خاسی برادری انڈیا کا وہ قبیلہ جہاں ماں کی چلتی ہے اور مرد برابری کے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں
انڈیا کے وسطی علاقوں اور خاص طور پر شمالی علاقوں میں اپنے سفر کے دوران میں نے کسی قصبے یا گاؤں میں کسی عورت کو دکان وغیرہ چلاتے کم ہی دیکھا ہے۔
اترپردیش میں ڈھابوں اور ریستورانوں میں بھی میں نے ہمیشہ مردوں کو ہی چپاتیاں اور سبزیاں پکاتے اور مردوں کو ہی انھیں تیز تیز کھاتے دیکھا ہے۔ اور کولکتہ اور گورکھپور کے درمیان ریل کے سفر میں بھی میں نے ہمیشہ خود کو مردوں کے درمیان ٹھونسا ہوا پایا ہے۔ اکثر مواقع پر مجھے خواتین عوامی مقامات سے غائب ہی نظر آئیں ہیں۔
لیکن انڈیا کی شمال مشرقی ریاست میگھالے میں مجھے چند چیزیں انتہائی مختلف دکھائی دیں۔
مثلاً ریاست کے صدر مقام شلونگ کے قدیم ترین بازار میں مجھے سڑک کی دونوں جانب قطار اندر قطار عورتیں ہی دکھائی دیں جو سبزیاں، قیمہ، اور ہاتھ کی بنائی ہوئی بھانت بھانت کی چیزیں فروخت کر رہی تھیں۔ علاقے کی بڑی بی، جسے مقامی زبان میں ’مئی‘ کہتے ہیں، سڑک کنارے لگے ٹھیلوں کے درمیان سے گزر رہی تھیں۔ اُن کی ہر چیز پر نظر تھی کہ منڈی میں کیا بھاؤ تاؤ ہو رہا ہے اور چلتے چلتے وہ اپنی خدمت پر مامور دوسری عورتوں پر حکم بھی چلا رپی تھیں کہ فلاں فلاں تازہ سودا سلف تھیلوں میں ڈالتی جاؤ۔
اس سفر کے بعد میں پانچ مرتبہ میگھالے گئی لیکن پھر کورونا کی وبا کی وجہ سے سفر پر نہ نکل سکی۔ اُن دوروں میں میں نے دیکھا کہ اس ریاست کے کئی مقامات پر نہ صرف خواتین عوامی مقامات پر نظر آتی ہیں بلکہ وہ ان مقامات پر راج کرتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج ریاست کی سب سے بڑی برادری، خاسی، جو دنیا کی قدیم آبادیوں میں سے ایک ہے، پدرسری کی بجائے مادر سری کے اصول پر چلتی ہے، یعنی ان کے ہاں عورتوں کو مردوں پر فوقیت حاصل ہے۔
خاسی برادری میں بچے کا نام اس کی ماں کے نام کی نسبت سے رکھا جاتا ہے۔ شادی کے بعد شوہر اپنا گھر چھوڑ کر بیوی کے گھر آ جاتا ہے جبکہ جائیداد کی وارث سب سے چھوٹی بیٹی ہوتی ہے۔
خاسی کون ہیں؟
اس برادری کا آغاز کب ہوا، اس حوالے سے کئی نظریات پائے جاتے ہیں۔
مقامی لوک کہانیوں کے مطابق خاسیوں کا تعلق ان سات برادریوں سے ہے جنھیں اوتار سمجھا جاتا ہے۔ معروف انڈین تاریخ دان اور مورخ ہیلٹ برے اپنی سنہ 1967 میں شائع ہونے والی کتاب ’خاسی لوگوں کی تاریخ و تہذیب‘ میں لکھا کہ اس برادری کا تعلق جنوب مشرقی ایشیا سے تعلق رکھنے والی آستک نسل کے ان مون کھمیر قبیلے کے لوگوں سے ہے جو صدیوں پہلے برما کے دور دراز جنگلوں میں رہتے تھے۔
اگرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ خاسی برادری نے مغرب کی جانب ہجرت کب کی اور یہ لوگ کب شمال مشرقی انڈیا میں آ کر آباد ہوئے، تاہم ان کی مادری بولی اور مون کھمیر کی زبان میں مماثلت پائی جاتی ہے۔
آج کل خاسی برادری کی اکثریت میگھالے کی ریاست میں رہتی ہے جسے سنہ 1972 میں ایک آزاد ریاست تسلیم کیا گیا تھا۔
سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران، کچھ خاسی باشندے اپنے قبیلوں سے بچھڑ گئے تھے اور وہ میگھالے کی سرحد کے پار بنگلہ دیش میں رہائش پزیر ہیں۔ اس برادری کا ایک اور بڑا حصہ میگھالے کی پڑوسی ریاست آسام میں بھی رہتا ہے۔
شلونگ میں نارتھ ایسٹرن ہِل یونیورسٹی سے منسلک خاسی تاریخ دان امینہ نورا پساہ کا کہنا ہے کہ خاسی روایات کی بنیاد نسل در نسل بتائی جانے والی باتوں پر قائم ہے، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس زبانی تاریخ کے مطابق اس برادی کی بنیاد بھی ایک پدر سری معاشرے کے طور پر رکھی گئی تھی۔
اس زبانی تاریخ کے مطابق بھی خاسی مرد اکثر جنگوں کے لیے میدانی علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ ان لڑائیوں میں کچھ مرد مارے جاتے تھے اور کچھ میدانی علاقوں میں ہی مقیم ہو جاتے تھے۔ یوں جب خاسی عورتیں پہاڑی علاقوں میں مردوں کے بغیر رہنا شروع ہو گئیں تو وہ دوسری شادی کر لیتیں اور اکثر بچوں کے والد کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا۔
پساہ کے مطابق یہ عین ممکن تھا کہ معاشرہ اس قسم کے بچوں کو ’ناجائز‘ کا طعنہ دے دیتا، اسی لیے ایک وقت آیا کہ ہمارے آباؤ اجداد نے سوچا کہ وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو اس بے عزتی سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ انھوں نے فیصلہ کیا کہ آئندہ بچوں کے نام ان کی ماؤں کے نام پر رکھے جائیں گے۔‘
خاسی برادری کی مادر سری کی یہ روایت دنیا کے کچھ اور معاشروں میں بھی پائی جاتی رہی ہے جہاں دولت اور جائیداد وراثت میں ماؤں سے بیٹیوں کو منتقل ہوتی تھی اور اگلی نسل ماں کے نام سے جانی جاتی تھی۔
روائتی طور پر خاسی برادری میں ایک سے زیادہ نسلیں ایک ہی گھر میں یا چھوٹے چھوٹے ذیلی قببلوں کی شکل میں رہتی ہے۔ چونکہ بیٹیوں کے نام کا آخری حصہ ان کی ماں کے نام سے جڑا ہوتا ہے اس لیے اس چھوٹے قبیلے یا خاندان کا نام بیٹی کے نام سے ہی آگے چلتا ہے۔
بیٹیوں کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ چاہیں تو اپنے آبائی گھر میں رہیں یا کسی دوسرے گھر میں منتقل ہو جائیں، ماسوائے چھوٹی بیٹی کے جو خاندان کی جائیداد کی حقدار ٹھہرتی ہے۔ یوں سب سے چھوٹی بیٹی شادی کے بعد بھی اپنا گھر نہیں چھوڑتی۔ وہ اپنے والدین کی دیکھ بھال کرتی رہتی ہے اور اپنی والدہ کی وفات کے بعد گھر کی سربراہ بن جاتی ہے۔
لاریتا سوکھلت ریاست کے صدر مقام شلونگ سے 65 کلومیٹر دور قدرتی مناظر سے بھرپور تڑنا نامی ایک گاؤں میں رہنے والی اپنے خاندانوں کی سب چھوٹی بیٹیوں میں سے ایک ہیں۔
سوکھلت اور ان کے شوہر سوکھلت کی ماں کے گھر میں ہی رہتے ہیں۔ اگرچہ اپنی والدہ کی وفات کے بعد جائیداد کی مالک سوکھلت بنیں گی، تاہم اس خاندان کا والی یا گارڈئین ان کا بھائی ادیرت ہے۔ ادیرت مقامی سکول کے پرنسل ہیں اور اپنی بہن کے خاندان کی مالی مدد وہی کرتے ہیں۔
ادیرت خود اپنے خاندان سے دور دوسرے گاؤں میں رہتے ہیں، یہ چیز خاسی برادری میں عام ہے۔ شادی کے بعد کوئی خاسی خاتون کبھی بھی اپنے شوہر کے گھر منتقل نہیں ہوتی، بلکہ شوہر اس کے گھر منتقل ہو جاتا ہے، لیکن آج کل کچھ مرد اپنے بیوی بچوں سے دور دوسری جگہ رہتے ہیں، خاص طور پر اس صورت میں جب ان کی بیویاں گھر سے دور کام کرتی ہوں۔
