خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات: باجوڑ سے ثنا پرویز اقلیتی سیٹ پر بلا مقابلہ جنرل کونسلر منتخب
اس صدی کے آغاز میں افغانستان سے متصل سابقہ قبائلی ضلع باجوڑ کے بارے میں خیال رہا کہ یہاں طالبان کا اثر و رسوخ ہے اور خواتین کے لیے تعلیم حاصل کرنا یا باہر نکلنا منع ہے لیکن اب کچھ لوگ اس تاثر کو بدل رہے ہیں۔
’سیاست میں آنے کا مقصد باجوڑ کی خواتین اور طالبات کو ان مشکلات سے بچانا ہے جن کا سامنا میں نے، میری بہن اور میرے خاندان نے کیا۔‘
یہ الفاظ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کی تحصیل خار میر علی سے اقلیتی سیٹ پر بلا مقابلہ منتخب ہونے والی جنرل کونسلر ثنا پرویز کے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے خواتین کی صحت اور تعلیم پر خصوصی توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ ’میں خواتین میں شعور پیدا کرنے کے لیے کام کروں گی۔‘
جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر کاغذات نامزدگی جمع کروانے والی ثنا پرویز کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ وہ باجوڑ کی تاریخ میں پہلی اقلیتی منتخب خاتون عوامی نمائندہ ہیں۔
صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کی انتخابی مہم کا آغاز ہو چکا ہے جس میں 17 اضلاع میں 19 دسمبر کو پولنگ منعقد ہو گی۔ ضلع باجوڑ میں مجموعی طور پر 963 امیدوار میدان میں ہیں۔
ثنا پرویز کے بچپن اور زمانہ طالب علمی کے کئی سال خوف کے ماحول میں گزرے۔
’ہمارے باہر جانے، نکلنے، تعلیم حاصل کرنے سمیت سب کچھ پر پابندی ہوتی تھی۔ کئی مرتبہ ہمارا سکول جانا بند ہوا۔ ہمیں دھمکیاں دی گئیں۔ اس کے باوجود میرے پاپا اور مما نے ہر قسم کا خطرہ مول لے کر مجھے بی ایس سی تک تعلیم دلائی اور میرے بہن بھائیوں کو بھی تعلیم یافتہ بنایا۔‘
’باجوڑ کے سکول میں ایڈجسٹ ہوئے تو طالبان آگئے‘
ثنا بتاتی ہیں کہ ان کی پیدائش نوشہرہ میں ہوئی، ان کے والد فوج میں ملازمت کرتے تھے۔
’جہاں پر پاپا کی تعنیاتی ہوتی ہم لوگ بھی وہاں پر چلے جاتے۔ باجوڑ میں تبادلے کے بعد پاپا ریٹائر ہو گئے تھے جس کے بعد انھوں نے وہیں رہائش اختیار کر لی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ نوشہرہ اور باجوڑ کے ماحول میں فرق واضح تھا۔
’ہم نوشہرہ میں باہر نکلتے تھے، کھیلتے تھے، سکول جاتے تھے۔ اس کے باوجود ہمیں پشتو زبان نہیں آتی تھی جس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑا تھا جبکہ باجوڑ میں ماحول بالکل مختلف تھا۔‘
ثنا نے دیکھا کہ باجوڑ میں کم عمر بچیوں کا باہر نکلنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ’ہمیں پشتو نہیں آتی تھی، (باقی) بچوں کو اردو نہیں آتی تھی۔ وہ ہمارے ساتھ بات کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سکول میں ہمارے ساتھ کھانا کوئی نہیں کھاتا تھا۔ نوشہرہ کے سکول کی کلاسوں میں کرسیاں تھیں جبکہ باجوڑ میں ہمیں ٹاٹ پر بیٹھنا پڑتا تھا۔‘
