رینا ورما کیا 75 برس بعد رینا کی پاکستان پہنچنے کی کہانی سے دونوں ملکوں کے درمیان نفرت کی دیوار ٹوٹے گی؟
مہاراشٹر کے شہر پونے کی رہائشی 90 سالہ رینا ورما بالآخر 18 جولائی بروز منگل پاکستان کے شہر راولپنڈی کی ہوا میں سانس لینے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ پچھلے 75 سالوں سے پاکستان کے اس شہر میں واپس آنے کے لیے تڑپ رہی تھیں۔
ان کی تڑپ اس گھر میں جا کر ختم ہوئی جو رینا ورما کے مطابق ان کے والد نے اپنی ساری زندگی کی جمع پونجی اکھٹی کر کے بنایا تھا۔ رینا ورما ہمیشہ سے اس گھر کو دوبارہ دیکھنے کا خواب دیکھتی آئی تھیں۔
راولپنڈی واپسی پر ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ گلی میں قدم رکھتے ہی ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کی گئیں۔
مقامی لوگوں نے 90 سالہ رینا ورما کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر رقص کیا اور وہ اپنے استقبال سے بہت متاثر ہوئیں۔
سنہ 1947 میں پاکستان اور انڈیا کی تقسیم سے چند روز قبل رینا ورما کا خاندان راولپنڈی کے علاقہ ’پریم نواس‘ کو چھوڑ کر انڈیا چلا گیا تھا۔ اب اس علاقے کو کالج روڈ کہا جاتا ہے۔
تقسیم کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تباہی اور خونریزی ہوئی، خاص طور پر پنجاب میں۔۔۔ ہر طرف فسادات پھوٹ پڑے تھے جن میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنا گھر بار چھوڑ کر سرحد پار منتقل ہونا پڑا۔
رینا ورما کا خاندان بھی ان لاکھوں خاندانوں میں سے ایک تھا۔
واپسی کا سفر
تمام درد اور صدمے کے باوجود ورما نے کبھی اپنے بچپن کے گھر کے بارے میں سوچنا نہیں چھوڑا جو ان کے والد نے اپنی جمع پونجی سے بنایا تھا۔
2021 میں، وہ انڈیا اور پاکستان میں ایک ‘سوشل میڈیا سینسیشن‘بن گئیں تھیں جب انھوں نے ایک انٹرویو میں اپنے پیچھے چھوڑے ہوئے گھر کے بارے میں بہت دکھ بھرے لہجے میں بات کی تھی۔
‘انڈیا پاکستان ہیریٹیج کلب‘ فیس بک گروپ سے وابستہ لوگوں نے راولپنڈی میں ان کے آبائی گھر کی تلاش شروع کی اور آخر کار ایک خاتون صحافی کو یہ گھر مل گیا۔ رینا ورما پاکستان جانا چاہتی تھیں لیکن کووڈ کی وبا کی وجہ سے وہ نہیں جا سکیں۔
تاہم، اس سال مارچ میں بالآخر انھوں نے پاکستان کے ویزے کے لیے درخواست دی، اور پھر ان کا ویزہ بغیر کوئی وجہ بتائے مسترد کر دیا گیا۔
رینا کہتی ہیں ‘میں ٹوٹ گئی تھی۔ مجھے امید نہیں تھی کہ ایک 90 سالہ خاتون جو صرف اپنا گھر دیکھنا چاہتی تھی، اس کا ویزا منسوخ ہو جائے گا۔ میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی، لیکن ایسا ہوا۔‘
انڈیا اور پاکستان تقسیم کے بعد سے کئی جنگوں اور تنازعات میں ملوث رہے ہیں اور جنوبی ایشیائی جوہری حریفوں کے درمیان تعلقات زیادہ تر دشمنی پر مبنی ہیں۔ مسلسل کشیدگی کے نتیجے میں دونوں ملکوں کے لوگ سرحدوں کے پار آزادانہ سفر نہیں کر سکتے۔
اگرچہ رینا کہتی ہیں کہ انھوں نے دوبارہ ویزا کے لیے اپلائی کرنے کا ارادہ کیا تھا، لیکن ان کی کہانی پاکستان کی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر تک پہنچ گئی، اور اس سے پہلے کہ وہ دوبارہ درخواست دیتیں، پاکستانی وزیِر حارجہ نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے افراد کو رینا کے گھر بھیج دیا، اور انھیں ان کی درخواست پر کارروائی کرنے کی ہدایت کی۔
رینا کہتی ہیں ‘جب مجھے پاکستان کے سفارت خانے سے فون آیا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انھوں نے مجھے آکر ویزا لینے کو کہا۔ یہ سب کچھ چند دنوں میں ہوا۔‘
لیکن پھر ان کے سامنے ایک اور چیلنج تھا۔ بہت گرمی تھی۔ اور حال ہی میں رینا کے بیٹے کی موت ہو گئی تھی لہذا ایسے میں انھیں تنہا سفر کرنے کے بجائے مزید چند ماہ انتظار کرنے کا مشورہ دیا گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ انتظار بہت تھکا دینے والا تھا لیکن وہ بیمار پڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے صبر کیا اور بالآخر 16 جولائی کو پاکستان پہنچ گئیں۔