ادبرت، جو خود دو خاندانوں میں بٹے ہوئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’میرے بیوی بچے شلونگ میں رہتے ہیں۔ میں اکثر ان سے ملنے جاتا ہوں لیکن ساتھ ساتھ میں اپنی بہن اور والدہ کی دیکھ بھال بھی کرتا ہوں۔‘
حالیہ برسوں میں انھوں نے اپنی والدہ کے گھر میں کچھ رد و بدل کیا ہے تاکہ وہ علاقے میں آنے والے مسافروں کو کمرے کرائے پر دے کر اپنی بہن کے لیے کچھ اضافی پیسے کما سکیں۔
پساہ نے مجھے بتایا کہ خاسی تہذیب میں گھر کے ولی یا ’کِنی‘ کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ ’گھر کے سربراہ ہونے کے ناتے کِنی کو وراثتی جائیداد کی روز مرہ دیکھ بھال اور اس کی تقسیم پر مکمل اختیار حاصل ہوتا ہے اور خاندان کے ہر فیصلے پر اس کا مہر لگانا ضروری ہوتا ہے۔‘
پساہ مزید بتاتی ہیں کہ ماضی میں جب اپنی بیوی اور بچوں کی مالی مدد میں والد کا کوئی کردار نہیں ہوتا تھا تو مرد اپنی بہنوں اور ماں باپ کا خیال رکھتے تھے۔ ایسے مرد اپنی بیوی کے گھر رات کو دیر سے آتے تھے اور اگلی صبح اپنی والدہ کے کھیتوں میں کام کرنے کے لیے والدہ کے گھر چلے جاتے تھے۔‘
لیکن نو آبادیاتی نظام اور مشنری تعلیم کے طفیل کچھ خاسی لوگ روزگار کی تلاش میں اپنے گاؤں چھوڑ کر قصبوں میں منتقل ہو گئے۔ اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ جوں جوں صرف میاں بیوی اور بچوں والے چھوٹے (نیوکلیئر) کنبوں کا رواج بڑھنے لگا، تو کِنی کی طاقت کم ہوتی گئی۔ اگرچہ گاؤں میں ابھی تک خاندان کی سربراہ خاتون ہی ہوتی ہے لیکن شہروں اور قصبوں میں رہنے والے مسیحی گھرانوں میں والد کو ہی گھر کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔
پساہ کے بقول ’میں اسی لیے ہمیشہ سے کہتی آئی ہوں کہ میگھالے معاشرہ ایک مادر سری معاشرہ ہے تاہم آپ کو کہیں کہیں اس میں پدرسری کے پہلو بھی دکھائی دیتے ہیں۔‘
لیکن اس کے باوجود آپ اگر انڈیا کے پدر سری والے علاقوں کا موازنہ، خاسی تہذیب سے کریں تو آپ کو ان دونوں میں فرق نظر آئے گا۔ انڈیا میں گلیوں سڑکوں پر خواتین پر فقرے کسنا اور انھیں ہراساں کرنا عام سی بات ہے، لیکن میگھالے میں مجھے کبھی بھی اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کبھی کسی اجنبی نے مجھ سے زبردستی گفتگو کرنے کی کوشش نہیں کی، لیکن اگر مجھے کبھی رستہ تلاش کرنے میں دقت ہوئی تو مردوں نے میری ہمیشہ مدد کی۔
میں نے شلونگ میں کئی مرتبہ پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کی اور مرد مسافروں نے میرا ہمیشہ احترام کیا اور یہ یقینی بنایا کہ مجھے کوئی تکلیف نہ ہو۔ انڈیا کے دیگر دور دراز علاقوں کے برعکس یہاں عورتیں آزاد زندگی گزارتی ہیں۔
مثلاً میگھالے میں میری میزبان کا تعلق ماسنرام نامی ایک گاؤں سے ہے وہ بھی آزادانہ زندگی بسر کرتی ہیں۔ ان کی عمر 30 سے کچھ اوپر ہے، وہ غیر شادی شدہ ہیں اور اکیلی رہتی ہیں۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہو سکتا ہے انڈیا کے دوسرے دور دراز علاقوں میں بہت معیوب سمجھا جاتا ہو۔
