دردانہ بٹ پاکستان کے سٹیج، ٹی وی اور فلم کی اداکارہ دردانہ بٹ کی جمعرات کی صبح وفات ہوگئی
پاکستان کی نامور کامیڈین دردانہ بٹ کی پہچان تو سِلور سکرین تھی لیکن پس منظر میں وہ ایک استاد تھیں، انھوں نے ہوا بازی بھی کی اور ایک مرتبہ تو انھیں پولیس میں بھرتی ہونے کی پیشکش بھی ہوئی تھی۔
پاکستان کے سٹیج، ٹی وی اور فلم کی اداکارہ دردانہ بٹ جمعرات کی صبح وفات پا گئیں ہیں، وہ گزشتہ چند برسوں سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھیں اور وفات سے قبل ونٹیلیٹر پر تھیں۔
لندن میں بچپن
درانہ بٹ کے والد برطانیہ میں پاکستان کے سفارتخانے میں ایجوکیشنل اتاشی تھے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی تعلیم وہاں ہی حاصل کی اس کے بعد ان کے والد کا تبادلہ ہوگیا اور وہ واپس پاکستان آگئے۔ وہ اپنے والدین کی منجلی اولاد تھیں۔
پی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دردانہ بٹ نے بتایا تھا کہ جب ان کی فیملی وطن واپس آئی تو ان کی عمر صرف 11 سال تھی۔
ان کی رہائش لاہور میں تھی جہاں کاکرروچ اور مچھر دیکھ کر وہ چلاتی تھیں اور والد سے کہتی تھیں کہ واپس انگلینڈ لیکر جائیں جس کے بعد ان کا مری میں مشنری سکول میں داخلہ کرایا گیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔ انھوں نے اس انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان دنوں ان کی اردو بہت خراب تھی اور ان کے والد انھیں اردو سکھاتے تھے۔
جنگ اور شادی
دردانہ بٹ کی 1967 میں سعید احمد خان سے شادی ہوئی جو ان کے والدہ کے قریبی رشتے دار تھے۔ دردانہ بٹ بتاتی تھیں کہ 1965 کی جنگ میں والدہ نے فیصلہ کیا تھا کہ جنگ چل رہی ہے کہیں بم ہم پر گرے اور ہم مر جائیں لہذا شادی کرلو، اس طرح ان کی شادی ہوگئی لیکن ڈیڑہ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔
ان کی والدہ کی خواہش تھی کہ وہ دوبارہ شادی کریں لیکن انھوں نے والد کو بتایا کہ وہ پڑھنا چاہتی ہیں، اس طرح انھوں نے کالج سے گریجویشن کی اور وہاں سٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینا شروع کر دیا۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی سکول میں وقتی طور پر پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔
ہوا بازی اور پولیس میں بھرتی ہونے کی پیشکش
دردانہ بٹ کا کہنا تھا کہ انھوں نے چھ ماہ لاہور کی سڑکوں پر موٹر سائیکل بھی چلائی تھی۔ اس کے علاوہ 36 گھنٹے بطور کمرشل پائلیٹ ہوا بازی بھی کی لیکن نظر کی کمزوری کی وجہ سے اس کو جاری نہ رکھ سکیں۔ انھیں ایک بار پولیس میں انسپیکٹر بننے کی بھی پیشکش ہوئی تھی کیونکہ وہ جوڈو کراٹے اور آتش اسلحے کا استعمال جانتی تھیں لیکن انھوں نے انکار کر دیا۔
درس و تدریس
دردانہ بٹ نے اداکاری کے ساتھ درس و تدریس کو بھی جاری رکھا۔ انھوں نے سپین سے ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور بیکن ہاؤس سکول کے ساتھ منسلک رہیں اور اس سلسلے میں وہ کراچی منتقل ہوگئیں تھیں۔
پی ٹی وی سے مقبولیت
دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے کامیڈینز کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ جب انور مقصود کے تحریر کیے گئے مزاحیہ خاکوں کے پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ کا آغاز ہوا تو دردانہ بٹ بھی اس میں شامل تھیں اور اس طرح وسیع پیمانے پر عام لوگوں نے بھی ان کا ٹیلنٹ دیکھا۔
اس کے بعد معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا کیا اور دوسری جانب تنہائیاں سمیت متعدد ڈرامے کیے اور جب پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو وہ ان میں بھی کئی ڈراموں کا حصہ رہیں۔
عمر شریف کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ جسم کو ہلانے اور چہرے کو بگاڑنے سے کامیڈی نہیں ہوتی، کامیڈین یہ ہوتا ہے کہ آپ پنچ لائن کس آواز میں دے رہے ہیں۔
اداکاروں کی بھی استاد
ثمینہ احمد نے ان کے ساتھ گزشتہ سال ’ڈرائی لِیوز‘ نامی شارٹ فلم کی تھی۔ ثمینہ احمد بتاتی ہیں کہ اس فلم کے لیے ایک دن کی شوٹ تھی جس دوران انھوں نے بہت مزا کیا، پرانی باتیں کیں اور خوب ہنسے۔
’ہمارا بہت لمبا 1970 کا ساتھ تھا، وہ مہم جو اور بہادر لڑکی تھی، ہم نے سٹیج پر اچھے ڈرامے کیے، جب بھی ملتے تھے اپنی پرانی باتیں کرتے تھے۔‘
پاکستان ٹیلیویژن کے سابق پروڈیوسر اقبال لطیف کا کہنا ہے کہ ان کے بنائے گئے 80 فیصد مزاحیہ ڈراموں میں دردانہ بٹ نے ہی کام کیا۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے ہالی ووڈ میں بھی کچھ کام کیا، ہمیں سکھایا گیا تھا کہ اداکار کے بارے میں نہیں کردار کے بارے میں سوچیے، جیسے ہی میرے سامنے سکرپٹ آتا تو کردار چیخ چیخ کر بولتا کہ یہ فلاں آرٹسٹ کا حق ہے، آجکل آرٹسٹ کمرشل بنیادوں پر چنے جاتے ہیں۔‘
اقبال لطیف بتاتے ہیں کہ جب 1978 میں ان کا لاہور تبادلہ ہوا تو وہاں ان کی دردانہ بٹ سے ملاقات ہوئی، ’بہت ہی شاندار خاتون تھیں، ان کا انتقال بہت بڑا نقصان ہے‘۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے جب سٹیج کے اداکاروں زیبا شہناز، غزالہ و دیگر کو ٹی وی پر متعارف کرایا تو وہ ان کی استاد ہوتی تھیں، انھیں سکھاتی تھیں۔