دریائے سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی الٹنے

دریائے سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی الٹنے

دریائے سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی الٹنے کا واقعہ: 19 خواتین کی لاشیں نکال لی گئیں، ریسکیو آپریشن جاری

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں دریائے سندھ میں باراتیوں سے بھری کشتی الٹنے کے حادثے میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اب تک ہلاک ہونے والے جن افراد کی لاشیں دریا سے نکالی گئی ہیں، وہ تمام خواتین ہیں۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق حادثہ کشتی میں گنجائش سے زائد افراد سوار ہونے کے باعث پیش آیا۔

صحافی غلام حسن مہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ڈپٹی کمشنر موسیٰ رضا کے مطابق دریائے سندھ کی ساحلی پٹی پر واقع نواحی گاؤں ماچھکہ کی سولنگی برداری کے افراد بارات لے کر دریائے سندھ میں سفر کر رہے تھے۔

ڈپٹی کمشنر کے مطابق اس بارات میں دو کشتیاں شامل تھیں، جن پر خواتین اور بچوں سمیت تقریباً 150 سے زائد افراد سوار تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ایک کشتی، جس میں تقریباً 75 افراد سوار تھے، اچانک الٹ گئی اور اس میں سوار تمام افراد دریا میں جا گرے۔

ڈپٹی کمشنر موسیٰ رضا کے مطابق ان میں سے 35 افراد کو دوسری کشتی کے سواروں نے بچا لیا جبکہ اب تک 19 خواتین کی لاشیں بھی نکالی جا چکی ہیں اور باقی افراد کی تلاش میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

دریائے سندھ میں باراتیوں کی کشتی الٹنے کا واقعہ

ریسکیو ترجمان نے میڈیا کو بتایا کہ دوسری کشتی میں سوارکئی مردوں نے اپنی مدد آپ کے تحت لوگوں کو بچایا۔ کئی افراد کو غوطہ خوروں نے محفوظ مقام تک پہنچایا لیکن خواتین پانی کے بہاؤ کے باعث دریا میں ڈوب گئیں اور شاید ان کے ساتھ بچے بھی تھے لیکن ابھی تک کسی نے بچوں کے ڈوبنے کی تصدیق نہیں کی تاہم ریسکیو ٹیموں کی جانب سے ڈوبنے والے افراد کی تلاش میں ریسکیو آپریشن جاری ہے۔

اس افسوسناک واقعے کی اطلاع جیسے ہی تھانہ ماچھکہ کو موصول ہوئی تو تھانے میں موجود اہلکاروں نے چھٹی پر گئے اہلکاروں کو بھی واپس بلا لیا اور بھاری نفری کے ہمراہ اس علاقے میں پہنچے۔

زندہ بچ جانے والے افراد کو محفوظ مقام پر پہنچا کر انھیں پانی اور خوراک فراہم کر دی گئی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے اس واقعے پر لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے ضلعی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ زندہ بچ جانے والوں کو ہسپتال میں بہترین طبی امداد فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *