روس یوکرین جنگ: پوتن کا جنگی طریقہ شام، چیچنیا، یوکرین سب میں ایک، ‘گھیراؤ کے بعد بارود کی بارش
جب میں یہ لکھ رہا ہوں تو کیئو کا مرکز اور اس کے زیادہ تر مضافاتی علاقے اب بھی محفوظ ہیں مگر سائرنز اور الرٹس روز کا معمول ہیں۔
یہاں سب جانتے ہیں کہ یہ سب جلد ہی تبدیل ہو سکتا ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب تک آپ یہ پڑھیں، تب تک صورتحال تبدیل ہو چکی ہو۔
یوکرین کے دوسرے بڑے شہر خارخیو روسیِ طرزِ جنگ کا سہہ چکا ہے۔ ماریوپول اور مشرق میں دیگر شہروں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔
روس مزاحمت کا جواب مزید اسلحے سے دیتا ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ گھر گھر فوجی بھیجیں، ان کا فوجی نظریہ اپنے دشمنوں کو بھاری ہتھیاروں سے فضائی حملوں کے ذریعے نشانہ بنانے کا ہے۔
خارخیو اور دیگر شہروں اور قصبوں کو بے انتہا نقصان پہنچا ہے اور جہاں تک ہم جانتے ہیں، کئی شہری بھی اس تنازعے میں ہلاک ہوئے ہیں۔ خارخیو کی مقامی حکومت کا دفتر ایک میزائل حملے میں برباد ہوا اور یہ پورا منظر فلم بند بھی ہوا۔
روس کے صدر ولادیمیر پوتن شاید کیئو کو پیغام بھیج رہے ہوں کہ اپنے مشرق کی طرف دیکھو، کیونکہ تمہارے ساتھ بھی یہی ہو سکتا ہے۔
جن دیگر جنگوں میں روسی شامل رہے ہیں، ان سے میں نے یہی پریشان کُن نتیجہ نکالا ہے کہ حالات ابھی مزید خراب ہو سکتے ہیں۔
- روس یوکرین تنازع:اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
’زمین تھرتھرا رہی تھی‘
اب تک پوتن نے وہ نقصان پہنچانے کا حکم نہیں دیا ہے جو روسی فورسز نے 1990 کی دہائی میں چیچن جمہوریہ کے بغاوت کرنے پر گروزنی کو پہنچایا تھا، یا پھر شام میں جہاں صدر پوتن نے سنہ 2015 میں فوجی مداخلت کی تھی۔
میں نے 1994 کی سردیوں میں شروع ہونے والی پہلی چیچن جنگ کی کوریج کی تھی۔ یوکرین کی طرح روسی فوج نے یہاں بھی سنگین عسکری غلطیاں کی تھیں۔ چیچن جنگجو تنگ گلیوں میں بکتربند گاڑیوں کے قافلوں کو نشانہ بناتے اور تباہ کر دیا کرتے تھے۔ کئی فوجی لڑ کر ہلاک نہیں ہونا چاہتے تھے۔
یوکرین پر حملے سے قبل فوجی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ روسی فورسز اب پہلے سے کہیں زیادہ پروفیشنل ہو چکی ہیں۔ شاید ایسا ہو، مگر روس کا حملہ ایک مرتبہ پھر حکمتِ عملی کی غلطیوں، نقل و حمل کے مسائل اور ان خوفزدہ نوجوان فوجیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے جنھیں یہ علم نہیں تھا کہ اُنھیں جنگ پر بھیجا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ انھیں اتنی ہی سخت مزاحمت کا سامنا ہے جو سنہ 1995 میں چیچن لوگوں نے کی تھی۔
چیچنیا میں روس نے پوری قوت سے اسلحے کا استعمال کیا۔ کچھ ہی ہفتوں میں توپ خانوں اور فضائی حملوں نے کنکریٹ اور سٹیل کے بنے اس شہر کے مرکز کو ملبے کے ڈھیر میں بدل دیا۔
میں اس وقت چیچن مزاحمت کے گڑھ مینوتکا سکوائر میں اس دن تھا جب اسے بار بار نشانہ بنایا گیا تھا۔ عام شہری تہہ خانوں میں تھے اور جب بھی وہ پانی یا کھانے کے لیے باہر نکلتے تو اپنی جان جوکھم میں ڈال رہے ہوتے۔
اس دن مینوتکا سکوائر میں چیچن جنگجو کلسٹر بموں کے باعث ہلاک ہوئے اور عمارتوں میں آگ لگی۔ صرف 24 گھنٹے بعد شہر کی مرکزی شارع پر میزائل برسا دیے گئے۔ جہاں ہم فلم بندی کر رہے تھے وہاں زمین تھرتھرا رہی تھی۔
فضائی غلبہ
