حنا ربانی کا دورہ کابل یہ ایک خاتون کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں مگر اپنی بیٹیوں کو سکول نہیں جانے دیتے
پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی قیادت میں ایک وفد نے منگل کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان حکام سے ملاقات کی تو سوشل میڈیا پر اسے طالبان کے زیر کنٹرول افغانستان میں خواتین پر عائد سخت پابندیوں کے تناظر میں دیکھا گیا۔
جہاں دونوں ممالک کے وفود کے درمیان بہت سے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا وہیں بہت سے صارفین نے حنا ربانی کھر اور طالبان حکام کے درمیان ہونے والی ملاقات پر ردعمل کا اظہار کیا۔
دونوں جانب سے جاری ہونے والی اعلامیوں کے مطابق اس ملاقات میں پاکستان میں افغان قیدیوں کی رہائی، ویزوں، کاروباری سہولیات اور دیگر اہم امور زیر غور آئے۔ تاہم بہت سے لوگوں نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کو لڑکیوں پر پردے کی پابندی اور تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان حکومت کے حامیوں نے اسے ایک ’سیاسی ضرورت‘ قرار دیا اور کہا کہ افغان اپنے قوانین کا اطلاق ’مہمانوں‘ پر نہیں کرتے۔
ایسے میں پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر کی کابل ایئر پورٹ پر طیارے سے اترنے کے بعد ملاقات کی مختصر ویڈیو کا کافی چرچہ رہا۔
چند سیکنڈ کی اس مختصر ویڈیو پر مختلف قسم کے تبصرے کیے گئے ہیں۔
اس ویڈیو میں حنا ربانی کھر کو سن گلاسز لگائے، سر پر ایک نازک دوپٹے کے ساتھ طیارے سے اُترتے ہوئے اور طالبان حکومت کے نمائندوں کو سلام کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
طالبان حکام بھی مسکراہٹ کے ساتھ معمول کے سفارتی پروٹوکول کی پیروی کرتے ہیں، کچھ اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر ان کا استقبال کرتے ہیں، کچھ سر ہلاتے ہیں، اور کچھ پاکستانی وفد کے مرد ارکان پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
پاکستانی سوشل میڈیا صارفین نے حنا ربانی کھر کے اس انداز کی تعریف کی، اور بیشتر صارفین کے مطابق پاکستانی وزیر نے طالبان سے متاثر ہونے کے بجائے ’اپنے انداز‘ میں ملاقات کی۔
دوسری جانب طالبان کے ناقدین نے لکھا کہ وہ ’غیر ملکی خاتون کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہیں، لیکن اپنی بیٹیوں کو سکول نہیں جانے دیتے۔‘
چند صارفین کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ طالبان سیاسی اور سفارتی سطح پر بات چیت کر رہے ہیں۔
پاکستانی صحافی مرتضیٰ سولنگی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ جب آپ طالبان جیسے خواتین مخالف لوگوں سے بات کرنا چاہیں تو حنا ربانی کو بھیج دیں، وہ آپ کے لیے یہ کام کر دیں گی۔
اشوک سوین نے لکھا کہ ’افغان طالبان نے لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت نہیں دی ہے۔ ایسے میں حنا ربانی کھر نے طالبان سے ملاقات کرتے ہوئے سر مکمل طور پر نہیں ڈھانپا۔ کیا اس میں کوئی پیغام چھپا ہے؟‘
پاکستانی صارف آمنہ سلمان نے لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ حنا ربانی کھر کو بھجوانا پاکستان کی جانب سے ایک پیغام تھا کہ پاکستان کی خواتین تعلیم کے حق کے لیے افغان خواتین کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں جس کی اسلام اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ تلقین کرتا ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’حنا ربانی کھر، ہمیں آپ پر فخر ہے۔‘
اگرچہ یہ غیر ملکی خواتین نمائندوں کے ساتھ طالبان کی پہلی ملاقات نہیں تھی، لیکن حنا ربانی کھر کے مسلمان ہونے کی وجہ سے طالبان کے ناقدین کو ایک اچھا موقع ملا۔
میدان وردگ کی سابق میئر ظریفہ غفاری نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’طالبان رہنما حنا کھر کے ساتھ بیٹھیں گے، ان کے خوبصورت بالوں کو دیکھیں گے، لیکن افغان خواتین کو قید کیا جاتا ہے، سکول بند کیے جاتے ہیں اور ملازمت کے مواقع سے انکار کیا جاتا ہے۔‘
گزشتہ روز بی بی سی کے ایک پروگرام میں شریک سردار محمد نے اس ملاقات کو ایک ضرورت قرار دیا تو دوسری جانب کسی نے کہا کہ پاکستان نے اپنے وزیر خارجہ بلاول بھٹو کو کیوں نہیں بھیجا؟
عبدالسلام بوری نے اس ملاقات کو ایک امید افزا تبدیلی قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ طالبان کے لیے ضروری ہے کہ وہ محترمہ حنا ربانی کھر کے ساتھ بیٹھیں اور وہ افغان لڑکیوں کی ضروریات پر بھی غور کریں اور سکول کھولیں۔
پاکستانی وفد کے دورہ کابل کے دوران جہاں حنا ربانی کھر نے طالبان کے نائب وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی سے ملاقات کی، وہاں افغان قیدیوں کی رہائی، ویزوں کی سہولت، کاروباری سہولیات اور دیگر اہم امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
واضح رہے کہ یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی جب حال ہی میں طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان ڈیورنڈ لائن پر کشیدگی پیدا ہوئی جس کے نتیجے میں جانی نقصان بھی ہوا۔
دوسری جانب پاکستانی طالبان گروپ نے افغان طالبان کی ثالثی کے ذریعے چند ماہ قبل طے پانے والی جنگ بندی بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