یہاں تک کہ انھوں نے ایک بار اپنی والدہ سے کہا تھا کہ وہ سکول جانا نہیں چاہتیں۔ پھر انھیں ایک ایسے سکول میں داخل کروایا گیا جہاں کا ماحول قدرے بہتر تھا۔
’اس سکول میں ہم بہنیں ابھی ایڈجسٹ ہی ہوئے تھے کہ طالبان کا انقلاب آ گیا۔ ہمیں دھمکیاں ملنا شروع ہوئیں اور فوج نے آپریشن شروع کر دیا۔‘
ثنا یاد کرتی ہیں کہ یہ وہ دور تھا کہ جب سکول، بازار سب بند ہو گیا تھا۔
’ہم لوگ اپنے گھروں میں بند ہو کر رہ گئے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس دور میں باہر نکلنے والوں کی سر کٹی لاشیں بھی ملی تھیں جس سے خوف مزید بڑھ گیا تھا۔‘
اور ایسے میں ان کے گھر کی صورتحال یہ ہو گئی تھی کہ کھانے کو کچھ نہیں بچا تھا۔
’گھر میں صرف چاول تھے۔ مما وہ چاول بھی بہت احتیاط سے پانی میں ابال کر پکایا کرتی تھیں۔ کئی دن تک وہی ابلے چاول چلے۔‘
ثنا پرویز کا کہنا تھا کہ ’جب معاملات زیادہ خراب ہوئے تو (ہمیں) علاقہ چھوڑنے کا کہا گیا۔ ہم لوگ عملاً دربدر ہو گئے۔ نوشہرہ، راولپنڈی اور ملتان میں رشتہ داروں کے گھر رہائش رکھتے تھے۔ ہمارے والدین کے پاس صرف وہی پیسے ہوتے تھے جو پاپا کو ہر ماہ پنشن کے ملتے۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ ’آخر کوئی کب تک ہمارے مہمان نوازی کرسکتا تھا۔ ایک روز مما اور پاپا نے واپس باجوڑ جانے کا فیصلہ کیا۔ ہم لوگ اپنے گھر سول لائن پہنچے تو ہمیں سکیورٹی فورسز کے لوگوں نے اندر جانے کی اجازت نہیں دی۔ وہ کہہ رہے تھے کہ خطرہ ہے جس پر ہم لوگ باہر ہی کھڑے ہوگئے تھے۔ تنگ آکر انھوں نے پاپا سے تحریر لی کہ اگر کوئی نقصاں پہنچا تو حکومت ذمہ دار نہیں ہو گی۔‘
کچھ عرصہ تک آپریشن جاری رہا جس کے بعد باجوڑ میں آہستہ آہستہ حالات ٹھیک ہوتے چلے گئے تھے۔
’میں مدد گار بنوں گی‘
ثنا پرویز کہتی ہیں کہ جب حالات کچھ بہتر ہوئے تو اس کے بعد سکول بھی کھلنا شروع ہو گئے۔
’اب ہمیں ایک اور سکول میں داخل کروایا گیا۔ وہاں کی پرنسپل صاحبہ میڈم تسلیم نے میرا اور میری بہن کا بہت خیال رکھا۔‘
وقت کے ساتھ ساتھ انھوں نے پشتو بھی سیکھ لی۔ ’کچھ بڑی کلاسوں میں گئے تو میڈم اور ہمارے اساتذہ کی وجہ سے ہمارے لیے ماحول کچھ بہتر ہوتا چلا گیا۔ ویسے بھی ساری توجہ تعلیم کی طرف تھی۔ چھوٹی عمر ہی میں اتنی زیادہ پریشانیاں دیکھ لی تھیں کہ اب کسی چیز کی پرواہ ہی ختم ہوگئی تھی۔‘
انھوں نے کالج میں داخلہ لیا تو دیکھا کہ وہاں بہت ہی کم طالبات کالج جاتی تھیں۔ مقامی روایات بھی طالبات کی تعلیم کے راستے میں رکاوٹ تھے۔
’پاپا ہمیں کالج بھیجتے تو ہمارے پیچھے پیچھے کالج تک آتے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم ویسے ہی کمزور لوگ ہیں اگر کسی نے اغوا کر لیا، کوئی نقصان پہنچایا تو کیا کروں گا۔‘
ثنا کا کہنا تھا کہ بی ایس سی کے بعد انھوں نے پہلی ملازمت ایک نجی سکول میں کی جہاں وہ تین ماہ تک کام کرتی رہیں مگر تنخواہ نہ ملی۔