میں نے برسہا برس جنگی رپورٹنگ کرنے کے دوران گروزنی کے علاوہ جو سب سے زیادہ تباہ حال جگہ دیکھی ہے وہ شام ہے۔ یہاں بھی روسی فوج کی تباہ کُن قوت صاف نظر آتی ہے۔
صدر پوتن نے شام میں مداخلت کر کے بشار الاسد کی حکومت کو سہارا دیا جو روس کو دوبارہ عالمی طاقت کی حیثیت دلوانے کے مقصد کی طرف بڑا قدم تھا۔
شام میں باغیوں پر حاصل ہونے والی دو فیصلہ کُن فتوحات جو بشار حکومت کے لیے نہایت اہم تھیں، وہ روس کی بے رحم بمباری کے ذریعے ہی حاصل ہوئیں۔
پہلی فتح سنہ 2016 کے اواخر میں حلب میں حاصل ہوئی۔ شہر کا مشرقی حصہ جو ایک عرصے سے متعدد باغی گروہوں کے قبضے میں تھا، بارود کی برسات کے بعد آخرِ کار حکومت کے قبضے میں آ گیا۔
بشار الاسد کو بھی شامی لوگوں پر حملہ کرنے کے لیے کسی بیرونی حوصلہ افزائی کی ضرورت نہیں تھی مگر روسی پھر بھی اپنے ساتھ تباہ کُن قوت لے کر آئے۔ اس کے علاوہ شام کے ساتھ ساتھ ایران میں موجود سٹریٹجک بمباروں نے بھی تباہ کُن حملے کیے۔
شام میں جو حکمتِ عملی اختیار کی گئی وہ باغیوں کو گھیرنا، اُن کا محاصرہ کرنا اور پھر اُنھیں فضائی حملوں اور توپ خانوں سے مسلسل نشانہ بنانا، یہاں تک کہ باغی سپاہی اور باہر نکلنے میں ناکام شہریوں کو تھکا دینا تھی۔ ان میں کئی لوگ مارے گئے۔
جب میں مشرقی حلب کے حکومتی قبضے میں جانے کے بعد یہاں کی سڑکوں پر گاڑی چلا رہا تھا تو میلوں تک صرف تباہی کے اثرات نظر آ رہے تھے۔ مجھے ایک بھی ایسی عمارت نظر نہیں آئی جو نقصان سے بچ گئی ہو۔ پورے کے پورے محلے ملبے کا ڈھیر بنے ہوئے تھے جبکہ کئی سڑکیں ملبے کے باعث بند ہو چکی تھی۔
میں نے شامی دارالحکومت دمشق کے عین باہر موجود مشرقی غوطہ میں بھی اسی حکمتِ عملی کو کار فرما دیکھا۔ یہ علاقہ باغیوں کے قبضے میں موجود قصبوں اور زرعی زمینوں پر متشتمل تھا۔
اس نے سنہ 2018 میں ہار مان لی تھی اور اسے دمشق پر قبضے کے پہلے قدم کے طور پر دیکھا گیا۔ امریکہ نے سنہ 2013 میں فیصلہ کیا تھا کہ وہ حلب کے علاقے دومہ میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے باوجود اسد حکومت پر حملہ نہیں کریں گے۔ یہ طویل جنگ سنہ 2015 میں روس کے اس جنگ میں داخل ہونے کے بعد فیصلہ کُن انداز میں شام کے حق میں ختم ہوئی۔
مشرقی غوطہ کے جنگجوؤں نے فضائی حملوں اور گولہ باری سے بچ نکلنے کے لیے شہر کے نیچے زیرِ زمین سرنگیں بنا رکھی تھیں مگر محاصرہ اور بے انتہا فوجی طاقت جنگیں جتواتی ہے۔ ایسا اس لیے ہے کیونکہ جنگجو مارے جاتے ہیں، تھک جاتے ہیں اور عام شہری چاہے جتنے بھی مزاحم کیوں نہ ہوں۔
کیئو میں ہر کسی کے ذہن پر ایک سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو خارخیو، ماریوپول اور چیچنیا اور شام میں ہوا تھا؟
یا پھر قدامت پسند مزارات کے باعث یہاں پوری طاقت کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا جو چیچنیا اور شام میں کی گئی تھی۔
پوتن نے روس کی تاریخ میں یوکرین کی اہمیت کا باب خود لکھ دیا ہے۔ کیا وہ یوکرین دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اسے مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟ اگر پابندیوں اور یوکرینی مزاحمت سے ان کی حکومت کمزور و غیر مستحکم ہو گئی تو کیا وہ مزید سخت اقدامات اٹھائیں گے؟
تاریخ یہ ہے کہ روسی فوج اپنی زمینی فورسز کی صلاحیتوں میں خامیوں کا ازالہ بھاری اسلحے سے کرتی ہے۔ یوکرینیوں کی دعا ہے کہ اُن کے ساتھ وہ سب کچھ نہ ہو۔