راجاؤں، مہاراجوں کا کھیل
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ٹورنامنٹ بڑے مقابلوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور ان میں سب سے بڑا معرکہ، پاکستان کا انڈیا سے میچ، بس دو دن کی دوری پر ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کا جنون اپنے عروج پر ہے اور ہر پاکستانی اپنے من پسند کھیل اور کھلاڑیوں کے بارے میں اپنی مستند رائے سے مسلح ہر قسم کی بحث میں کودنے کو تیار بیٹھا ہے۔
ایسے میں شاندار ماضی کے پردے کی اوٹ سے جھانکنا ایک عام سی بات ہے۔
پاکستان ‘سرپھرے‘ یونس خان کی قیادت میں ایک بار ٹی ٹوئنٹی ورلڈ چیمپیئن رہ چکا ہے۔ پاکستانیوں کی تمام تر سنہری یادوں کا محور 1992 کا وہ ایک روزہ ورلڈ کپ ہے جو کہ ہماری قوم نے اپنے قائد عمران خان کی قیادت میں جیتا تھا۔
کیا دن تھے وہ بھی۔۔۔جنوں پریوں کی کہانی کی طرح پاکستان ڈگمگاتا چلتا گیا حتی کے انگلستان سے ایک میچ کے دوران ‘آسمانی’ مدد رونما ہوئی، یعنی اس وقت بارش نے ہمیں بچا لیا جب ہماری ہار سامنے نظر آ رہی تھی۔
ہمارے استاد امتیاز سپرا مرحوم 1992 کی کایا پلٹ کو اپنے اس کالے شلوار قمیص سے مشروط بتاتے تھے جس کا زیب تن کرنا پاکستان کی یقینی فتح کے لیے انتہائی ضروری تھا۔
نا صرف یہ بلکہ استاد محترم کے اس سیاہ لباس کے جادو کا اس قدر چرچا تھا کے ان کے بقول پاکستانی ٹیم کی اکثر کھلاڑی ہمہ وقت مبینہ سوٹ پر استری کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ بس استاد محترم وہ لباس پہنتے تھے اور مخالف ٹیم کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا تھا۔
آج کل اس طرح کے امکانات پہ گفتگو کرنا خوا مخواہ بنی گالہ سے جاری حکومت پر انگلی اٹھانے کے زمرے میں آسکتا ہے لہذا ہم اپنی بات چیت کو 1992 کی عظیم الشان جیت اور اس میں ملوث ایک دو چہروں پر ہی مرکوز رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یقیناً اس جیت کا سب سے زیادہ کریڈٹ محترم عمران خان کو جانا چاہیے تھا اور ایسا ہی ہوا۔ جہاں اور کھلاڑیوں کی اپنے گھر بنانے کی خواہش اس ورلڈ کپ جیتنے کے بعد بڑی شان سے پوری ہوئی وہاں توقعات کے عین مطابق خان صاحب نے ایک ایسا کینسر ہسپتال قائم کیا جس کے لیے ہم ان کا جتنا بھی شکریہ ادا کریں کم ہے۔
1992 کے اس ٹورنامنٹ میں ہمارا سب سے پہلے نمایاں ہونے والا نام رمیز راجہ تھا۔ جی ہاں رمیز عرف ’ریمبو‘ نے ٹورنامنٹ کے آغاز میں ہی سینچری بنا کر یہ خبر دے دی تھی کے یہ ورلڈ کپ ان کے کیرئر کا سب سے خاص لمحہ ہو گا جس کی داستانیں نسلوں تک سنائی جائیں گی۔
یہ الگ بات ہے کہ برائن لار کے اٹیک کی بدولت ویسٹ انڈیز نے وہ میچ بے حد آسانی سے جیت لیا تھا مگر رمیز راجہ کی اننگز سے یہ بات صاف ہو گئی کہ خان صاحب کا 220 رنز کر کے بولنگ کی بدولت جیتنے والا فارمولا اب ذرا مشکل ہو گیا تھا۔
اب کوئی تیس چالیس رنز اور چاہیے تھے اور ساتھ میں وسیم اکرم کی انگلیوں پہ ناچتی کرکٹ بال اور ساتھ میں عاقب جاوید اور مشتاق احمد کے کمالات۔
بعد کے ایک میچ میں نیوزی لینڈ کے خالف ایک سینچری بنا کر رمیز راجہ نے اپنی افادیت ثابت کر دی تھی اور اگر مجھے صحیح یاد ہے تو وہ آخری کیچ جس نے پاکستان کو ورلڈ چیمئن بنایا وہ بھی رمیز صاحب نے ہی پکڑا تھا جبکہ بولر عمران خان خود تھے۔
عین ممکن ہے کہ کھیل کے میدان میں ساتھ گزارے یہ لمحات اس وقت خان صاحب کو فیصلہ کرنے میں معاون رہے ہوں جب انھیں احسان مانی اور رمیز راجہ میں سے کسی ایک کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ چننا تھا۔
یہ بات بہرحال طے ہے کہ عمران خان کسی کرکٹر راجہ سے 1992 یا 2021 سے بہت پہلے سے مرعوب تھے۔
یہ واقعہ دہرانے کی مجھے کچھ عادت سی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہاں ایک کرکٹر جس کی کھلاڑی کی حیثیت مسلمہ ہے ہمارے ایک بہت پسندیدہ بلکہ ایک انتہائی دلربا شخصیت تھے۔ جی ہاں یہاں اشارہ اسی رائے کی کی طرف ہے جو خان صاحب نے ’وڈے تے اوریجنل راجہ‘ یعنی وسیم حسن راجہ کے بارے میں اپنی اولین کتاب میں ظاہر کی تھی۔