وہ جب بھی مرد ڈرائیوروں کو مجھے کسی جگہ لیجانے کا کہتیں، وہ ہمیشہ ان کی بات سُنتے۔ اسی طرح دیگر علاقوں میں لوگ مجھ سے ہمیشہ پوچھتے ہیں کہ آیا یوں اکیلے سفر کرنے پر میرے والد کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن میگھالے میں مجھ سے کبھی کسی نے یہ سوال نہیں کیا۔
خاسی قبیلے سے تعلق رکھنے والی مصنفہ دریبھا لِنڈم نے مجھے کچھ عرصہ پہلے بتایا کہ وہ ممبئی کے مقابلے میں خود کو میگھالے میں زیادہ محفوظ سمجھتی تھیں۔ مجھے اب سمجھ آئی کہ وہ ایسا کیوں کہہ رہی تھیں۔
دریبھا لِنڈم کہتی ہیں کہ باقی انڈیا کی نسبت ’میرا تجربہ یہ ہے کہ (میگھالے میں) مرد عورتوں کا احترام کرتے ہوئے ان پر برتری کم جتلاتے ہیں۔ خاسی عورتوں کو خاندان کی مرضی سے شادی کے حوالے سے دباؤ نہیں برداشت کرنا پڑتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میگھالے میں عورتوں سے تعصب نہ برتا جاتا، لیکن وہاں عورتوں کی آواز کو ہو سکتا ہے نظر انداز کیا جائے، لیکن اس کو اتنا نہیں دبایا جاتا جتنا باقی انڈیا میں دبایا جاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ میگھالے میں لڑکیوں کی پیدائش پر اتنی ہی خوشی منائی جاتی ہے جتنی لڑکوں کی پیدائش پر منائی جاتی ہے۔
اسی طرح انگریزی کے روزنامہ ’سی شلونگ ٹائمز‘ کی مدیر اور سرگرم کارکن پیٹریسیا مخیم کہتی ہیں کہ انڈیا کے دیگر علاقوں میں پدرسری زندگی کے ہر شعبے کی جڑوں میں شامل ہے۔
’فیصلہ سازی میں مردوں کے کردار سے لے کر سیاست، تعلیم و تدریس، کاروبار اور زندگی کے ہر شعبے میں عورتوں کی عدم موجودگی تک۔‘ اگرچہ انڈیا کے دیگر علاقوں میں لڑکیوں کو تعلیم اور روزگار میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن پیٹریسیا کہتی ہیں کہ خاسی برادری میں صورتحال مختلف ہے۔
اُن کے بقول ’خاسی عورتوں کو معاشرے میں آگے بڑھنے کی آزادی حاصل ہے اور انھیں معاشی بہتری کی راہ میں بھی کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘
اس حوالے سے مجھے ایک بڑی عمر کی خاتون کی مثال یاد دلائی گئی جو شلونگ کی مارکیٹ میں سبزیوں کی تھوک کی دکان چلا رہی تھیں۔ انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے جوانی میں ہی اپنے شوہر کو چھوڑ دیا تھا، جس کے بعد انھوں نے سبزی کے کاروبار کے ساتھ ساتھ اپنے بچے بھی اکیلے ہی پالے۔
خاتون کا کہنا تھا کہ ’اس میں یہ صلاحیت ہی نہیں تھی کہ ہم سب کو کھِلا پلِا سکتا۔ مجھے اس کی مدد کی کوئی ضرورت نہیں تھی، چنانچہ میں نے اسے کہا کہ اپنا رستہ ناپو۔‘
انھوں نے بتایا کے شوہر کے چلے جانے کے بعد ان کے کئی مرد ساتھی رہے۔ اور گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی ہوتے ہوئے خاندان کی جائیداد کی ملکیت بھی ان کے حصے میں گئی اور اب ان کے پاس مرد اور خواتین دکانداروں کی ایک پوری ٹیم موجود ہے۔
