9/11 دنیا کو ہلا دینے والے نائن الیون حملوں کا سہولت کار رمزی الشبہ کراچی سے کیسے پکڑا گیا؟
دھم سے گرنے والی اُس چیز پر اس وقت تک کسی کا دھیان ہی نہیں گیا جب تک وہ دھماکے سے پھٹ نہ گئی اور یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ ایک دستی بم تھا۔ مگر اندازہ ہوتے ہوتے بہت دیر ہو چکی تھی اور اُس دستی بم کے دھماکے میں میجر محسن زخمی ہو چکے تھے۔ ہم سب جو اوپر چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے، گھبرا کر جان بچانے کے لیے واپس نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگے۔‘
پولیس افسر کو جیسے آج بھی سب کل کی بات کی طرح یاد تھا حالانکہ وہ ٹھیک 19 برس پرانا واقعہ مجھے سنا رہے تھے۔
اب پاکستان سے باہر مقیم یہ افسر دراصل امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کے منصوبہ سازوں میں سے ایک اور اس حملے کی ذمہ دار قرار دی جانے والی شدّت پسند تنظیم القاعدہ کے ایک اعلیٰ سطح کے رہنما رمزی بن الشبہ کی گرفتاری کا واقعہ سنا رہے تھے۔
رمزی الشبہ کی یہ گرفتاری نائن الیون حملوں کے ٹھیک ایک برس بعد یعنی 11 ستمبر 2002 کو کراچی کے متموّل علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز II سے عمل میں آئی تھی۔
یہ افسر گرفتاری کی اس کارروائی میں شریک تھے اور تب میں ایک ہی برس قبل لانچ ہونے والے پاکستان کے پہلے نیوز چینل جیو نیوز کا کرائم رپورٹر تھا۔
اس سے پہلے کے ہم رمزی بن الشبہ کی گرفتاری کے واقعے کی تفصیلات میں جائیں ایک نظر ان کی شخصیت پر ڈال لینے سے اس گرفتاری کی حساسیت اور اہمیت شاید بہتر طور پر واضح ہو سکے گی۔
رمزی الشبہ یکم مئی 1972 کو یمن کے جنوبی صوبے ‘حضرِ موت‘ کے علاقے غیل با وزیر میں ایک محنت کش خاندان میں پیدا ہوئے۔ ابھی وہ نوجوان ہی تھے کہ اُن کا خاندان بہتر معاشی مواقع اور اچھی زندگی کی تلاش میں دارالحکومت ثنا منتقل ہو گیا۔
1987 میں جب وہ ہائی سکول میں ہی زیرِ تعلیم تھے تو اُن کے والد کی وفات ہو گئی۔ دورانِ تعلیم ہی انھوں نے انٹرنیشنل بینک آف یمن میں بطور کلرک ملازمت اختیار کر لی اور 1995 تک بینک ہی سے وابستہ تھے۔
اسی برس انھوں نے نقل مکانی کے لیے پہلی بار امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر اُن کی ویزا درخواست رد کر دی گئی تو وہ بطور طالبعلم تعلیمی ویزا پر رمزی عمر کے فرضی نام سے جرمنی جا پہنچے۔
جرمنی میں انھوں نے خود کو سوڈان کا ایک پناہ گزین رمزی عمر ظاہر کرتے ہوئے سیاسی پناہ کی درخواست دی اور یہیں اپنے قیام کے دوران ہیمبرگ شہر کی ایک مسجد میں اُن کی ملاقات نائن الیون کے مرکزی ملزم قرار دیے جانے والے محمد عطا سے ہوئی اور اگلے دو برس تک رمزی اور محمد عطا ایک ہی کمرے میں مقیم رہے۔
اس دوران محمد عطا اور نائن الیون کے ہی ملزمان قرار دیے جانے دیگر افراد سے بھی اُن کے گہرے روابط اور دوستانہ مراسم قائم ہو گئے جن میں زیاد جراح اور مروان الشہی بھی شامل تھے۔ (امریکی اور عالمی حکام دوستوں کے اس گروہ کو ہیمبرگ سیل قرار دیتے ہیں)
ان چاروں افراد نے امریکہ میں ہوا بازی کی تربیت حاصل کرنے کی درخواست دی اور رمزی الشبہ نے ہوا بازی کے دوران استعمال ہونے والی زبان یا ایوی ایشن لینگویج سروس میں بھی داخلے کی درخواست کی مگر امریکہ میں ان کے داخلے کی درخواست پھر رد کر دی گئی جبکہ باقی افراد کو ویزے جاری کر دیے گئے۔
امریکی حکام کے مطابق انھوں نے بالترتیب 17 مئی 2000 اور اسی برس جون، 16 ستمبر اور 25 اکتوبر کو چار مرتبہ امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہے۔
سنہ 1997 میں جرمن عدالت نے سیاسی پناہ کے لیے دائر کی جانے والی اُن کی درخواست رد کر دی اور وہ واپس جنوبی یمن کے اپنے آبائی علاقے لوٹ گئے مگر دو ہی برس بعد وہ دوبارہ اپنے اصلی نام سے ایک بار پھر جرمن ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق رمزی 1999 میں افغانستان کے جنوبی علاقے قندھار پہنچے جہاں ان کی ملاقات نائن الیون کے دیگر منصوبہ سازوں سے ہوئی اور یہیں انھوں نے القاعدہ کے مراکز میں شدت پسندی کی تربیت بھی حاصل کی۔
امریکی حکام نے امریکہ پر 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملے کے ملزمان میں رمزی الشبہ کو 20واں ہائی جیکر قرار دیا ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو جانے والے نائن الیون کے ایک اور ہائی جیکر زیاد جراح نے اگست 2000 میں ایک بار پھر ان کا داخلہ امریکی ریاست فلوریڈا میں قائم ہوا بازی کے ایک تربیتی مرکز میں کروانے کی کوشش کی۔
نائن الیون سے تقریباً ایک برس قبل یعنی 25 ستمبر 2000 کو رمزی نے حملوں کے ایک اور مرکزی ملزم مروان الشہی کو رقم منتقل کی اور حملوں سے چند دن پہلے یعنی اگست 2001 میں انھوں نے ایک اور مرکزی ملزم زکریا موسوی کو بھی ’احد ثابت‘ کا فرضی نام استعمال کرتے ہوئے رقم (برقی طور پر) فلوریڈا منتقل کی۔
آٹھ ستمبر 2006 کو یعنی نائن الیون کے پانچ سال بعد القاعدہ نے ایک ویڈیو جاری کی جس میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو نائن الیون کے حملہ آوروں سے ملاقات کرتے دکھایا گیا۔ اس ویڈیو میں القاعدہ نے رمزی الشبہ کو نائن الیون کا رابطہ کار قرار دیا۔
اس ویڈیو میں رمزی اور نائن الیون کے دیگر ذمہ داران کو ہتھیاروں سمیت تربیت حاصل کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ حکام کا خیال ہے کہ یہ تربیتی مرکز افغان علاقے قندھار یا اس کے آس پاس واقع تھا۔
17 جنوری 2002 کو ایریل تحقیقاتی ادارے فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) نے نائن الیون کے ذمہ دار حملہ آوروں کی ایک فہرست جاری کی جس میں دنیا بھر کے عوام سے پانچ افراد کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کی درخواست کی گئی جن کے بارے میں حکام بہت کم معلومات رکھتے تھے۔ اس فہرست میں رمزی الشبہ کو پانچ مطلوب ترین افراد میں سے چوتھے نمبر پر رکھا گیا۔
امریکی حکام کے شبہے کے مطابق رمزی الشبہ 12 اکتوبر 2000 کو یمن کی بندرگاہ عدن کے قریب امریکی بحریہ کے جہاز یو ایس ایس کول پر حملہ کر کے امریکی بحریہ کے 17 فوجیوں کو ہلاک کرنے اور جہاز کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ تیونس میں الغریبا کی قدیم یہودی عبادت گاہ پر ہونے والے اس حملے میں بھی ملوث تھے جس میں بارود سے بھرے ایک ٹرک کو عبادت گاہ کے بالکل قریب دھماکے سے اڑا دیا گیا تھا اور اس حملے میں 14 جرمن باشندے ہلاک ہوئے تھے۔
ذرائع ابلاغ اور دستیاب معلومات یا حکام کی جانب سے اس بارے میں تفصیل میسر نہیں کہ رمزی الشبہ عالمی سطح پر دہشت گردی کی ان تمام کارروائیوں میں اس قدر سرگرم رہنے کے بعد بالآخر پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کیسے پہنچے مگر اُن کی کراچی سے گرفتاری کے دوران حکام سے ہونے والے اُن کے اور اُن کے ساتھیوں کے مقابلے کی خبر سے ان خدشات کی تصدیق ضرور ہو گئی کہ افغانستان پر 20 برس قبل ہونے والی امریکی قیادت میں دہشت گردی کے خلاف لشکر کشی کے بعد القاعدہ اور اس کے سرگرم حامیوں کا رخ پاکستان کے قبائلی علاقوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑے شہر کراچی کی جانب ضرور ہو گیا جہاں اُن کے خیال میں چھپنے کے مواقع اور ہمدرد دونوں ہی موجود ہو سکتے تھے۔
گرفتاری کیسے ہوئی؟
عالمی ذرائع ابلاغ میں اس وقت کی اشاعتوں اور اب انٹرنیٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق یہ کارروائی جو کراچی کے علاقے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے فیز II کمرشل ایریا میں کی گئی دراصل صرف کراچی پولیس کا کارنامہ نہیں تھا بلکہ پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) اور امریکی خفیہ ادارے سینٹرل انٹیلیجینس ایجنسی (سی آئی اے) کے سپیشل ایکٹیویٹیز ڈیویژن کا ایک مربوط اور مشترکہ آپریشن تھا جسے کراچی پولیس کی بھرپور معاونت و تعاون حاصل تھی۔
یہ مقابلہ کیسے ہوا ان تفصیلات کو اب دوبارہ جمع کرنے کے لیے مجھے اُن کئی صحافیوں، پولیس حکام اور ریاستی اداروں کے اُن بعض اعلیٰ (مگر اب سابق) افسران سے گفتگو کرنا پڑی جو یا تو مقابلے کے وقت میری ہی طرح اس واقعے کی خبر کو کور کر رہے تھے یا پھر کسی نہ کسی حیثیت میں اس مقابلے میں شریک رہے۔
اب پاکستان سے باہر مقیم، کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ سابق افسر نے کہانی کا آغاز کرتے ہوئے امریکی اور بعض پاکستانی حکام کے اس دعوے کی تصدیق کی کہ یہ کارروائی محض کراچی پولیس کا آپریشن نہیں تھا۔ ’ہم تو اُن (خفیہ اداروں کے حکام) کے ساتھ گئے تھے، اطلاع بھی اُن ہی کی تھی۔ یہ کمرشل ایریا کا بظاہر ایک عام سا علاقہ تھا جیسے کہ ڈیفینس میں عام طور پر آپ دیکھتے ہیں جہاں گوشت، سبزی وغیرہ کی دکانیں یا دیگر اشیائے ضرورت کا چھوٹا سا بازار ہوتا ہے۔‘
یہ بالکل خیابان اتحاد اور خیابان جامی کا سنگم کہہ لیجیے مگر وہ حصہ جس کا رخ کورنگی کی جانب ہے۔ عموماً متمول علاقوں کے ایسے ہی حصوں میں چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے ہی گراؤنڈ پلس ٹو یا گراؤنڈ پلس تھری عمارتیں بنا لی جاتی ہیں پھر ان فلیٹس کو اُن کے محلِ وقوع کی وجہ سے ذرا زیادہ کرائے پر دے دیا جاتا ہے۔
وہ بھی ایک ایسی ہی عام سی چار منزلہ عمارت تھی جہاں گرفتاری کے لیے یہ چھاپہ مارا جانا تھا۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ‘چونکہ بہت ہائی فائی خفیہ ادارے ساتھ تھے اس لیے کم از کم مجھے تو یہ اندازہ قطعاً نہیں تھا کہ رمزی الشبہ یا دیگر مسلح افراد کی جانب سے مزاحمت اور وہ بھی ایسی مزاحمت ہوگی جیسی کہ وہاں ہوئی۔
‘جیسے ہی ہم سب نے عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی تو سب سے پہلے تو اوپر سے کوئی چیز آ کر گری۔ دھم سے گرنے والی چیز پر اس وقت تک کسی کا دھیان ہی نہیں تھا جب تک وہ دھماکے سے پھٹ نہ گئی اور یہ اندازہ ہی نہیں ہو سکا کہ وہ ایک دستی بم تھا۔ مگر اندازہ ہوتے ہوتے بہت دیر ہوچکی تھی اور اُس دستی بم کے دھماکے میں (آئی ایس آئی کے افسر) میجر محسن زخمی ہو چکے تھے۔ ہم سب جو اوپر چڑھنے کی کوشش کررہے تھے، گھبرا کر جان بچانے کے لیے واپس نیچے اترنے کی کوشش کرنے لگے۔
‘ابھی ہم سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ اوپر سے زبردست فائرنگ شروع کر دی گئی۔ شاید وہ (رمزی اور اُن کے ساتھی) تیار تھے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ خود بھی مسلسل 24 گھنٹے نیچے کے علاقے کی نگرانی کر رہے ہوں اور جب چھاپہ مار حکام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دستے گلی میں داخل ہوئے تو انھیں اچھی طرح اندازہ تھا کہ کون اور کیوں آیا ہے۔ بس انھوں نے بےدریغ فائر کھول دیا۔ پھر تو دونوں جانب سے بےتحاشہ گولیاں چلائی گئیں۔
‘سچی بات تو یہ ہے کہ مجھے اوپر سے آنے والی گولیوں سے زیادہ فکر اس بات کی تھی کہ ہماری پیچھے (بیک اپ پوزیشن) سے گھبراہٹ میں چلائی گئی کسی گولی کا نشانہ نہ بن جاؤں کیوں کہ ہمارے بیک اپ سے بھی زبردست ‘پینک فائرنگ‘ ہو رہی تھی۔‘
کراچی میں عرصے سے تعینات نیم فوجی دستے رینجرز کے ایک سابق مگر اعلیٰ فوجی افسر کے مطابق وہ اور اُن کا ادارہ بھی اس آپریشن میں شریک ہوا ‘مگر ہم مقابلہ شروع ہونے کے بعد وہاں پہنچے تھے۔‘
پولیس افسر نے بتایا کہ ’تب تک میجر محسن ہی نہیں کئی اور بھی اہلکار زخمی ہو چکے تھے۔ مگر پھر سرکاری اہلکاروں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فورس نے بھی اسی انداز سے جواب دیا۔ ہینڈ گرنیڈ جس سے فوجی افسر زخمی ہوئے وہ بالکل نیچے نہیں بلکہ سیڑھیوں کی لینڈنگ پر پھٹا تھا۔ مگر جب زخمی افسر اور اہلکار نیچے واپس چلے گئے اور نیچے پوزیشن مضبوط محسوس کرکے ذمہ دارانہ انداز اختیار کیا گیا تو ہمیں ہمت ہوئی کہ اور اوپر جائیں۔‘
مگر دوسرا خطرہ بھی قطعی غیرمتوقع تھا۔ وہ سب ایک فلیٹ میں نہیں بلکہ آمنے سامنے واقع دو مختلف فلیٹس میں تھے۔
‘اُس کا شاید کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا۔ جب ایک فلیٹ کو ان کی کمیں گاہ سمجھ کر فوکس اور ٹارگٹ کیا گیا تو انھوں نے پیچھے یعنی عقب میں واقع دوسرے فلیٹ سے دوسرا حملہ کر کے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ بہت زبردست برسٹ فائر ہوا مجھے نہیں معلوم (شاید اوپر والے نے بچایا) کہ ہم کیسے بچے مگر اندازہ ہوتے ہی قانون نافذ کرنے والے اہلکار بھی صورتحال پر حاوی ہوتے گئے۔
‘فائرنگ کے تبادلے میں اُن (رمزی الشبہ) کے بھی غالباً دو ساتھیوں کو گولیاں لگیں اور وہ ہلاک ہو گئے۔ مگر مرتے مرتے ان میں سے ایک نے اپنے خون سے دیوار پر ’اللہ اکبر‘ یا شاید کلمہ یا پھر عربی میں کچھ اور لکھنے کی کوشش بھی کی۔‘
جیو نیوز سے وابستہ صحافی مظہر عباس نے بتایا کہ ‘یہ بالکل صبح کا وقت تھا میں دفتر جانے نکلا تھا کہ اطلاع ملی کہ پولیس مقابلہ ہورہا ہے۔ یہ فلیٹ عمارت کی چوتھی منزل پر تھا۔ جب ہم پہنچے تو اس وقت تک باہر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود تھے اور زبردست شیلنگ (آنسو گیس فائر) کی جا رہی تھی، غالباً حکام چاہتے تھے کہ اندر کے لوگ دم گھٹنے یا آنسو گیس کی جلن سے باہر آنے پر مجبور ہو جائیں۔‘
‘مگر اُن (رمزی الشبہ) کا تو کوئی ساتھی زخمی ہوا مگر اہلکاروں میں سے کوئی بھی زخمی یا ہلاک نہیں ہوا تھا۔‘ مظہر عباس نے پولیس افسر کے موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا۔
جواب میں پولیس افسر نے کہا کہ جب تک صحافی پہنچے تب تک زخمی افسر کو طبّی امداد کے لیے لے جایا جا چکا ہو گا اس لیے کسی کو بھی سرکاری جانی نقصان کا اندازہ نہیں ہوا ہوگا مگر میجر محسن تب تک زخمی ہوچکے تھے۔
‘جب ہم اس عمارت میں داخل ہوئے تو وہاں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ شاید وہ اپنی فیملیز کے ساتھ یہاں مقیم تھے۔‘ پولیس افسر نے کہا۔
صحافی ضرار خان تب امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے نامہ نگار تھے اور وہ بھی جائے وقوعہ پر پہنچنے والے اولین صحافیوں میں شامل تھے۔
