زمین کا وہ علاقہ جس کا کوئی مالک نہیں
قطب شمالی ایک ایسا پراسرار علاقہ ہے جو بحر منجمند شمالی کے وسط میں برف کی مسلسل حرکت میں رہنے والی چادر کی طرح ہے۔ یہ کسی کی ملکیت نہیں تاہم اس کے دعویدار کافی ہیں۔
دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور آئس بریکر، برف توڑنے والا جہاز ففٹی لیٹ پوبڈی، جو جوہری توانائی سے چلتا ہے، ہر سال موسم گرما میں 100 ایسے مسافروں کے ساتھ قطب شمالی کا رخ کرتا ہے جو کرہ ارض کے اس دور دراز مقام پر قدم رکھنا چاہتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر مسافروں کے لیے قطب شمالی پر قدم رکھنے کے لمحے سے زیادہ وہاں تک پہنچنے کا سفر اہم ہوتا ہے۔
اس جہاز کے نام کا روسی زبان میں مطلب ہے ’فتح کے پچاس سال‘ جو روس کی دوسری عالمی جنگ میں فتح کی پچاسویں سالگرہ کی جانب اشارہ ہے۔
اس جہاز کے لانچ پر اس کی مدد سے اولمپک مشعل کو سنہ 2013 میں سرمائی اولمپکس سے قبل قطب شمالی تک لے جایا گیا۔
اس جہاز کو توانائی فراہم کرنے کے لیے 171 میگا واٹ کے دو جوہری ری ایکٹر ہیں اور 27.6 میگا واٹ کے دو سٹیم ٹربو جنریٹر بھی، جن کی مدد سے 160 میٹر طویل آئس بریکر 21.4 ناٹ کی رفتار تک پہنچ سکتا ہے جو زمین کے حساب سے تقریبا چالیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار بنتی ہے۔
یہ جہاز چھ سال تک خشکی پر واپس آئے بغیر پانی میں سفر کر سکتا ہے کیونکہ اس کی ایندھن کی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں۔
اس دیوہیکل بحری جہاز کا بنیادی مقصد موسم سرما کے دوران بڑے ہجم کے کارگو جہازوں کو برف سے جمے شمالی سمندری راستے کو پار کرانا ہے۔ موسم گرما میں یہ ایڈوینچر اور دریافت کے لیے مختص ہو جاتا ہے اور مرمینسک بندرگاہ سے اس افسانوی زمین کی جانب سفر کرتا ہے جہاں صرف روسی بحری جہاز ہی پڑاو کر سکتے ہیں۔
شمال کی حد کو سفر کرنے والوں کر دیکھ کر پرانے زمانے کے ان مہم جو افراد کی یاد آتی ہے جو کسی طرح کی مشکل صورتحال سے گھبراتے نہیں تھے۔ مرمینسک کی بندرگاہ سے نکلنے کے بعد یہ جہاز دو دن میں برف کی جمی ہوئی سمندری سطح تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ برفانی ریچھ کا علاقہ ہے جہاں انسانوں کو نئے قسم کے قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مقام سے آگے منجمند خاموشی، برف کے نیچے سے جھانکتے سمندر کے پانیوں اور قطب شمالی کی پراسرار روشنیاں آپ کا ستقبال کرتے ہیں۔
اتنے خاموش سفر میں ایک آواز مسلسل موجود رہتی ہے۔ یہ برف کو چیرتے اس دیو ہیکل جہاز کے اگلے حصے سے آنے والی آواز ہے جو اپنا راستہ بنا رہا ہے۔
گرم کپڑوں میں لپٹے مسافر جہاز کے اگلے حصے پر کھڑے اپنی نگاہیں نیچے کی جانب مرکوز رکھتے ہیں جہاں ان کو بحر منجمند شمالی کی سطح پر موجود برف کی تہہ توٹتی نظر آتی ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے نیچے موجود پانیوں کو سانس لینے کا موقع ملا ہو۔
یہ کسی شاندار اور پر آسائش جہاز کا عام سا سمندری سفر نہیں۔ زمین کے سب سے شمال تک پہنچنے کا یہ سفر، جہاں زمین اور آسمان مل جاتے ہیں، گیارہ دن میں طے ہوتا ہے۔
اس دوران اس جہاز کی رفتار بیس کلومیڑ فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی خصوصاً جب اسے برف کو چیرتے ہوئے راستہ بنانا ہو تاہم برفانی ریچھ کی موجودگی اس سفر کو ایک دلچسپ رخ دیتی ہے۔