لیکن جوں جوں زیادہ سے زیادہ خاسی افراد اپنے بڑے بڑے خاندانوں سے دور رہنے لگے تو ماؤں پر ایک نئے بوجھ کا اضافہ ہوتا گیا۔ اس لیے مخیم کہتی ہیں کہ ’مادر سری کی روایت کے مطابق اگر والد گھر چھوڑ جائے تو بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری اس پر نہیں رہتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ میگھالے میں ایسے گھرانوں کے تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جن کی سربراہ خاتون ہوتی ہے۔ ماضی میں پورا خاندان ایسی ماں کی مدد کو آ جاتا تھا جس کا شوہر گھر چھوڑ گیا ہو، لیکن چونکہ اب خاندان میں افراد کی تعداد کم ہو گئی ہے، اس لیے ماں کو خود پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔‘
اس کے علاوہ میگھالے میں کچھ مرد اس تبدیلی سے بھی نالاں ہو گئے ہیں۔ ایک لحاظ سے دور جدید کے مردوں کی آزادی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم، سِنگکونگ رائمپی تھمائی، ریاست میں مادر سری نظام کے خاتمے کے لیے لڑ رہی ہے۔ اس قسم کے مردوں میں سے ایک نے بی بی سی کو بتایا کہ اس تنظیم سے منسلک مرد ’خواتین کو نیچے نہیں لانا چاہتے۔۔۔ ہم صرف مردوں کو اوپر اس مقام پر لانا چاہتے ہیں جہاں خواتین کھڑی ہیں۔‘
مخیم کے مطابق ’یہ مرد سمجھتے ہیں کہ چونکہ بچے اپنی ماؤں کے نام سے پہچانے جاتے ہیں، اس لیے یہ مرد نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے۔ ان مردوں کا خیال ہے کہ مرد اپنی بیویوں کے گھروں میں خود کو زیادہ محفوظ نہیں سمجھتے اور نہ ہی اپنے خاندان والوں کے گھر میں کیونکہ اپنے والدین کا گھر تو یہ لوگ پہلے ہی چھوڑ چکے ہوتے ہیں۔‘
پساہ کے مطابق ایسے مردوں کی تعداد بہت کم ہے جو مادر سری کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ ’دیکھیں، یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو تبدیلی سے گزر رہا ہے۔ کچھ خاندانوں نے جائیداد میں (لڑکوں اور لڑکیوں کو) برابر کا حصہ دینا شروع کر دیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اب بھی سب سے زیادہ جائیداد چھوٹی بیٹی کو ہی ملے لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے بوڑھے والدین کا خیال رکھنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
اگرچہ آج کل کئی خاسی خاندانوں کے سربراہ مرد ہوتے ہیں تاہم پساہ کی طرح میگھالے میں اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ صدیوں پرانی خاسی تہذیب میں عورت کے نام سے خاندان کی پہچان کی سوچ اس قدر راسخ ہے کہ خاسیوں میں یہ روایت ابھی کئی اور دہائیوں تک زندہ رہے گی۔
تاہم دوسری جانب خاسی عورتوں کے کردار میں بھی ارتقاع جاری ہے۔ مثلاً مادر سری معاشرے میں پنچائیت جیسے معاشرتی اداروں میں عورتوں کو فیصلہ سازی سے باہر رکھا جاتا تھا، لیکن پساہ سمجھتی ہیں کہ حالیہ عرصے میں اس حوالے سے بھی آہستہ آہستہ بہتری آ رہی ہے، خاص طور پر شہری علاقوں میں۔
’میں خود اپنی کالونی کی کونسل کی دو خواتین ارکان میں شامل ہوں۔ اس سے پہلے کبھی کوئی خاتون اس کونسل میں نہیں ہوتی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین آگے بڑھ رہی ہیں۔