کپتان اس وقت سترہ، اٹھارہ کے رہے ہوں گے جب وہ حیران و پریشان تھے یہ جان کر کہ زمان پارک کہ باہر بھی کوئی اس طرح کھیل سکتا ہے جیسا انھوں نے اس راجہ کو اس وقت ایک ٹرائل کے دوران کھیلتے دیکھا۔
وہ دیو مالائی کرداروں کی تخلیق کے دن تھے۔ جہاں ہمیں خان صاحب کی پھینکی ہوئی بال کی سنسناہٹ تمام تر شور کو چیرتے ہوئے آدھا کلومیٹر دور تک سنائی دیتی تھی وہیں جب بڑے بھائی نے یونیورسٹی گراؤنڈ سے واپسی پر وہاں بیٹھ کر ایک میچ سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتے ہوئے ایک بزرگ کا تبصرہ سنایا تو ہمارا دل فوراً اس پر یقین کرنے کو چاہا۔
’ایہہ وی کوئی کھیڈ دے نیں؟ اصل کھیڈ دا سی وسیم راجہ۔ کدیہہ گیند لیڈی میکلیگن جا رئی اے، کدے گیند مدرستہ البنات جا رئی اے۔‘
لاہور کے باسی لڑکیوں کے مندرجہ بالا سکولوں کے یونیورسٹی گراؤنڈ تک فاصلوں سے تو واقف ہوں گے ہی، وہ داد کے معاملات میں لاہوریوں کی اس عادت سے بھی محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے جو انھیں بار بار زیب داستاں سے رجوع کرنے پر اکساتی ہے۔
خاص طور پر کرکٹ کے راجوں مہاراجوں کے باب میں کیے گئے تمام دعوے جائز ہیں۔
مجھے کچھ خاص علم نہیں کہ ہر دلعزیز وسیم راجہ اور ہمیشہ سنجیدہ لگنے والے عمران خان کے آپس میں کیسے تعلقات تھے مگر کچھ ایسا یاد پڑتا ہے کہ راجوں اور خانوں میں پہلے نظر کی پسندیدگی صرف عمران اور وسیم تک محدود نہیں تھی۔
ان کے منظر پہ آنے کے بہت دنوں بعد جب رمیز راجہ کو پاکستان کے انیس سال سے کم کھلاڑیوں کی کپتانی کرتے دیکھا تو خیال ہوا کے شعوری یا غیر شعوری طور پر یہ نوجوان ایک اور بڑے زمان خانی کرکٹنگ خان، ماجد، جہانگیر خان سے متاثرلگتا تھا۔
خاص طور پر وہ سفید فلاپی ہیٹ جو ماجد خان کی شخصیت سے مستقل طور پہ جڑ گیا تھا۔ یہ تاثر کافی دنوں تک میرے ساتھ رہا حتی کہ رمیز راجہ نے اپنے کھیل کے انداز سے اس کو بدلا۔
ماجد، عمران، وسیم اور رمیز چار پڑھے لکھے کھلاڑی لاہور کے ایلیٹ حلقوں میں نمو پانے والے (یہ الگ بات کہ خانوں کا حلقہ راجوں کے مقابلے میں بہت پہلے اشرافیہ کا سرٹیفیکیٹ حاصل کر چکا تھا اور اس وقت بھی خواص میں نمایاں تھا۔)
ہمیشہ کہا جاتا رہا کہ کرکٹ بورڈ کا کرتا دھرتا ایک ایسا پڑھا لکھا ہونا چاہیے جو خود کھلاڑی بھی رہا ہو یا پھر ایسا کھلاڑی جو پڑھا لکھا ہو اور اتفاق سے انتظامی امور کی رمزیں جانتا ہو۔
ماجد خان کے علاوہ رمیز راجہ بھی کئی برس پہلے پی سی بی کے منتظم رہ چکے ہیں۔ کہا جاتا تھا کے جنرل توقیر ضیا، جو اس وقت بورڈ کے سربراہ تھے، چیف ایکزیکٹو رمیز کے کام سے خاصے خوش تھے۔
عمران آپ کے سامنے ہیں، رہ گئے وسیم راجہ، تو ان جیسے انٹرٹینر اور اسٹیبلشمنٹ مخالف اور باغی طبیعت کے شخص سے ہمیں کبھی یہ امید نہ تھی کہ وہ کسی سرکاری قسم کی کارروائی میں ملوث ہوں گے۔
وہ خاصے منھ پھٹ آدمی تھے جنھوں نے انڈیا کے ایک دورہ کے بعد ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سیریز کا نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا اگر امپائر مختلف ہوتے۔
وسیم راجہ جو 50 اوورز کے کھیل کے لیے انتہائی موزوں سمجھے جاتے تھے کئی ورلڈ کپ مقابلوں میں پاکستان کے لیے کھیلے مگر ایک روزہ کرکٹ کے چیمئن کا تاج ان کے چھوٹے بھائی اور ایک ایسے ہم عصر کے سر پہ سجا جس نے برسوں پہلے وسیم کو دیکھ کر انگلی دانتوں میں دبا لی تھی۔
اب یہ دونوں اشخاص، رمیز راجہ اور عمران خان، پاکستان کرکٹ کی بہتری کی ذمہ داری لیے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں رمیز راجہ عالمی کرکٹ میں انڈین سامراجی کی طرف واضح اشارہ کرتے سنائی دیے۔ کیا پتہ رمیز کے پہلو میں یہ چنگاری راجاؤں کی بیباکی کی واپسی کی طرف اشارہ ہو؟