راکیش شرما انڈیا کے پہلے خلا باز جن سے واپسی

راکیش شرما انڈیا کے پہلے خلا باز جن سے واپسی

راکیش شرما انڈیا کے پہلے خلا باز جن سے واپسی پر پوچھا گیا ’کیا تم خدا سے ملے تھے

’کیا آپ خدا سے ملے؟‘

انڈیا کے پہلے خلاباز سے خلا سے واپسی پر یہ سوال بھی پوچھا گیا تھا۔

راکیش شرما خلاف سے واپس زمین پر سنہ 1984 میں آئے تھے اور اُن کے پرستار اُن سے اس سوال کا جواب مانگ رہے تھے۔

راکیش بتاتے ہیں کہ ’میں انھیں جواب دیتا کہ نہیں، میں خدا سے نہیں ملا۔‘

اب تین دہائیوں بعد بھی جب راکیش شرما کے نئے پرستار ان سے ملتے ہیں اور سوالات کرتے ہیں تو ان کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ بات حقیقی دنیا کی ہو رہی ہے یا کسی افسانوی دنیا کی۔

راکیش کہتے ہیں کہ ‘اب کئی جوان مائیں اپنے بچوں کو میرے بارے میں بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’یہ انکل چاند پر جا چکے ہیں۔‘

لیکن راکیش خلا سے اپنی واپسی پر ہونے والے ہنگامے کو آج تک نہیں بھول پائے۔ خلا سے واپسی پر انھوں نے ملک بھر کی سیر کی، کئی ہوٹلوں اور گیسٹ ہاؤسز میں رہے۔ انھوں نے تصاویر بنوائیں اور تقاریر کیں۔

معمر خواتین نے انھیں دعائیں دیں جبکہ ان کے پرستاروں نے اُن سے آٹوگراف لینے کی کوشش میں اُن کے کپڑے تک پھاڑ دیے۔

سیاستدانوں نے ووٹ کے لیے اُن کے ساتھ اپنے اپنے حلقوں کا چکر لگایا اور حکام نے انھیں چھٹی پر نیشنل پارک بھیج دیا جہاں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔

وہ یاد کرتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ بہت زیادہ تھا۔ میں اس سے تھک گیا تھا اور پریشان تھا۔ مجھے ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے رکھنا پڑتی تھی۔‘

راکیش شرما

پاکستان کے خلاف جنگ سے لے خلا تک کا سفر

راکیش 21 سال کی عمر میں انڈین ایئر فورس میں بھرتی ہوئے اور ابتدا میں ہی انھوں نے سپر سونک طیارہ اڑانا شروع کر دیا تھا۔ اپنی 23ویں سالگرہ سے قبل انھوں نے پاکستان کے خلاف سنہ 1971 کی جنگ کے دوران 21 مشنز میں شرکت کی تھی۔

25 سال کی عمر میں وہ ٹیسٹ پائلٹ بنے اور جب وہ 35 سال کے ہوئے تو وہ انڈیا کے پہلے خلا باز بن گئے۔ وہ خلا میں جانے والے 128ویں انسان تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’خلا میں جانے سے قبل میں سب کچھ حاصل کر چکا تھا۔ جب موقع آیا تو میں اُن کے ساتھ چل پڑا۔ یہ اتنا ہی آسان تھا۔‘

لوگ یہ بھول چکے ہیں انڈیا کے لیے راکیش کی یہ واحد کامیابی ان برسوں میں آئی تھی جو ملک کی تاریخ میں مجموعی طور پر کافی بُرے ثابت ہوئے تھے۔

سنہ 1984 میں انڈین فوج نے پنجاب میں گولڈن ٹیمپل پر آپریشن کیا تھا جہاں سے سکھ علیحدگی پسندوں کو نکالا گیا تھا اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کو ان کے سکھ باڈی گارڈز کی جانب سے قتل کیے جانے کا انتقام لیا گیا تھا۔

اس دوران سکھ مخالف فسادات ہوئے اور ملک میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد مذہب کی بنیاد پر بدترین ہنگامہ آرائی دیکھی گئی، جس سے دلی کا ماحول شدید متاثر ہوا۔ سال کے اختتام سے قبل بھوپال میں ایک فیکٹری میں زہریلی گیس کے اخراج سے ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے۔ اسے صنعتی تاریخ کے بدترین حادثات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

راکیش

زخمی قوم کے لیے محض ایک نوجوان پائلٹ کی کامیابی کا امید کی کرن بننا مشکل تھا۔

اندرا گاندھی سنہ 1984 کے الیکشن سے قبل ہی انڈیا کے سپیس پروگرام کی حمایت کر رہی تھیں۔ انھوں نے اس کام کے لیے اپنے قریبی اتحادی اور خلائی دوڑ کے رہنما سوویت یونین کی مدد مانگی تھی۔ سوویت یونین نے انڈیا سے خلا میں جانے کے لیے امیدواروں کی فہرست حاصل کی تھی۔

