دہشت گردی کے خلاف جنگ کیا اب بڑی فوجی تعیناتیوں کا دور ختم ہو رہا ہے
رواں ماہ مغربی ممالک کی افواج افغانستان سے نکلنے کے لیے ریس لگا رہی ہیں۔ فرانس نے مالی میں اپنی افواج میں نمایاں کمی کا عندیہ دیا ہے جبکہ عراق میں برطانوی اور دیگر مغربی افواج کا اب کوئی بڑا جنگی کردار نہیں رہ گیا ہے۔
صدر جارج ڈبلیو بش کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کے بیس سال بعد کیا اب دور دراز کے علاقوں میں فوجیوں کی بڑی تعیناتیوں کا دور ختم ہو رہا ہے؟
اس کا جواب ہے ابھی نہیں۔ کیونکہ ابھی ساحل یعنی شمال میں افریقہ کے صحرا سے لے کر جنوب میں سوڈان کے سوانا تک کے علاقے میں جہادیوں سے لڑنے کے لیے ابھی بھی خاطر خواہ عزائم نظر آتے ہیں۔ تاہم اب ان مشنز کو کس طرح انجام دیا جائے اس کے متعلق بنیادی سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔
بڑے پیمانے پر طویل مدتی تعیناتیاں بہت مہنگی ثابت ہوئی ہیں۔ ان میں جانی و مالی نقصانات کے ساتھ ملکی سطح پر سیاسی نقصانات بھی سامنے آئے ہیں۔
افغانستان میں امریکہ کے زیرقیادت فوج کی تعیناتی پر ایک کھرب ڈالر سے زیادہ کا خرچ آیا ہے اور ہزاروں جانیں ضائع ہوئی ہیں جن میں افغان افواج، افغان شہری، مغربی افواج کے اہلکار اور ان کے باغی دشمن سب شامل ہیں۔
سنہ 2010 میں اپنے عروج کے زمانے میں افغانستان میں مغربی فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ تھی جو کہ سب سے زیادہ تھی جبکہ اب 20 سال بعد وہاں کچھ ہزار فوجی باقی رہ گئے ہیں اور وہ بھی وہاں سے جلد نکلنے کی تیاری میں ہیں کیونکہ بظاہر طالبان کا زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قبضہ ہوتا جا رہا ہے۔
دکھتی رگ
عسکریت پسندی کا مقابلہ کرنے میں جتنا زیادہ طویل عرصہ لگے گا اور جتنے زیادہ فوجی شامل ہوں گے وہ ممکنہ طور پر اتنی ہی پریشانیوں کا سبب ہوگا۔
ان میں سب سے واضح جانوں کے ضیاع کی شرح ہے اور یہ ایک ایسا رجحان ہے جو فوجی بھیجنے والے ممالک کے لیے ‘دکھتی رگ’ ثابت ہو سکتی ہے۔
ویتنام کی جنگ میں 58 ہزار سے زیادہ امریکی اور افغانستان میں 15 ہزار کے قریب سوویت فوجی مارے گئے تھے اور یہی وہ عوامل رہے جن کی وجہ سے ان مہموں کو جلد ہی ختم کرنا پڑا۔ فرانس نے مالی میں سنہ 2013 سے اب تک صرف 50 سے کچھ زیادہ فوجی کھوئے ہیں لیکن فرانس میں اس کے مشن نے بڑی حد تک اپنی حمایت کھو دی ہے۔
اس کے علاوہ مالی اخراجات ہوتے ہیں جو مستقل طور پر اندازے سے بڑھتے جاتے ہیں۔
جب سعودی عرب نے سنہ 2015 میں یمن کی خانہ جنگی میں مداخلت کا آغاز کیا تھا تو اس نے کبھی بھی یہ توقع نہیں کی تھی کہ چھ سال بعد بھی اسے وہاں لڑنا پڑے گا۔ سعودی خزانے سے اس پر ابھی تک 100 ارب ڈالر کا خرچ آ چکا ہے۔
انسانی حقوق سے متعلق تشویش بھی فوجی مہم کو پٹری سے اتار سکتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب اس کی سب سے کم توقع کی جارہی ہو۔
امریکی فضائی حملوں میں افغان شادیوں کی پارٹیوں کو نشانہ بنایا جانا ہو یا پھر یمن میں سعودی ہوائی حملوں میں عام شہریوں کی ہلاکت ہو یا پھر وہاں متحدہ عرب امارات کے اتحادیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیال ہوں ان سب کی وجہ سے ان ممالک کی ساکھ پر بڑا اثر پڑا ہے۔
متحدہ عرب امارات کو یمن کی جنگ سے دستبرداری کا اشارہ کرنے میں قیدیوں کی موت اہم وجہ بنی جہاں سے جہاز کے اندر بند کنٹینروں میں قیدیوں کی موت کی کہانیاں باہر آئیں۔
پھر یہ امکان بھی موجود رہتا ہے کہ کہیں میزبان حکومت کو دشمن کو اقتدار میں شراکت دار نہ بنانا پڑ جائے۔
مالی میں ایسی اطلاعات ہیں کہ حکومت جہادیوں کے ساتھ خفیہ طور پر بات چیت میں مصروف ہے جو کہ صدر ایمینوئل میکخواں کی جانب سے فرانسیسی فوج کے مکمل انخلا کی دھمکی کا سبب بنی ہے۔
عراق کی صورت حال کے متعلق برطانوی فوج کے ریٹائرڈ کرنل جیمز کنلیف کا کہنا ہے کہ وہاں ‘ابھی بھی ایران اور بطور خاص شیعہ جنگجو کے اثر و رسوخ کے بارے میں بہت حد تک تشویش پائی جاتی ہے۔’
افغانستان میں جس طالبان کو سنہ 2001 میں اقتدار ہٹا دیا گیا تھا اب انھی کی واپسی متوقع ہے۔ مغربی سکیورٹی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر وہ حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں تو افغانستان کو ملنے والے انٹلیجنس کے تمام تعاون ختم ہوجائیں گے۔
کوئی سہل جواب نہیں
یہ واضح ہے کہ ناکام ریاستوں اور خطرناک آمروں کے مسئلے کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔ آئیے کچھ حالیہ مثالوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
- عراق، سنہ 2003 سے اب تک: برطانیہ کے تعاون کے ساتھ امریکہ کے زیرقیادت بڑے پیمانے پر فوجی یلغار ہوتی ہے اور اس کے بعد برسوں تک قبضہ اور خونی بغاوت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ حالیہ پیشرفت کے باوجود اس پوری کوششوں کا تجربہ اس قدر خوفناک رہا کہ مشرق وسطی میں بڑے پیمانے پر فوجی مداخلت سے سیاستدان کم از کم ایک نسل یا اس سے زیادہ دنوں تک دور رہیں گے۔
- لیبیا، سنہ 2011 سے آج تک: نیٹو کی جانب سے مختصر عرصے تک نو فلائی زون کا نفاذ کیا گیا لیکن وہاں بڑے پیمانے پر مغربی ممالک کے فوجیوں کو زمین پر نہیں اتارا گیا۔ یہ سنہ 2011 میں قذافی کا اقتدار ختم کرنے کے لیے کافی تھا۔ لیکن اس کے بعد یہ ملک خانہ جنگی اور جہادی شورش کا شکار ہوگیا۔ ابتدائی طور پر لیبیا نے اظہار تشکر کیا لیکن پھر مغربی ممالک کی جانب سے ‘ترک’ کیے جانے پر ناراض ہوگیا۔
- شام، سنہ 2011 سے اب تک: مغربی طاقتیں صدر بشار الاسد اور شامی باغیوں کے درمیان خانہ جنگی میں شامل ہونے میں انتہائی تذبذب کا شکار رہی ہیں۔ بڑی طاقتوں میں روس، ایران اور ترکی ہی پر اس خانہ جنگی میں شریک ہوئے۔ تشدد کے دس سال ہوچکے ہیں اور وہاں اب بھی تشدد کی دھیمی آنچ موجود ہے۔
- نام نہاد انتہاپسند گروپ دولت اسلامیہ، 2014 سے 2019 تک: یہ 80 فوجی اتحادیوں کے ساتھ فوجی کامیابی کی ایک واضح کہانی ہے کہ کس طرح نام نہاد دولت اسلامیہ کی سفاکیوں اور دوسروں کو تکلیف دے کر خوش ہونے کی خواہش کرنے والوں کو ختم کیا گیا۔ لیکن اس میں پانچ سال لگے اور انھوں نے تباہ کن فضائی حملوں پر اور زمینی جنگ میں عراق میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے کچھ عجیب و غریب اتحاد پر بہت زیادہ انحصار کیا۔ دولت اسلامیہ اب افریقہ میں اپنی کاروائیاں تیز کر رہا ہے۔
- مالی، 2013 سے اب تک: ابتدائی طور پر فرانسیسی فوجی مداخلت کی وجہ سے دارالحکومت باماکو یقینی طور پر القاعدہ سے وابستہ جہادیوں کے ہاتھوں جانے سے بچا لیا گیا۔ لیکن آٹھ سال گزرنے کے اور ہزاروں مختلف ممالک کے فوجوں کی موجودگی کے باوجود وہاں شورش جاری ہے اور فرانس کے صدر نے مالی کے حکمرانوں سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے وہاں سے واپسی کا عندیہ دیا ہے۔
مستقبل
لہذا اب اگر بڑی بڑی کھلی ہوئی فوجی تعیناتیوں کا زمانہ نہیں رہا ہے تو پھر ان کی جگہ کیا ہوگا؟
برطانیہ کے چیف آف جنرل سٹاف، جنرل سر مارک کارلٹن اسمتھ کی دو جون کو رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی لینڈ وارفیئر کانفرنس میں دی گئی تقریر میں اس جانب ایک اشارہ ملتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آج کی فوج ‘زیادہ نیٹ ورک سے جڑی، زیادہ مہماتی اور زیادہ تیزی سے تعینات کی جانے والی، ڈیجیٹل طور پر زیادہ مربوط، اور خصوصی آپریشن بریگیڈ پر مبنی ہوگی۔’
اس مطلب یہ ہوگا کہ زمین پر کم فوجی اتریں گے اور اس کے لیے مصنوعی ذہانت سمیت جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی پر زیادہ انحصار ہوگا۔
حالیہ جنگوں سے سامنے آنے والے رجحانات نے اسٹریٹجک ترجیحات پر از سر نو غور کرنے پر زور دیا ہے۔ قفقاز میں آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین ہونے والی مختصر جنگ میں دیکھا گیا کہ کس طرح ترکی کے ذریعہ فراہم کردہ سستے، بغیر پائلٹ والے مسلح ڈرون کے ذریعہ ٹینکوں کا خاتمہ ہو رہا ہے اور آپریٹرز کو کسی بھی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔
کبھی جن فوجیوں کو پرانے افریقی طرز کا لڑاکا سمجھا جاتا تھا اب وہ واپسی کررہے ہیں۔
یہاں اس کی سب سے واضح مثال روس کا ظلی ویگنر گروپ ہے جس نے ماسکو کو ‘قابل قدر تردید’ کی گنجائش دے رکھی ہے جبکہ وہ لیبیا سے لے کر مغربی افریقہ اور موزمبیق تک تنازعات والے علاقوں میں بلا روک ٹوک کام کر رہا ہے۔ واشنگٹن میں قائم اٹلانٹک کونسل کے سینیئر فیلو ڈاکٹر شان میکفیٹ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ‘ریاست پر مرکوز عالمی نظم و نسق ہے جو ریاستوں کے لیے بغیر جنگ کے راہ ہموار کررہا ہے۔’
اس میں سے کسی کا مقصد بیرون ملک میں فوجی مشنوں کا خاتمہ کرنا نہیں ہے۔
عراق میں نیٹو مشن انسداد شورش والی مقامی فورس کو تربیت اور انھیں تکنیکی معاونت فراہم کرتا رہے گا۔
تاہم افغانستان میں ایک ایسے وقت میں افق سے مغربی افواج کی موجودگی ختم ہوتی جارہی ہے جب طالبان، القاعدہ اور دولت اسلامیہ کے مشترکہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اس کی سب سے زیادہ ضرورت پڑسکتی ہے۔