اس منجمند دنیا کا بادشاہ انسان نہیں۔ یہاں تک سفر کرنے والے دنیا کے شمال تک پہنچنے کے لیے ہی نہیں بلکہ اس خطے کی خوبصورتی اور پراسراریت کو محسوس کرنے بھی آتے ہیں۔
برفانی سمندر کی وسعت پر نگاہ جمائے رکھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی نشہ طاری ہو رہا ہو۔ یہ ایک پرسکون عمل بھی ہوتا ہے۔
موسم گرما میں یہاں سورج کبھی غروب نہیں ہوتا تاہم روشنی برف کی نیم سفید چادر سے ٹکرا کر مسلسل بدلتی رہتی ہے۔
یہاں کبھی موسم سرد اور دھندلا ہوتا ہے تو کبھی گلابی یا کسی اور رنگ کی روشنی جگمگاتی ہے۔ اس ناچتی روشنی کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ جہاز کے ڈیک پر موجود ہیں یا پھر اندر کے گرم ماحول میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی چھوٹے سے سوراخ سے باہر جھانک رہے ہیں۔
چند دن کے بعد جب آخر کار جہاز قطب شمالی کو چھو لیتا ہے تو مسافروں میں ایک عجیب سی لہر دوڑتی ہے۔ کچھ کے مطابق یہ ایسا احساس ہوتا ہے جیسے ایک نیا آغاز ہو رہا ہو۔
دنیا کی چھت پر یہ برف کی طرح سرد ووڈکا سے جشن منانے کا وقت ہے۔ تمام مسافر ایک دائرے میں کھڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے جام ہوا میں بلند کرتے ہیں۔
یہ ایک فاتحانہ لمحہ ہے اور پھر وقت ہوتا ہے مشہور پولر چھلانگ کا جو شاید دنیا میں سب سے زیادہ مشہور تیراکی کی جگہ ہے۔
یہ زندگی میں صرف ایک بار کرنے والی چیز ہے لیکن ہر کسی میں اتنی ہمت نہیں ہوتی۔ چند مہم جو واڈکا اور وائن انڈیل کر خود کو اس کام کے لیے تیار کرتے ہیں جبکہ جہاز کا عملہ برف پر کھانے کا انتظام کرنے لگ جاتا ہے۔
اس مقام پر بتائے چند گھٹوں میں سورج نکلا، پھر ہوا تیز ہوئی، بادل امڈ آئے اور برف پڑنے لگی۔ دنیا کے سب سے بلند مقام پر ایک گھںٹے میں ہی چار موسموں کا مزہ چکھ لیا۔
قطب شمالی ایک فریب کی طرح ہے۔ یہ کسی کے ہاتھ نہیں آنا چاہتا۔ یہاں پڑاؤ بہت مختصر تھا۔ جب تک جہاز واپسی کے لیے روانہ ہوا، یہ چار کلومیٹر تک بہہ چکا تھا کیوں کہ سمندر یہاں منجمند تو ہے لیکن حرکت میں بھی ہے۔
جنوب کی جانب واپسی کے دوران جہاز برف کی دوبارہ جم جانے والی چادر میں اپنے نشان تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہوکر آئی لینڈ پر کشتیوں کی مدد سے مسافروں کو روبینی روک پر گلیشیئر تک لے جایا گیا جہاں ستر ہزار سے زیادہ مختلف الانواع پرندے رہتے ہیں۔
یہاں اگر ہیلی کاپٹر پر سفر کریں تو فرانز جوزف لینڈ پر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ اس منجمند صحرا کی وسعت کو سمجھنے کے لیے مسافروں کو ہوائی دورے کی دعوت دی جاتی ہے۔
جب آپ ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر جہاز سے اڑتے ہیں تو یہ دیو ہیکل جہاز کچھ ہی دیر میں ایک سرخ نقطہ بن کر رہ جاتا ہے۔ برف میں بنا اس کا راستہ اس طرح نظر آتا ہے جیسے سمندر کی رگیں ہوں۔ ہیلی کاپٹر جہاز کے گرد ایک چکر لگاتا ہے اور مسافر کو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ علاقہ نہ ختم ہونے والا ہے جہاں وقت کبھی نہیں گزرتا، جو یا تو تاریک ہوتا ہے یا پھر روشنی سے بھرپور۔
اس سفر سے پہلے شاید کسی کو بھی اس علاقے کی وسعت کا اندازہ نہیں تھا لیکن اب ہمیں اندازہ ہے کہ سفید برف کا یہ کمبل جو ہماری زمین کے اوپر موجود ہے کتنا وسیع ہے۔