ایک کمرے میں بند

راکیش کو قریب 50 فائٹر پائلٹس میں سے شارٹ لسٹ کیا گیا تھا اور اب انھیں کئی مشکل امتحانات سے گزرنا تھا۔

ان میں سے ایک ٹیسٹ میں ایئر فورس نے انھیں بنگلور میں 72 گھنٹوں کے لیے ایک کمرے میں بند کر دیا تھا۔ یہ کمرہ ایئرو سپیس کی عمارت میں واقع تھا اور اس میں صرف مصنوعی روشنی تھی۔ اس امتحان میں یہ دیکھا جا رہا تھا کہ آیا راکیش کو ’کلاسٹروفوبیا‘ (تنگ یا خالی جگہوں کا خوف) ہے یا نہیں۔

آخر میں ان سمیت دو پائلٹس کو روس میں اختتامی ٹریننگ کے لیے چُن لیا گیا۔

لانچ سے ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل راکیش شرما اور رویش ملہوترا ماسکو سے 70 کلومیٹر دور سٹار سٹی گئے جو خلابازی کی ٹریننگ کے لیے ایک ہائی سکیورٹی ٹریننگ سینٹر تھا۔ انڈیا میں سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نہ یہاں خلابازی کی ٹریننگ حاصل کی۔

راکیش شرما

یہاں سردی بہت زیادہ تھی۔ وہ برف میں سے گزرتے ہوئے ایک عمارت سے دوسری عمارت جاتے تھے۔ راکیش کے مطابق یہ مشہورِ زمانہ ناول ڈاکٹر زواگو جیسے مناظر تھے۔

انھیں جلد روسی زبان سیکھنا پڑی کیونکہ اکثر ٹریننگ اسی زبان میں دی جاتی تھی۔ ان کے لیے روزانہ چھ سے سات گھنٹے روسی زبان کی کلاسز کا مطلب تھا کہ وہ تین ماہ میں ہی روسی زبان آسانی سے بولنے لگے تھے۔

انھیں روزانہ کی 3200 کیلوریز دی جاتی تھیں اور ان کی غذائی ضروریات میں مقامی کھانے شامل تھے۔

اولمپک ٹرینرز نے انھیں قوت، رفتار اور برداشت کے پیمانوں پر جانچا۔ یہ دیکھا گیا کہ ان کی چھاتی خلا میں موجود گریویٹیشنل فورسز کو سہنے کے لیے کتنی مضبوط ہے۔

ٹریننگ کے دوران راکیش کو بتایا گیا کہ ان کا انتخاب کیا گیا ہے اور ملہوترا بیک اپ یعنی متبادل کے طور پر موجود رہیں گے۔

راکیش کے مطابق ’یہ اتنی بڑی بات نہیں تھی۔ یہ اتنا مشکل نہیں تھا۔‘

مگر سائنس پر لکھنے والے پلاوا بگلا سمجھتے ہیں کہ راکیش کا مشن بہت بڑی کامیابی تھی۔

راکیش شرما

‘وہ ایسے ملک سے آئے تھے جہاں خلابازی کا کوئی پروگرام نہیں تھا۔ خلاباز بننا ان کا کوئی خواب نہیں تھا۔ لیکن یہ وہ نئے ماحول میں گئے، شدید موسم برداشت کیا، نئی زبان سیکھی اور بہت زیادہ ٹریننگ کی۔ وہ اصل ہیرو ہیں۔’

اور تین اپریل کو اُس وقت کے سوویت ریپبلک آف قزاقستان میں موجود ایک سپیس پورٹ سے راکیش نے ایک سوویت راکٹ میں دو روسی خلابازوں کے ہمراہ زمین سے خلا کی طرف اڑان بھری۔

کوئی پسینہ نہیں

راکیش کہتے ہیں کہ ’یہ ٹیک آف یا اڑان ایک بوریت سے بھری کارروائی تھی۔ اس وقت تک ہماری بہت زیادہ ٹریننگ ہو چکی تھی۔‘

‘میں خلا میں جانے والا 128واں انسان تھا۔ اس لیے مجھے کوئی پسینہ نہیں آیا۔’

راکیش ان خوش نصیب 500 سے زیادہ افراد میں سے ہیں جنھیں سنہ 1961 میں یوری گگارن کے مشن کے بعد سے خلا میں جانے کا موقع ملا ہے۔

میڈیا میں یہ بات ہوتی رہی کہ سوویت اور انڈیا کی دوستی کے لیے یہ مشترکہ مشن بہت بڑی کامیابی تھی۔ سوویت خبر رساں ادارے نے بتایا کہ راکیش کی والدہ، جو ایک ٹیچر ہیں، نے سوویت یونین میں ’کافی دلچسپی‘ کا اظہار کیا ہے۔ راکیش کے مطابق ’مشن سائنس کے لیے تھا مگر گھر پر اس کے سیاسی مقاصد نمایاں رہے۔‘

افسوسناک طور پر اندرا گاندھی کو آئندہ آٹھ مہینوں کے اندر اندر قتل کر دیا گیا اور ان کے بیٹے راجیو نے والدہ سے ہمدردی کی فضا میں سال کے اختتام تک الیکشن جیت لیے۔ کانگریس پارٹی کو انتخابات جیتنے کے لیے کامیاب خلائی مشن کو استعمال نہیں کرنا پڑا۔

