راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ لاہور ہائی کورٹ نے ’دریائے راوی کے کنارے نئے شہر‘ کے منصوبے کو کالعدم قرار دے دیا
اہور ہائیکورٹ نے دریائے راوی کے کنارے نیا شہر بسانے کے منصوبے یعنی راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کو غیر آئینی قرار دے دیا ہے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس شاہد کریم پر مشتمل سنگل بینچ نے اس منصوبے کے خلاف دائر ہونے والی مختلف درخواستوں پر فیصلہ سُنایا جس میں کہا گیا ہے کہ منصوبے کی تکمیل کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
عدالت کے مطابق منصوبے کے لیے اراضی سنہ 1894 کے قانون کے برعکس حاصل کی گئی تھی۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ آئین کے تحت منصوبے کے لیے ترمیمی آرڈیننس قواعد و ضوابط پورے کرنے میں ناکام رہا ہے۔
اس منصوبے کے خلاف دائر درخواستوں میں اس پراجیکٹ کے لیے اراضی کے حصول میں قواعد کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ اس منصوبے کے ماحولیاتی اثرات کو نظر انداز کرنے کے بارے میں بھی نکات اٹھائے گئے تھے۔
عدالت نے درخواستوں پر گذشتہ ماہ کی 21 تاریخ کو دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا اور منگل کو یہ فیصلہ سُنایا گیا ہے۔
پنجاب حکومت نے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی جائے گی۔
ان کے بقول عدالتی فیصلے کے خلاف دادرسی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جائے گا۔
سی ای او راوی اربن ڈیویلپمنٹ اتھارٹی عمران امین کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں اور روڈا پراجیکٹ کے حوالے سے عدالت عالیہ کے فیصلے کو قانونی طور پر دیکھ رہے ہیں، آئینی ماہرین ٹیم کی اس پر مشاورت بھی جاری ہے اور ریلیف کے لیے ہم عدالت عظمی بھی جا سکتے ہیں۔
روڈا دفتر میں معاون خصوصی وزیر اعلی پنجاب حسان خاور سے ملاقات کے بعد مشترکہ بیان میں عمران امین کا کہنا تھا کہ عدالت کے اس فیصلے کو میڈیا میں غلط طور پر پیش کیا گیا جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ میں روڈا کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے اور پراجیکٹس کو بہتر طور پر چلانے کی ہدایات کی گئیں ہیں۔
حسان خاور کا کہنا ہے کہ ہم عدالتی احکامات پر عملدرآمد کریں گے اور روڈا عدالتی فیصلے کی روشنی میں اپنا کام جاری رکھے گا۔ یہ منصوبہ ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لیے ایک سنگ میل ہے اور ہم وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلی سردار عثمان بزدار کے وژن کی روشنی میں عالمی معیار کی سہولتوں سے مزین شہر بسا رہے ہیں۔
مراسلے میں حسن خاور کے حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ بڑے شہروں میں آبادی کی روک تھام، ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے روڈا جیسے منصوبے نہایت ضروری ہیں۔
اپنے بیان میں سربراہ روڈا کا مزید کہنا ہے کہ راوی شہر کے نئے پراجیکٹ، چہار باغ پر ترقیاتی کام زور وشور سے جاری ہے جس سے پاکستان کے شہریوں کو عالمی سطح کا معیار زندگی ملے گا مزید براں یہ منصوبہ ملکی خزانہ کے لیے اربوں ڈالر کی آمدن اور لاکھوں افراد کے لیے روزگار پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔
جسٹس شاہد کریم نے درخواستوں پر فیصلہ سُناتے ہوئے ’روڈا ایکٹ‘ کی کئی دفعات کو غیرقانونی قرار دیا اور باور کروایا کہ روڈا قانون کے تحت ماسٹر پلان ترتیب نہیں دیا گیا۔
جسٹس شاہد کریم نے فیصلے میں قرار دیا کہ ماسٹر پلان کے بغیر بنائی گئی کوئی بھی سکیم غیر قانونی ہوتی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ کا ماسٹر پلان ہی بنیادی دستاویز ہے اور تمام سکیمز ماسٹر پلان کے ہی طابع ہوتی ہیں۔
عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ زرعی اراضی کو ایک باقاعدہ قانونی طریقہ کار یعنی لیگل فریم کے تحت ایکوائر کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اراضی حاصل کرنے کے لیے جاری کردہ نوٹیفکیشن کی حیثیت بھی غیرقانونی ہے کیونکہ لاہور اور شیخوپورہ میں زمین ایکوائر کرنے کے لیے قانون پر عمل نہیں کیا گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ روڈا اتھارٹی پنجاب حکومت سے حاصل کردہ قرضہ دو ماہ میں واپس کرے۔
راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کیا ہے؟
راوی اربن ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے منصوبے کا سنگ بنیاد سات اگست 2020 کو رکھا گیا تھا اور اس کا افتتاح وزیر اعظم عمران خان نے گذشتہ سال ستمبر میں کیا تھا۔ اس منصوبے کا کل رقبہ ایک لاکھ دو ہزار ایکٹر پر محیط تھا۔
حکومت پنجاب کی جانب سے جب یہ منصوبہ شروع کیا گیا تو اعلان کیا گیا کہ اسے تین فیز میں مکمل کیا جائے گا۔
پہلے فیز کے لیےحکومت کی جانب سے ضلع شیخوپورہ کی تحصیل فیروز والا کے ارد گرد کے 16 دیہاتوں میں تقریباً 4,300 ایکڑ سے زیادہ اراضی حاصل کی گئی تھی۔
نقشے کے مطابق منصوبے کے فیز ون کا کل رقبہ 22,705 ایکڑ پر مشتمل ہے جس میں دریائے راوی کے بائیں کنارے پر واقع 9,515 ایکڑ، اس کے دائیں کنارے پر 7,034، دریا کے کنارے پر 6,156 ایکڑ، 2,200 ایکڑ پر پھیلا جزیرہ اور 612 ایکڑ پر پھیلی ہوئی بستیاں شامل ہیں۔
ان علاقوں کے رہائشیوں اور زرعی زمین کے مالکان کی جانب سے یہ مؤقف سامنے آیا تھا کہ وہ اپنی زمین کو اس پراجیکٹ کے لیے دینے پر رضامند نہیں ہیں۔ انھوں نے الزام عائد کیا تھا کہ حکومت کی جانب سے ان پر اس بارے میں دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
علاقے کے کسانوں اور روای پراجکٹ سے متاثر ہونے والے دیگر افراد کی جانب سے احتجاج بھی کیے گئے تھے لیکن اس کے باوجود بھی اس پراجیکٹ پر کام رہا۔
دوسری جانب حکومت پنجاب کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا کہ اس پراجیکٹ کی وجہ سے تقریباً 80 لاکھ لوگوں کے لیے رہائش اور 20 لاکھ لوگوں کے لیے نوکریاں پیدا کی جا سکیں گی۔
حکومت نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس منصوبے پر تین بیراج بنائے جائیں گے جو مجموعی طور پر پانچ لاکھ 85 ہزار کیوسک پانی سٹور کر سکیں گے۔
وزیراعظم عمران خان نے اس پراجیکٹ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پراجیکٹ سے لاہور کے زیر زمین پانی کی سطح کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’یہاں ایک جھیل بنانے کا منصوبہ بھی ہے جس سے اسے مکمل ’ایکو سسٹم‘ کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں 60 لاکھ پودے بھی لگائے جائیں گے اور 18 لاکھ رہائشی یونٹس تعمیر ہوں گے۔‘
یاد رہے کہ اس سے قبل سنہ 2014 میں سابق وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی جانب سے بھی اسی پراجیکٹ کے حوالے سے فیزیبیلٹی رپورٹ تیار کروائی گئی تھی لیکن اس پر مزید کام حکومت کہ طرف سے روک دیا گیا تھا۔