بہت پر جوش تھے۔ میں ٹروفوبلسٹ کو دیکھ سکتا ہوں، جو عام طور پر پلیسینٹا بن جاتا ہے، جو جنین کو ڈھانپ لیتا ہے۔ اور اس میں کیویٹیز شامل ہیں، جسے لیکونا کہا جاتا ہے، جو بچے کو غذائی اجزاء منتقل کرنے کے لیے ماں کے خون سے بھرجاتے ہیں۔ ایک زردی کی تھیلی ہے، جس میں جگر اور گردے کے کچھ کردار ہیں، اور ایک بلمینر ایمبریونک ڈسک ، جنین کی نشوونما کے اس مرحلے کی اہم نشانیوں میں سے ایک ہے۔
چیزیں واضح ہو رہی ہیں
امید ہے کہ ایمبریو ماڈل سائنس دانوں کو یہ وضاحت کرنے میں مدد دے سکتے ہیں کہ مختلف قسم کے خلیات کیسے ابھرتے ہیں، جسم کے اعضاء کی تعمیر میں ابتدائی اقدامات کا مشاہدہ کرسکتے ہیں یا وراثتی یا جینیاتی بیماریوں کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
اس مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جنین کے دیگر حصے اس وقت تک نہیں بنیں گے جب تک کہ ابتدائی پلیسینٹا خلیات اسے گھیر نہ لیں۔
یہاں تک کہ ان وٹرو فرٹیلائزیشن (آئی وی ایف) کی کامیابی کی شرح کو بہتر بنانے کے بارے میں بھی غور کیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملے ای کہ کچھ ایمبریو ناکام کیوں ہوجاتے ہیں یا اس ماڈل کا استعمال کرتے ہوئے جانچ کی جائے کہ حمل کے دوران ادویات محفوظ ہیں یا نہیں۔
فرانسس کرک انسٹی ٹیوٹ میں جنین کی نشوونما پر تحقیق کرنے والے پروفیسر رابن لوویل بیج نے مجھے بتایا کہ یہ جنین ماڈل ’دیکھنے میں بہت اچھے ہیں‘ اور ’بہت نارمل نظر آتے ہیں‘۔
’میرے خیال میں یہ اچھا ہے، مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت اچھا کیا گیا ہے، یہ سب سمجھ میں آتا ہے اور میں اس سے بہت متاثر ہوں لیکن موجودہ 99 فیصد ناکامی کی شرح کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔‘
اگر ماڈل زیادہ تر تجربات میں خود کو جمع کرنے میں ناکام رہا تو یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ اسقاط حمل یا بانجھ پن میں کیا مسائل ہوتے ہیں۔
قانونی طور پر الگ
اس تحقیق سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا جنین کی نشوونما کو 14 دن کے مرحلے سے آگے بھی نقل کیا جاسکتا ہے۔
یہ غیر قانونی نہیں ہوگا یہاں تک کہ برطانیہ میں بھی کیونکہ جنین ماڈل قانونی طور پر ایمبریو سے مختلف ہیں۔
پروفیسر لوویل بیج کا کہنا ہے کہ ’کچھ لوگ اس کا خیر مقدم کریں گے لیکن بعض کو یہ پسند نہیں آئے گا اور یہ ماڈل ایک حقیقی جنین کے جتنے قریب آتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اخلاقی سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ عام انسانی ایمبریو نہیں ہیں، وہ جنین ماڈل ہیں، لیکن وہ ان کے بہت قریب ہیں‘۔
تو کیا آپ کو انھیں عام انسانی جنین کی طرح ریگولیٹ کرنا چاہیے یا کیا آپ ان کے ساتھ سلوک کے بارے میں تھوڑا نرم رویہ اختیار کر سکتے ہیں؟‘
پومپیو فابرا یونیورسٹی کے شعبہ تجرباتی اور صحت سائنس سے تعلق رکھنے والے پروفیسر الفونسو مارٹینز اریاس کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق کا سب سے اہم حصہ ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کام نے پہلی بار لیبارٹری میں سٹیم سیلز سے انسانی جنین کی مکمل ساخت کی قابلِ اعتبار تخلیق کی ہے، اس طرح ان واقعات کے مطالعے کے لیے دروازے کھل گئے ہیں جو انسانی جسم کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ ان جنین ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے حمل کا حصول غیر اخلاقی، غیر قانونی اور درحقیقت ناممکن ہوگا کیونکہ 120 خلیوں کو ایک ساتھ جمع ہونا اس حد سے کہیں زیادہ ہے کہ جب ایک جنین کامیابی کے ساتھ رحم میں داخل ہوسکتا ہے۔