راکیش اور دیگر نے خلا میں آٹھ روز گزارے۔ ٹی وی پر نشر ہونے والی دھندلی تصاویر میں تین خلابازوں کو گرے رنگ کے جمپ سوٹس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ ہوا میں تیر رہے ہیں اور سائنسی تجربات کر رہے ہیں۔

وہ ایسے پہلے انسان بن گئے جس نے خلا میں یوگا کیا۔ انھوں نے ایک سہارے کی مدد سے ہوا میں تیرنے سے خود کو روکا اور یہ تجربہ بھی کیا کہ آیا اس کی ٹریننگ سے مستقبل میں عملہ گریویٹی کے اثرات سے بچ سکے گا۔

راکیش

سارے جہاں سے اچھا۔۔۔‘

انھوں نے ایک لائیو لنک کی مدد سے ماسکو میں بیٹھے اپنے خاندان سے بات کی اور قارئین میں اس وقت 2500 افراد تھے۔

جب اس لائیو لنک پر اندرا گاندھی نے راکیش سے پوچھا کہ خلا سے انڈیا کیسا دکھتا ہے تو انھوں نے جواب میں کہا ’سارے جہاں سے اچھا۔‘ شاعر محمد اقبال کی یہ نظم وہ روز سکول میں قومی ترانے کے بعد پڑھا کرتے تھے۔

راکیش کہتے ہیں کہ ’میں یہی سوچ رہا تھا۔ اس میں کوئی قوم پرستی نہیں تھی۔ انڈیا خلا سے کافی خوبصورت دکھتا ہے۔‘

’آپ ایک بڑا ساحلی کنارہ دیکھ سکتے ہیں اور نیلا سمندر ملک کے تین اطراف پر موجود ہے۔ یہاں خشک سطح مرتفع، گھنے جنگل، بہتے دریا اور صحراؤں کی سنہری ریت ہے۔ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ جامنی رنگ کا نظر آ رہا تھا کیونکہ وادیوں میں سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی۔

‘وہاں برف سے ڈھکے پہاڑ نظر آ رہے تھے۔ سب کچھ ہی نظر آ رہا تھا۔’

راکیش شرما

خلا سے واپسی

نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ ’انڈیا میں ایک طویل عرصے تک اپنا سپیس پروگرام نہیں ہو گا۔ اگر ایسا ہی رہا تو شاید راکیش شرما کی جانب سے خلا میں سفر ایک مدت کے لیے انڈیا میں اپنی نوعیت کی واحد اڑان بن جائے گی۔‘

انڈیا کا ارادہ ہے کہ ایک دن یہ اپنی زمین سے اپنا راکٹ خلا میں بھیجے گا، جس میں اس کا اپنا شہری ہو گا۔ یہاں ممکنہ خلابازوں کی جانچ ہوئی ہے اور کامیاب تجربے کیے گئے تھے۔ لیکن مالی وسائل کی کمی ہے جس کی وجہ سے راکٹ بنانا، خلا بازوں کی ٹریننگ اور سہولیات قائم کرنا مشکل ہے۔

خلا میں سفر کے بعد راکیش شرما واپس طیارے کے پائلٹ بن گئے۔ وہ جیگوار کے علاوہ انڈیا کے اپنے ڈیزائن کردہ تیجاس لڑاکا طیارے اڑاتے تھے۔

پھر وہ بوسٹن میں قائم ایک کمپنی کے چیف آپریٹنگ افسر بن گئے جو طیاروں، ٹینکوں اور سب میرینز کے لیے سافٹ ویئر بناتی تھی۔

وہ خلا میں جانے والے انڈین ہیرو کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ انھوں نے اپنے لیے ایک خوابوں جیسا گھر بنایا جس میں ڈھلوان والی چھت، سولر ہیٹڈ باتھ روم، بارش کا پانی جمع کرنے کا نظام اور ہاتھ سے بنی اینٹیں استعمال ہوئی ہیں جبکہ یہاں ان کی پسندیدہ موسیقی موجود ہے۔

راکیش شرما

وہ اپنی اہلیہ مدھو کے ساتھ رہتے ہیں جو انٹیریئر ڈیزائنر ہیں۔ ان کے پاس کالی کے نام سے ایک کتا بھی ہے۔

ان کی زندگی پر بالی وڈ میں ایک فلم بننے جا رہی ہیں جس کا نام ’سارے جہاں سے اچھا‘ بتایا جا رہا ہے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ دوبارہ خلا میں جانا چاہیں گے؟

وہ کہتے ہیں کہ ‘ہاں ضرور، مجھے بہت اچھا لگے گا۔’ اس دوران وہ اپنی بالکونی سے پہاڑوں کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔

‘مگر اس بار میں سیاح بن کر جانا چاہوں گا اور زمین کی خوبصورتی کو دیکھنا چاہوں گا۔ وہاں بہت کام تھا، جب میں وہاں گیا تھا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *