دنیا بھر میں جڑواں بچوں میں اضافے کی وجہ کیا ہے؟
محقیقن کے مطابق اس وقت دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔
دنیا میں اس وقت ہر سال 16 لاکھ جڑواں بچے پیدا ہو رہے ہیں۔ ہر 42 بچوں میں ایک بچہ جڑواں پیدا ہوتا ہے۔ تاخیر سے بچے پیدا کرنے کا رجحان اور آئی وی ایف جیسی طبی تکنیکوں کے باعث جڑواں بچوں کی شرح میں سنہ 1980 کی دہائی سے اب تک ایک تہائی اضافہ ہوا ہے۔
مگر اب یہ تعداد کم ہو سکتی ہے کیونکہ اب دوران حمل ایک بچے کی طرف توجہ چلی گئی ہے جو کہ کم خطرناک ہے۔
ہیومن ری پروڈکشن جریدے میں شائع ایک تجزیے کے مطابق دنیا بھر میں جڑواں بچوں کی پیدائش میں اضافے کی وجہ 30 سال سے زیادہ کی عمر میں بچے پیدا کرنا ہے۔ ایشیا میں اس تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا جبکہ شمالی امریکہ میں یہ تعداد 71 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔
جڑواں بچوں سے متعلق محققین نے 165 ممالک سے سنہ 2010 سے 2015 تک جو ڈیٹا جمع کیا ہے اور پھر اس کا سنہ 1980 سے 1985 تک کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا ہے۔
ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں اب یورپ اور شمالی امریکہ میں جڑواں بچے پیدا ہونے کی شرح کہیں زیادہ ہے۔۔ اور دنیا میں ہر ایک ہزار پیدا ہونے والے بچوں میں یہ تعداد نو سے بڑھ کر 12 ہو گئی ہے۔
افریقہ میں گذشتہ 30 سال سے جڑواں بچوں کی شرح زیادہ ہے اور اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ آبادی میں اضافہ اس کی ایک بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
افریقی اور ایشیائی ممالک میں جڑواں بچوں کی پیدائش کا تناسب دنیا بھر کا 80 فیصد تک بنتا ہے۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مصنف آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر کرسٹیان مونڈن کے مطابق افریقہ میں جڑواں بچوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ خواتین میں جڑواں بچوں کی پیدائش کے جڑواں نظام کا بڑی تعداد میں موجود ہونا ہے، جہاں دو مختلف مگر جڑواں حصوں میں بچے کی نشوونما اور پیدائش ہوتی ہے۔
‘اس کی بڑی وجہ افریقی آبادی اور دوسرے خطوں کی آبادی کے درمیان جینیاتی فرق ہو سکتا ہے۔‘
یورپ، شمالی امریکہ اور سمندروں والے ممالک میں اس میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس اضافے کی وجہ سنہ 1970 سے میڈیکل ری پروڈکشن کی معاونت کے طریقے کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جیسے آئی وی ایف، آئی سی ایس آئی، مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانے جیسے طریقے اس اضافے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔
اس طرح کی تکنیک ایک ہی بار متعدد بچوں کی پیدائش کے امکانات کو بڑھا دیتی ہے۔
تحقیقی جائزے کے مطابق خواتین کا بعد میں خاندانی زندگی شروع کرنا، حمل روکنے کے لیے مصنوعی طریقوں کا استعمال کرنا اور مجموعی طور پر فرٹیلٹی کی شرح کو کم کرنے نے بھی اس میں کردار ادا کیا ہے۔
پروفیسر کرسٹیان مونڈن کے مطابق اب تمام تر زور ایک حمل پر چلا گیا ہے، جو کہ بہت محفوظ طریقہ ہے۔
ان کے مطابق یہ بہت اہم بات ہے کہ جڑواں بچوں کی پیدائش بچوں کی زیادہ اموات کی وجہ بتائی جاتی ہے اور یہ دوران حمل اور پیدائش کے وقت ماؤں اور بچوں کے لیے مزید پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے۔
جڑواں بچوں کو پیدائش کے وقت متعدد پیچیدگیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے اکثر وقت سے پہلے ہی پیدا ہو جاتے ہیں اور ان کا وزن بھی کم ہوتا ہے جبکہ ابھی بھی شرح پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔
زندہ بچنے کے امکانات
جریدے میں شائع کیے جانے والے تحقیقی جائزے کے مطابق کم اور متوسط آمدن والے ممالک میں جڑواں بچوں کو مزید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔
خاص طور پر صحارا کے جنوب میں واقع افریقی ممالک میں اکثر جڑواں بچوں میں سے ایک پہلے سال ہی مر جاتا ہے اور یہ تعداد سالانہ دو لاکھ سے زیادہ بنتی ہے۔
اس تحقیق کے مصنف پروفیسر جیرون سمتس کے مطابق اب کئی امیر مغربی ممالک میں جڑواں بچوں کی شرح بڑھ کر صحارا کے جنوب میں واقع ممالک کے قریب پہنچ گئی ہے۔ تاہم ان دونوں خطوں میں بچوں کے زندہ بچ جانے کا امکانات میں بڑا فرق ہے۔
محقیقن کا ماننا ہے کہ انڈیا اور چین جڑواں بچوں کی شرح سے متعلق اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
شرح تولید میں کمی، زیادہ عمر میں بچے پیدا کرنے والی مائیں اور آئی وی ایف جیسی تکنیک آنے والے برسوں میں جڑواں بچوں پر اثرانداز ہوں گی