’میرا اندازہ یہ تھا کہ کمزور کمیونٹی سے تعلق ہونے کی بنا پر وہ میرا ستحصال کر رہے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ میں احتجاج سمیت کچھ بھی نہیں کرسکتی تھی۔ تنگ آکر میں نے سکول جانا ہی چھوڑ دیا۔‘
لیکن ثنا نے ہمت نہیں ہاری اور نئی ملازمت کی تلاش شروع کردی تھی۔ اس دوران ایک بینک کی ملازمت کا اشتہار دیکھا تو وہاں درخواست دے دی۔
’یہ ملازمت انشورنس کے کام کے ساتھ منسلک تھی۔ مجھے اس کی تربیت بھی فراہم کی گئی تھی۔‘
ثنا کے لیے اب صورتحال یہ تھی کہ مردوں کے بیچ وہ واحد عورت تھیں۔ ’جو بھی بینک میں آتا وہ مجھے گھور رہا ہوتا تھا۔ میں چاہتی کہ وہ میرے ساتھ بات کرے مگر وہ میرے ساتھ بات کرنے سے کتراتے تھے بلکہ جن نظروں سے وہ دیکھ رہے ہوتے وہ بیان سے باہر ہیں۔‘
’بینک کا عملہ اور افسران بھی تعاون کرتے تھے مگر میں کوئی کارگردگی دکھا نہیں سکی۔ دکھاتی بھی کیسے، مجھ سے کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میرے پاپا سماجی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ لوگوں کی بہت مدد کرتے ہیں۔ میں ان سے بہت متاثر ہوں۔ بینک کی ملازمت بھی ختم ہوگئی تو میں نے پاپا کے ساتھ مل کر سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ اس دوران مجھے سمجھ آیا کہ ہمارے لوگ کتنی مشکلات کا شکار ہیں۔۔۔ حاملہ عورتیں ہسپتال پہچتے پہچتے دم توڑ رہی تھیں۔‘
ثنا پرویز کا کہنا تھا کہ ’اب میری تمام سرگرمیاں سماجی اور سیاسی خدمت پر مرکوز تھیں۔ میں سمجھ چکی تھی کہ سیاسی بیداری کے بغیر کچھ بہتر ہونا اتنا آسان نہیں۔ پاپا مجھے راستہ دکھا رہے تھے۔ اس دوران میری شادی ہو گئی تو میرے شوہر نے بھی مجھ پر کوئی پابندیاں نہیں لگائیں۔‘
’وقت کے ساتھ ساتھ میرا حلقہ بڑا ہوتا چلا گیا۔ یہ بات پاپا نے بھی محسوس کی۔ ہمارے درمیان اکثر یہ بات ہوتی کہ مجھے عملی طور پر سیاست میں حصہ لینا چاہیے۔ پاپا کہتے کہ صبر کرو مگر مجھے یہ موقع بلدیاتی انتخابات کے موقع پر مل گیا۔‘
انھوں نے اپنے والد اور شوہر کے مشورے سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے۔
’میرا خیال تھا کہ مقابلہ ہو گا۔ ہم انتخابی مہم کی تیاری کر رہے تھے مگر میرے مقابلے میں کسی نے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کروائے۔ اس طرح میں تحصیل کونسل کی جنرل کونسلر منتخب ہو چکی ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ جب سے ممبر منتخب ہوئی ہیں، لوگ مبارکباد دینے کے لیے آ رہے ہیں۔
’لوگ مجھے اپنی تکالیف بتا رہے ہیں۔ میں ان کی مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ اپنی پارٹی کے ساتھ مشاورت کر رہی ہوں کہ کس طرح ان مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہے۔‘
’مگر ایک بات سمجھ میں آچکی ہے کہ مجھے تعلیم اور صحت کے مسائل پر اپنی توجہ مرکوز رکھنی ہے۔ خواتین میں تعلیم ہو گی تو ان میں شعور آئے گا تو اپنی اور علاقے کی بھی تقدیر بدل سکیں گیں۔