ریلیف کے بجائے قیمتوں میں دوبارہ اضافہ: 589 ارب کی سالانہ بجلی چوری آپ کے بل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟
نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے جمعہ کے روز پاکستان میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں ایک روپے 46 پیسے کے اضافے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اضافہ جولائی 2023 کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا ہے جس کا اطلاق ستمبر کے بلوں پر ہو گا۔
یہ اضافہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکٹر کی جانب سے گذشتہ ہفتے بجلی کے بلوں کی وصولی میں عوام کو ریلیف دینے سے متعلق اعلان کے باوجود نگراں حکومت اس ضمن میں کسی لائحہ عمل کا اعلان نہیں کر سکی ہے۔
نگران وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے کہا ہے کہ بلوں پر عوام کو ریلیف دینے سے متعلق عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے بات چیت جاری ہے اور آئندہ چند روز اس بارے میں اعلان کر دیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے سدباب کے لیے بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤن پورے ملک میں جاری ہے۔
موجودہ نگراں حکومت نے پاکستان میں بجلی کی بڑھتی قیمتوں کی ایک بڑی وجہ بجلی چوری کو قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف بڑے کریک ڈاؤن کا اعلان کیا ہے جس کے بعد بہت سے شہروں میں کارروائیاں بھی کی گئی ہیں۔
گذشتہ دنوں نگراں وزیر توانائی محمد علی نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جب تک بجلی کی چوری نہیں رُکتی اور بجلی چوروں کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تب تک اُن افراد کے لیے بجلی کی قیمتیں کم نہیں کی جا سکتیں تو باقاعدگی سے اپنے بِل ادا کر رہے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں بجلی کی سالانہ چوری 589 ارب روپے (49 ارب روپے ماہانہ) ہے اور اس چوری کی وجہ سے جو لوگ بل ادا کرتے ہیں انھیں بجلی مہنگی ملتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں بجلی کہاں اور کتنی چوری ہو رہی ہے اور کیا حکومت کے بجلی چوروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کے باعث بل ادا کرنے والے صارفین کے لیے بجلی سستی ہو جائے گی؟
بجلی کی چوری آپ کے بِل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟
صوبائی دارالحکومت کراچی میں بجلی کی ترسیل کے ادارے ’کے الیکٹرک‘ کو چھوڑ کر باقی پاکستان میں بجلی کی ترسیل دس کمپنیوں، جنھیں ڈسکوز کہا جاتا ہے، کی مدد سے کی جاتی ہے۔
نگراں حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں (علاوہ کراچی) ترسیل ہونے والی بجلی کی مجموعی بلنگ سالانہ 3781 ارب روپے ہے یا سادہ الفاظ میں کہیے کہ مجموعی طور پر 3781 ارب روپے مالیت کی بجلی سالانہ سسٹم میں ڈالی جاتی ہے تاہم اس میں سے 3192 ارب روپے موصول ہوتے ہیں جبکہ 589 ارب کی بجلی چوری ہو جاتی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پانچ ڈسکوز بشمول پشاور، حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اور قبائلی علاقوں میں سالانہ 737 ارب روپے کی بلنگ ہوتی ہے مگر 60 فیصد (489 ارب) نقصان یا چوری کے بعد صرف 489 ارب روپے موصول ہوتے ہیں۔
اسی طرح دیگر پانچ ڈسکوز بشمول اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور گجرنوالہ میں 3044 ارب روپے کی بلنگ ہوتی ہے جبکہ موصول ہونے والی رقم 2944 ارب روپے ہے جبکہ 100 ارب (ترسیل شدہ بجلی کا لگ بھگ تین فیصد) کی بجلی کی چوری یا نقصان ہو جاتا ہے۔
گذشتہ دنوں سیکریٹری توانائی نے بجلی چوری کی صورتحال پر آگاہ کرتے ہوئے مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ صوبہ سندھ میں شکار پور میں 82 سے 84 فیصد ترسیل ہونے والی بجلی چوری ہو رہی ہے یعنی اگر حکومت 100 روپے کی بجلی فراہم کر رہی ہے تو اس کے بدلے حکومت کو صرف 16 سے 18 روپے موصول ہو رہے ہیں۔
صحافی شہباز رانا کے مطابق چوری ہونے والی اس بجلی کی قیمت (49 ارب ماہانہ) اُن صارفین سے مہنگی بجلی کی صورت میں وصول کی جاتی ہے جو اپنے بل باقاعدگی سے ادا کرتے ہیں جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ چوری کی مد میں ہونے والے نقصان کا کم سے کم بوجھ حکومت پر پڑے۔
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں ایسے ایریاز بھی ہیں جہاں فراہم کی جانے والی بجلی کے عوض ریکوری زیرو یا نا ہونے کے برابر ہے تاہم پورے ملک میں بجلی کی ایک ریٹ پر دستیابی کے باعث بل ادا کرنے والے عوام چوری کی قیمت بجلی کے بھاری بلوں کی صورت میں چکاتے ہیں۔
کیا بجلی چوروں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن آپ کے بِل کو کم کر دے گا؟
نگراں حکومت کا کہنا ہے کہ انھوں نے پاکستان کے اُن ایریاز کی نشاندہی کی ہے جہاں بجلی کی چوری سب سے زیادہ ہے اور اس ضمن میں ایک ایکشن پلان فائنل ہونے کے بعد اس پر عملدرآمد جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اطلاعات کے مطابق گذشتہ تین روز کے دوران بجلی کے غیرقانونی کنکشنز منقطع کیے گئے ہیں جبکہ بجلی چوروں کے خلاف ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں۔
وزیر توانائی کے مطابق جب تک بجلی کی چوری نہیں رکے گی تب تک اُن افراد کے لیے بجلی کی قیمتیں کم نہیں کی جا سکتیں تو باقاعدگی سے اپنے بِل ادا کر رہے ہیں۔
مگر کیا کامیاب کریک ڈاؤن کے بعد بجلی کی قیمتیں بل ادا کرنے والے صارفین کے لیے کم ہو جائیں گی؟
اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاور سیکٹر کے رپورٹر خلیق کیانی کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ ’اگر موجودہ حالات کو دیکھا جائے تو آئندہ آنے والے دنوں اور مہینوں میں ان قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ایک اضافہ آج ہوا ہے جبکہ کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں اضافے کا اعلان ہونا باقی ہے۔‘
’589 ارب روپے کی بجلی چوری صرف اس سال نہیں ہوئی۔ چوری ہمیشہ سے ہوتی آ رہی ہے اور وقت کے ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ ماضی میں بھی بجلی چوروں کے خلاف کریک ڈاؤنز کا آغاز کیا گیا مگر یہ عمل وقتی ہوتا ہے جس میں تسلسل نہیں ہوتا۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر یہ کریک ڈاؤن جاری رہتا ہے تو ہو گا یہ کہ کچھ عرصے کے لیے حکومت کی ریکوری بہتر ہو جائے گی مگر کیا چھ ماہ بعد حکومت اس سلسلے کو جاری رکھ رہی ہو گی؟
صحافی شہباز رانا کے مطابق بجلی چوری کو عمل کو روکنے کے لیے کسی خاص وقت کا انتظار نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ ایک مسلسل عمل ہونا چاہیے تبھی اس کے تھوڑے بہت فوائد سامنے آئیں گے۔ ’ایک یا دو ماہ کا کریک ڈاؤن اور اس کے بعد خاموشی مسئلے کا حل نہیں ہو گی۔‘