ضرار خان نے بھی تصدیق کی کہ وہاں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ ‘میں ڈیفینس ہی میں رہتا تھا اور وہیں واقع بوٹنگ بیسن کے پاس ایک ہوٹل پر ناشتہ کر رہا تھا اور وہیں رینجرز کی ایک موبائل میں سوار کچھ اہلکار بھی ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک وہ سب ناشتہ چھوڑ چھاڑ بھاگ کھڑے ہوئے۔
‘اندر ایک صحافی نے کہا کہ کوئی بڑی بات ہوئی ہے جب ہی تو یہ سب ناشتہ چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے بھی اپنی گاڑی اسی موبائل کے پیچھے ڈال دی اور جب ہم وہاں پہنچے جہاں مقابلہ ہو رہا تھا تو عورتیں اور بچے تو میں نے بھی دیکھے مگر وہ مکمل طور پر پولیس کا آپریشن تھا۔ کوئی اور ادارہ وہاں نظر نہیں آیا، کم از کم مجھے کسی اور ادارے کی موجودگی کا اندازہ نہیں ہوا۔
’قریب واقع خالی پلاٹ پر سندھ کے اس وقت کے ہوم سیکریٹری بریگیڈیئر مختار موجود تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہی لوگ ہیں۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ مجھے اس کہانی کا دھیان آیا جس میں الجزیرہ نے دعویٰ کیا تھا کہ القاعدہ کے تیسرے بڑے رہنما (نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ سمجھے جانے والے) خالد شیخ محمد کراچی میں ہیں۔ بس میں تو آگے ہی بڑھ گیا۔‘
بریگیڈیئر مختار نے بتایا کہ ‘اُن‘ میں سے ایک نکل کر بھاگا ہے مگر باقیوں کو فورس نے گھیر رکھا ہے۔ جب میں عمارت کے قریب پہنچا تو وہاں سے ایک برقع پوش عورت اتری جس کے پاس ایک سفوکیٹڈ (دم گھٹتا ہوا) بچہ تھا۔‘
‘وہ عورت بچے کے لیے بے انتہا پریشان تھی۔ اگرچہ پولیس اور رینجرز نے اس عورت کو گھیر لیا مگر میں پھر بھی اس کے قریب بیٹھ گیا اور اس سے پوچھنے کی کوشش کی کیا ہوا ہے۔ مگر وہ عورت اپنے بچے کے لیے گھبراہٹ میں کسی اور چیز پر دھیان نہیں دے رہی تھی۔ اس نے ٹوٹی اردو میں یہ بتانے کی کوشش کی کہ وہ ہمارے لوگوں کو مار رہے ہیں۔ مگر پھر فوراً ہی سرکاری حکام اسے وہاں سے لے گئے۔‘
ضرار خان کے مطابق ‘عمارت کے نیچے تب تک زبردست فائرنگ جاری تھی۔ میں اس بلڈنگ کی سیڑھیاں چڑھ تو گیا اور وہاں دیوار پر خون سے کچھ لکھا ہوا دیکھ کر سمجھنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ اوپر سے اتر کر آنے والے سرکاری اہلکاروں نے مجھے نکال باہر کیا۔ باہر پولیس اور سرکاری اہلکار ہر طرف سے عمارت کو نشانہ بنا کر گولیاں چلا رہے تھے۔‘
‘اوپر سے بھی بھرپور جواب آرہا تھا۔ کھڑکی سے گولیاں چلائی جا رہی تھیں اور مکمل پولیس مقابلہ پورے زور و شور سے جاری تھا۔‘
ضرار خان بتاتے ہیں کہ ‘تھوڑی ہی دیر میں پولیس اہلکار ایک موٹے سے آدمی کو اٹھا کر لائے مگر فوراً ہی وہاں سے گاڑی میں ڈال کر کہیں اور لے گئے۔ پھر ایک دبلا پتلا سا آدمی حراست میں لایا گیا۔ (یہ وہ منظر ہے جو اے ایف پی کے فوٹو گرافر عامر قریشی نے کیمرے میں محفوظ کیا اور یہی رمزی کی گرفتاری کی سب سے مشہور تصویر بنی اور اس مضمون میں دیکھی جا سکتی ہے)۔ میں اس زیر حراست شخص کے، جسے بہت سے اہلکاروں نے دبوچا ہوا تھا، اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ میرے آگے آگے آئی جی سندھ کمال شاہ چل رہے تھے اور میں نے ٹوٹی پھوٹی عربی میں اس شخص سے پوچھ رہا تھا ‘مس موکا‘ (یعنی تمہارا نام کیا ہے؟)‘
‘لیکن وہ عربی میں تکبیر بلند کر رہا تھا اور جتنی عربی میری سمجھ میں آ سکی وہ کہہ رہا تھا کہ یہ کافر ہیں۔ کافروں کے چنگل میں پھنس گئے ہیں ہم اپنا خون بہا دیں گے مگر جہاد نہیں چھوڑیں گے۔ وہ بہت جذباتی انداز میں نعرہ زنی کے سے لہجے میں اللہ اکبر اور نہ جانے کیا کیا کچھ بولے جا رہا تھا اور میں بھی ٹوٹی پھوٹی عربی جانتا ہوں کوئی ماہر نہیں ہوں۔‘
‘اتنی دیر میں کمال شاہ (آئی جی سندھ پولیس) نے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو فساد برپا کر رہے ہیں۔ جس سے ہمیں اشارہ ملا کہ یہ ہیں تو جہادی ہی۔ تب تک کسی کو نہیں معلوم تھا کہ گرفتار شخص کون ہے۔ یہ تو شام تک تصدیق ہوئی کہ وہ رمزی بن الشبہ ہے۔ بریگیڈیئر مختار نے بتایا تھا کوئی فرار ہو گیا ہے دراصل وہ خالد شیخ محمد تھا اور اس کے الجزیرہ کو انٹرویو کے بعد ہی کراچی میں القاعدہ کے اس ٹھکانے کی نشاندہی ہوئی تھی۔ اور اسی وجہ سے اس عمارت پر چھاپہ پڑا تھا۔‘
اس علاقے کی ریکی کر کے حکام کو پتہ چلا کہ اس عمارت میں سے نکلنے والا ایک مقامی باشندہ وہ چیزیں خریدا کرتا تھا جو عموماً عربی کھانا پسند کرتے ہیں اور اسی سے اس ٹھکانے کی تصدیق میں بھی حکام کو مدد ملی تھی۔
مگر ضرار خان نے کسی افسر کے زخمی ہونے سے تو انکار کیا لیکن یہ تصدیق ضرور کی کہ اندر اُن میں سے کوئی ہلاک ہوا تھا۔
ضرار خان نے بھی اصرار کیا کہ آپریشن پولیس نے ہی کیا تھا۔ ‘اگر آئی ایس آئی آپریشن کرتی تو ہم اس دوران عمارت میں کیسے گھس سکتے تھے؟ مگر میں تو اندر تک چلا گیا تھا ناں!‘
مظہر عباس کا بھی کہنا تھا کہ سرکاری اہلکاروں میں سے کوئی زخمی نہیں ہوا تھا۔
مظہر عباس نے کہا کہ ‘جب گرفتار شخص (رمزی بن الشبہ) کو پولیس وین میں بیٹھا دیا گیا تو میں نے ذرا قریب ہوکر اس سے نام پوچھنا چاہا مگر جب اس کی رنگت اور خد و خال مقامی نہیں لگے تو میں انگریزی میں اس سے پوچھنا چاہا مگر اس نے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔‘
مظہر عباس نے چھاپے سے قبل تفتیش کے بارے میں بالکل مختلف معلومات فراہم کیں۔ ‘مقابلے کے بعد رات گئے مجھے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ دو تین دن قبل خالد بن ولید روڈ پر واقع نورانی کباب ہاؤس کے قریب سے چھاپے میں کچھ لوگ گرفتار ہوئے جہاں خالد شیخ محمد کی موجودگی کی اطلاع تھی۔
’خالد شیخ محمد تو نہیں ملے مگر وہاں سے گرفتار ہونے والے کسی شخص سے اس گروہ کا سراغ ملا تھا۔‘
انھوں نے کہا کہ ‘جہاں رمزی بن الشبہ والا مقابلہ ہوا وہ دو تین ماہ پہلے ہی کرائے پر لیا گیا تھا۔ وہ بہت خونی سال تھا۔ ڈینئیل پرل کا واقعہ، کراچی میں امریکی سفارتخانے پر حملہ، اور شیرٹن پر بم حملہ جیسے بہت سے واقعات ہوئے تھے اور یہ سب واقعات نشاندہی کر رہے تھے کہ القاعدہ یا اُن کے حامی اب پاکستان خاص طور پر کراچی میں موجود ہیں۔ نائن الیون کی برسی بھی تھی تو جنرل الرٹ بھی تھا۔‘
جرمن ریڈیو ڈوئچے ویلے سے منسلک صحافی رفعت سعید اس وقت دائیں بازو کے قریب سمجھے جانے والے پاکستانی اخبار ‘امّت‘ اور ‘تکبیر‘ کے رپورٹر تھے۔ ان کے مطابق کوئی خفیہ اطلاع نہیں تھی بلکہ علاقہ پولیس کو مشتبہ افراد کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی تو واقعے والے روز جب رمزی الشبہ اور اُن کے ساتھی فجر کی نماز پڑھنے گئے تو واپسی میں پولیس نے ان کو روکنے کی کوشش کی تو مقابلہ شروع ہو گیا۔
مگر رفعت سعید نے یہ دعویٰ ضرور کیا کہ اس مقابلے میں دو افراد مارے گئے جن کی تدفین بعد میں کراچی کے علاقے کوئٹہ ٹاؤن میں کی گئی۔ ‘ان کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے (کراچی کے) باہر سے ایک یا دو بسوں میں لوگ آئے تھے جنھوں نے نماز جنازہ بھی پڑھی۔‘ ان کے مطابق ’رمزی الشبہ کے مقابلے میں اصل کردار پولیس افسر عمران شوکت کا تھا۔‘
پاکستان سے باہر مقیم سابق پولیس افسر نے بھی تصدیق کی کہ ‘عمران شوکت اے ایس پی تھے اور وہی پہلے افسر تھے جو پولیس کی جانب سے ٹیم کمانڈ کررہے تھے جب تک کے باقی اعلیٰ افسران نہ آ پہنچے۔‘
اس کہانی کے لیے میری مدد کرنے والے تمام ہی سرکاری افسران اور صحافی سب متفق تھے کراچی میں القاعدہ کے رمزی بن الشبہ یا خالد شیخ محمد کے لیے چھپنے کی جگہ اور آسانیاں اور مواقع و مدد موجود تھی اور انھیں اندازہ تھا کہ اگر انھیں کسی ‘برے وقت‘ میں باہر نکلنے کی ضرورت پڑے تو پانی کا راستہ بھی ہے، ہوائی سفر کے مواقع بھی اور سڑک کے ذریعے بھی شہر سے باہر جایا جا سکتا ہے۔
گرفتاری کے محض تین دن بعد ہی یعنی 14 ستمبر 2002 کو رمزی الشبہ کو امریکہ منتقل کر دیا گیا۔ بعد ازاں سی آئی اے حکام نے انھیں ’ایکسٹرا آرڈینری رینڈیشن‘ (یا سرکاری حمایت کے ذریعے دائرۂ قانون کے باہر کی جانے والی کارروائی) کے تحت پہلے مراکش میں قائم بلیک سائٹ مرکز منتقل کر کے تفتیش کی۔ اگست 2010 میں سی آئی اے نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس اس تفتیش کی ویڈیو ٹیپس موجود ہیں۔
چھ ستمبر 2006 کو امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے اعلان کیا کہ رمزی الشبہ کو سی آئی اے کے ذریعے گرفتار کیے جانے والے 13 دیگر ملزمان کے ساتھ گوانتانامو بے منتقل کر دیا گیا ہے جہاں وہ آج بھی قید ہیں۔ رمزی بعض مقدمات میں جرمن حکام کو بھی مطلوب ہیں مگر امریکی حکام ان کی حوالگی یا سپردگی کا جرمن مطالبہ مسترد کرچکے ہیں۔