’روس بند گلی میں داخل ہو گیا، جنگ تعطل کا شکار ہے یوکرین کے انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ کیریلو بوڈانوف
اب جبکہ کیئو مغربی اتحادیوں سے مزید جدید ہتھیاروں کا انتظار کر رہا ہے، یوکرین کی ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے کہا ہے یوکرین میں لڑائی اس وقت تعطل کا شکار ہے کیونکہ نہ تو یوکرین اور نہ ہی روس اہم پیش رفت کر سکتے ہیں۔
کیریلو بوڈانوف نے بی بی سی کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’صورتحال بری طرح پھنسی ہوئی ہے۔۔ اس میں فی الحال کوئی تبدیلی ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہے۔‘
نومبر میں یوکرین کے فوجیوں کے جنوبی شہر کھرسون پر دوبارہ قبضہ کرنے کے بعد زیادہ تر شدید لڑائیاں مشرقی ڈونیسک کے علاقے باخموت کے ارد گرد ہوئی ہیں۔ دوسری جگہوں پر روسی افواج دفاعی انداز میں تعینات نظر آتی ہے جبکہ موسم سرما نے 1,000 کلومیٹر فرنٹ لائن پر یوکرین کی زمینی کارروائیوں کی رفتار کو کم کر دیا ہے۔
کیریلو بوڈانوف نے کہا کہ روس ’اب مکمل طور پر ایک بند گلی میں پھنسا ہوا ہے‘، اسے بہت نقصان پہنچ چکا ہے اور ان کا خیال ہے کہ کریملن نے بھرتیوں کی ایک اور تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ تاہم انھوں نے مزید کہا کہ یوکرینی افواج کے پاس اب بھی متعدد علاقوں میں آگے بڑھنے کے لیے وسائل کی کمی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم ان کو ہر طرف سے ہرا نہیں سکتے ہیں اور نہ ہی وہ ہمیں مکمل طور پر شکست دے سکتے ہیں۔ ہم نئے ہتھیاروں کی فراہمی اور مزید جدید ہتھیاروں کی آمد کے منتظر ہیں۔‘
اس ماہ کے شروع میں روسی فوجی ناکامیوں کے ایک متواتر سلسلے کے بعد یوکرین کے حکام نے سنہ 2023 کے آغاز میں بیلاروس سے ماسکو کی افواج کی طرف سے ایک اور زمینی حملے کے امکان کے بارے میں خبردار کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس حملے میں دارالحکومت کیئو پر قبضہ کرنے کی دوسری کوشش بھی شامل ہو سکتی ہے۔ اور اس میں دسیوں ہزار ریزروسٹ شامل ہیں جو روس میں تربیت یافتہ ہیں۔
تاہم کیریلو بوڈانوف نے بیلاروس میں روس کی سرگرمیوں کو مسترد کر دیا ہے جس میں ہزاروں فوجیوں کی نقل و حرکت بھی شامل ہے کیونکہ یوکرین کو جنوب اور مشرق کے میدان جنگ سے شمال کی طرف ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ حال ہی میں روسی فوجیوں سے لدی ایک ٹرین بیلاروس-یوکرائن کی سرحد کے قریب ایک مقام پر رکی اور کئی گھنٹے بعد تمام مسافروں سمیت واپس لوٹ گئی۔
انھوں نے کہا کہ ’ان کا اس طرح آنا جانا جان بوجھ کرظاہر کیا گیا تاکہ ہر کوئی اس منظر کو دیکھ لے چاہے (ہم) نہ چاہتے ہوں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ انھیں بیلاروس میں فوجیوں کی طرف سے کوئی حقیقی حملے کا خطرہ نظر نہیں آتا ہے۔ ’ابھی تک مجھے بیلاروس سے کیئو یا شمالی علاقوں پر حملے کی تیاری کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔‘
کیئو میں کیریلو بوڈانوف کے مدھم روشنی والے دفتر میں یہ انٹرویو روسی صدر ولادیمیر پوتن کے تین سال سے زائد عرصے میں پہلی بار بیلاروسی دارالحکومت کے سفر کے چند دن بعد کیا گیا ہے۔
صدر پوتن کے اس دورے سے یہ قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں کہ وہ صدر الیگزینڈر لوکاشینکو، جو ایک طویل عرصے سے اتحادی ہیں، کو بیلاروسی فوجیں یوکرین بھیجنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
بیلاروس کو روسی افواج حملوں کے لیے ’لانچ پیڈ‘ کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں، لیکن کیریلو بوڈانوف کا خیال ہے کہ بیلاروس کا معاشرہ جنگ میں مزید شمولیت کی حمایت نہیں کرے گا اور تجزیہ کاروں نے اس کی 48,000 مضبوط فوج کی تیاری کی سطح پر بھی شک کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اسی لیے صدر لوکاشینکو اپنے ملک کے لیے کسی آفت کو روکنے کے لیے تمام اقدامات کر رہے ہیں۔
کیریلو بوڈانوف نے کہا کہ اس حملے کی قیادت کرائے کی فوج واگنر گروپ کر رہا تھا۔ اس کے بانی، یوگینی پریگوزن، کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس قصبے کو سیاسی انعام کے طور پر اپنے قبضے میں لینا چاہتے ہیں، جبکہ ان کی کس کارروائی کے بارے میں روسی حکام کے درمیان باہمی چپقلش چل رہی ہے۔
میدانِ جنگ سے دور روس نے اکتوبر کے وسط سے ایک مسلسل فضائی مہم چلائی ہے جس میں یوکرین کے اہم انفراسٹرکچر کو میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں لاکھوں لوگ بجلی، ہیٹنگ اور پانی سے محروم ہیں۔ کیریلو بوڈانوف نے کہا کہ حملے جاری رہنے کا امکان ہے لیکن تجویز کیا کہ روس میزائلوں کے کم ہوتے ذخائر، اور روسی صنعت کی ان کو بھرنے میں ناکامی کی وجہ سے حملوں کی سطح کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔
اگرچہ ایران نے روس کے حملوں میں استعمال ہونے والے زیادہ تر ڈرون فراہم کیے ہیں، لیکن یوکرینی انٹیلیجنس ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ تہران نے اب تک روس کو میزائل فراہم کرنے سے انکار کیا ہے، کیونکہ ایران اس بات سے آگاہ ہے کہ وہ پہلے ہی اپنے جوہری پروگرام کی وجہ سے مغربی ممالک کی سخت پابندیوں کا شکار ہے۔
جنگ فی الحال تعطل کا شکار رہ سکتی ہے، لیکن کیریلو بوڈانوف اس بات پر بضد ہیں کہ یوکرین بالآخر وہ تمام علاقہ واپس لے لے گا جو اب تک روس کے قبضے میں ہے، بشمول کریمیا، وہ جزیرہ نما جس پر روس نے سنہ 2014 میں قبضہ کیا تھا۔ کیریلو بوڈانوف کا خیال ہے کہ یوکرین اس تمام خطے کو روس سے آزاد کرالے گا جو سنہ 1991 میں یوکرین کی آزادی کے وقت یوکرین کا حصہ تھے۔