دودھ، بلی اور جمہوریت
بات تجزیوں، تبصروں سے آگے کی ہے۔ تجزیے مشکوک حالات میں غیر واضح لکیروں کو تصویر کی شکل دیتے ہیں، جہاں سب واضح ہو مگر پھر بھی نقطہ نظر نہ ہو تو ایسے حالات کو کیا کہا جائے۔ بیانیے کی جنگ میں نظریے فراموش کر دیے جائیں تو محض مصلحتیں بچتی ہیں۔
جس طرح ملک 75 برسوں سے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے بالکل اسی طرح سیاسی بے یقینی اور عدم استحکام بھی ختم ہونے کو نہیں دے رہے۔ یقین ہی نہیں آتا کہ بے یقینی کیسے ختم ہو گی اور بے یقینی ہے کہ یقین آنے ہی نہیں دیتی۔
ہم جمہوریت کی جدوجہد کرتے آمریت کی جانب بڑھ جاتے ہیں اور آمریت کو ختم کرتے کرتے مزید آمریت کو جنم دے دیتے ہیں۔
سیاسی و جمہوری دور میں سیاسی آمریت اور فوجی ادوار میں لنگڑی لولی جمہوریت کی تگ و دو نے سیاست کو مصلحت اور ریاست کی طاقت کا عادی بنا دیا ہے۔
اول تو یہاں انقلاب آ نہیں سکتے آئیں تو گیٹ نمبر چار سے آگے بڑھ نہیں سکتے۔ دُنیا میں ہماری مثال کہاں ہے جو ایک صفحے سے کئی صفحے نکال لیتے ہیں اور اصل آئین کے صفحوں کو اکثر بھول جاتے ہیں۔
مملکت میں ایک بار پھر انتخابات کا چرچا ہے۔ سیاسی جماعتیں گذشتہ چار برس میں 35 سال کی منصوبہ بندی کرنے والے تین کرداروں کو بھلے رخصت کر چکیں مگر آئندہ 15 سال کے خواب بُننے کی خواہش میں ہر وہ کام کرنے کی کوشش میں ہیں جو انھیں طاقت کے مرکز کے قریب ترین لے جائے۔
اس کی ایک مثال گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی قانون سازی ہے جو اس طرح منظور کروانے کی کوشش کی گئی کہ گذشتہ پارلیمنٹ کی یاد تازہ ہو گئی۔۔۔ جب آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے سیاسی جماعتیں پاؤں سے بھی انگوٹھے لگانے کو تیار نظر آتی تھیں۔
گذشتہ پارلیمنٹ میں ایک صفحے کے قانون ساز ریٹائرڈ کرنل صاحب مختارِ کُل تھے تو اس وقت یہ کام حکمران اتحاد کے تجربہ کار جمہوریت پسندوں کے ہاتھوں انجام پا رہا ہے۔
موجودہ حالات میں سیاسی اُفق پر خدشات، بے یقینی اور خوف کے گہرے سائے ہیں۔ اسلام آباد کے چائے خانوں اور ڈرائنگ رومز میں یہ بحث بے نتیجہ ختم ہو رہی ہے کہ اگر نگران سیٹ اپ ٹیکنوکریٹ کے حوالے ہوا تو انتخابات کے امکانات معدوم ہو جائیں گے جو تین سے چھ ماہ اور پھر چند برسوں تک کے خدشات کو بڑھا رہے ہیں۔
نگران سیٹ اپ کا آغاز کس سیاسی جماعت کا انجام ثابت ہو گا؟ مائنس ون کی بجائے مائنس تھری کا امکان بڑھ نہ جائے؟ سیاسی پنڈت اس بارے کُنڈلیاں جوڑتے اور فالیں نکالتے نظر آتے ہیں۔
ہمیشہ کی طرح باہر سے آنے والے پنڈی کی جانب رُخ کئے ہوئے ہیں جبکہ نو مئی سے قبل سیاست دانوں پر تکیہ کرنے والی طاقتیں پہلے سے کہیں زیادہ طاقتور نظر آتی ہیں۔ ان خدشات میں اگر کوئی جماعت یہ سوچ رہی ہے کہ کسی ایک سیاسی جماعت سے چھٹکارا پا کر کامیابی مل سکتی ہے تو اسے محض خام خیالی ہی کہا جا سکتا ہے۔
جو کچھ جمہوریت اور سیاسی نظام کے ساتھ ہوا ہے اُس کا سدباب کرتے کرتے نظام ہی مشکوک ہو چکا ہے۔ جمہوریت کی حفاظت سیاسی نظریوں نے کرنا تھی مگر نظریے بیانیوں کی نذر ہو گئے ہیں۔ دودھ کی رکھوالی بلی سے کروانے والے کسی طور کھیر نہیں کھا سکتے۔
یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ معیشت کی بحالی ترجیح ہونی چاہیے اور یہ بات بھی اپنی جگہ درست کہ خلیجی ممالک ہوں یا ہمسائے کی سپر پاور سب کو استحکام اور کمٹمنٹ صرف ایک ادارے سے چاہیے۔۔۔ ایسا کیوں ہے کہ گارنٹی صرف جی ایچ کیو کی ہی درکار ہے جو بظاہر سیاسی نظام کی کمزوری کی نشاندہی کر رہی ہے۔
انتخابات مسئلہ نہیں مگر مسائل کا حل ضرور ہیں، انتخابات کے لوازمات مملکت کو جنجھوڑ اور نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ہم تنازعات کے متحمل کسی طور نہیں مگر آئینی ضروریات کو پورے کئے بغیر آگے کیسے بڑھا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی، پی ایم ایل این اور پی ڈی ایم کی دیگر جماعتیں سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر عوامی رابطے کی جانب نا بڑھیں تو ایسا نہ ہو کہ آئندہ چند ماہ میں تحریک انصاف سمیت سب جماعتیں انتخابات کے لیے ہم آواز دکھائی دیں۔
نہلے پہ دہلا ہائبرڈ سے پختہ اور مہر رسیدہ ہائبرڈ نظام کسی طور سیاسی ماحول کے لیے مناسب نہ ہو گا۔۔ باقی راہ پیا جانے تے واہ پیا جانے۔