یادوں کی گلی
20 جولائی کو آخر کار رینا اپنے آبائی گھر پہنچ گئیں۔ اس صبح جب میں ان سے ہوٹل کی لابی میں ملی انھوں نے ایک خاص لباس پہنا ہوا تھا۔
رینا نے نارنجی شلوار قمیض کے ساتھ سبز دوپٹہ پہن رکھا تھا۔ وہ پرسکون اور خوبصورت لگ رہی تھیں۔ انھوں نے نیلے رنگ کی نیل پالش لگا رکھی تھی اور ان کی آنکھوں میں وہی چمک نظر آئی جو ان کے جھمکوں سے جھلک رہی تھی۔
لیموں پانی پیتے ہوئے انھوں نے مجھے بتایا کہ اس سفر کے بارے میں ان کے ملے جلے جذبات ہیں۔
‘میں اس لمحے کو اپنے خاندان کے ساتھ شئیر کرنا چاہتی تھی، لیکن وہ سب اس دنیا سے جا چکے ہیں۔ میں یہاں آکر خوش ہوں، لیکن میں آج بہت تنہا محسوس کر رہی ہوں۔‘
رینا بتاتی ہیں کہ 1947 کے موسم گرما میں انھوں نے راولپنڈی میں اپنا گھر چھوڑا تھا۔ انھوں نے اور ان کی بہنوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ وہ واپس نہیں آ سکیں گی۔
‘میری ایک بہن کی شادی امرتسر میں ہوئی تھی، میرے بہنوئی اپریل 1947 میں ہم سے ملنے آئے اور انھوں نے میرے والد سے کہا کہ وہ مجھے اپنے ساتھ واپس بھیج دیں۔ وہ جانتے تھے کہ حالات مزید خراب ہونے والے ہیں۔ لہٰذا، اس موسم گرما میں ہمیں شملہ بھیج دیا گیا۔ ہم مری نہیں گئے جہاں ہم عام طور پر چھٹیاں گزارنے جاتے تھے۔‘
‘میرے والدین شروع میں ہچکچاتے رہےلیکن چند ہفتوں کے بعد وہ بھی ہمارے پاس آگئے، رفتہ رفتہ ہم سب نے تقسیم کو قبول کر لیا، لیکن میری والدہ نے اسے قبول نہیں کیا، وہ تقسیم کو کبھی سمجھ نہیں پائی تھیں۔ اور ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ ہم پر اس کا برا اثر پڑے گا، پہلے ہم برطانوی راج میں رہتے تھے، اب مسلم راج میں رہیں گے، لیکن ہمیں اپنا گھر چھوڑنے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘
رینا بتاتی ہیں کہ اس کی والدہ نے کبھی بھی وہ گھر قبول نہیں کیا جو انھیں مہاجرین کے طور پر دیا جا رہا تھا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر انھوں نے یہ گھر لے لیا تو وہ پاکستان میں اس گھر پر اپنا دعویٰ کھو دیں گی جسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔
رینا نے اپنے بزرگوں کی گلی میں قدم رکھا تو مقامی لوگوں کے ہجوم نے ان کا استقبال کیا۔ انھوں نے رینا کو گود میں اٹھایا، گلے لگایا اور ان پر گلاب کی پتیاں نچھاور کیں۔
کچھ لوگوں نے ان کے ساتھ ڈھول کی تھاپ پر رقص بھی کیا۔ رینا بہت خوش نظر آرہی تھی۔ اس کے بعد انھیں گھر کے اندر لے جایا گیا جہاں میڈیا کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔
عمارت کا سبز پینٹ تازہ تازہ کیا گیا تھا۔ گھر میں باہر سے کچھ نیا پن تھا لیکن اس کی ساخت وہی پرانی تھی۔ اس دوران گلی میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ وہ سب رینا کو دیکھنا اور ان کے ساتھ سیلفی لینا چاہتے تھے۔
رینا چند گھنٹے گھر کے اندر رہیں۔ جب وہ دوبارہ باہر آئیں تو درجنوں کیمرے ان کی تصویر لینے کے منتظر تھے۔
موسم نم تھا اور گلیوں میں بھیڑ تھی۔ لیکن رینا پرسکون لگ رہی تھی۔
انھوں نے میڈیا کو بتایا کہ گھر کا زیادہ تر حصہ اب بھی پہلے جیسا ہی ہے۔ ٹائلیں، چھت، آگ کی جگہ، سب کچھ ویسا ہی ہے اور یہ دیکھ کر انھیں اپنی زندگی کے وہ خوبصورت لمحات یاد آ گئے ہیں جو انھوں نے یہاں گزارے تھے۔ انھیں اپنے رشتے دار بھی یاد آئے جو اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
رینا نے کہا کہ ان کا دل رو رہا ہے لیکن وہ شکر گزار ہیں کہ وہ اپنے گھر کو دوبارہ دیکھنے کے لیے زندہ ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ دونوں ممالک کی حکومتوں کو کیا پیغام دینا چاہتی ہیں تو انھوں نے صرف اتنا کہا کہ جن لوگوں کے خاندان اور جڑیں سرحد کے اس پار ہیں انھیں اس طرح کی تکلیف سے نہیں گزرنا چاہیے۔
انڈیا اور پاکستان میں بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کی دل چھونے والی کہانی ایک ایسے خطے کو نئی امید دے گی جہاں دوسری برادریوں کے خلاف نفرت کی سیاست ہر چیز پر قبضہ کر رہی ہے۔