حجاز ریلوے سلطنت عثمانیہ کا مسلمانوں کو متحد کرنے کا منصوبہ بے یار و مددگار کیوں؟
عمان میں ایک دُھول اور مٹی سے اٹی سڑک پر سفر کرتے ہوئے ممکن ہے کہ ’حجاز ریلوے سٹیشن‘ آپ کی نظروں سے اوجھل رہ جائے۔ وہاں پہنچنے کے لیے آپ کو شہر کی اُن پُرپیچ گلیوں کو بھی نظرانداز کرنا ہو گا، جو بھول بھلیوں سے کم نہیں اور شہر کے تاریخی مرکز، پہاڑوں اور قدیم قلعے جیسی مشہور جگہوں کے اِردگرد شیطان کی آنت کی طرح پھیلی ہوئی ہیں۔
حجاز ریلوے سٹیشن تک پہنچنے کا سفر تقریباً پانچ کلومیٹر کا ہی ہے مگر ٹریفک کی وجہ اُردن کے دارالحکومت عمان میں اکثر رش ہی رہتا ہے، تو ایسے میں یہ سفر مزید طویل ہو جاتا ہے۔
ریلوے سٹیشن کے داخلی پتھر سے بنے دروازے سے داخل ہوتے ہی آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ کسی اور ہی زمانے اور دنیا میں پہنچ گئے ہیں۔ یہاں بھاپ کے انجنوں کی اب بھی ریل پیل ہے۔ اس بارے میں کافی امیدیں ہیں کہ یہ ریلوے ٹریک مسلم دنیا کو یکجا کر سکتا ہے۔
حجاز ریلوے کو سنہ 1900 میں سلطنت عثمانیہ موجودہ ترکی کے سلطان عبدالحمید دوم کے حکم پر تعمیر کیا گیا تھا تاکہ حج کے لیے مکہ تک سفر کو آسان اور محفوظ بنایا جا سکے۔
س سے پہلے زائرین اونٹوں پر قافلوں کی شکل میں مہینوں نہیں تو ہفتوں کا سفر کر کے مکہ پہنچتے تھے۔ دمشق سے مدینہ تک پہنچنے میں کم از کم 40 دن لگتے اور بہت سے زائرین راستے میں خشک صحراؤں اور سخت پہاڑوں کی وجہ سے جان کی بازی ہار جاتے۔ مگر ریلوے کی تعمیر نے 40 دن کا یہ سفر مختصر کر کے صرف پانچ دن کر دیا۔
اس پراجیکٹ کے تحت ریلوے لائن کا دمشق، مدینہ سیکشن مکمل ہونے کے بعد اس ریلوے لائن کو شمال میں عثمانی دارالحکومت قسطنطنیہ اور جنوب میں مکہ تک پھیلانا منصوبے میں شامل تھا۔ لیکن مذہب اسلام کے لیے اس ریلوے سٹیشن کی اہمیت یہیں ختم نہیں ہوتی۔
اُس وقت نقل و حمل کے اس غیر معمولی منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے مالی اعانت مکمل طور پر مسلمانوں کے عطیات، عثمانی ریاست کے محصولات اور ٹیکسوں سے ہوتی تھی اور اس میں کسی قسم کی غیر ملکی سرمایہ کاری شامل نہیں تھی۔
اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی اس راستے کو ’وقف‘ سمجھا جاتا ہے: یعنی ایک ایسا اثاثہ جو تمام مسلمانوں کا مشترکہ ہے۔
اُردن میں حجاز ریلوے کے ڈائریکٹر جنرل عظمی نالشک کہتے ہیں کہ ’یہ کسی ملک کی ملکیت نہیں، یہ کسی شخص کی ملکیت نہیں۔ یہ دنیا کے تمام مسلمانوں کی ملکیت ہے۔ یہ ایک مسجد کی طرح ہے اور اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔‘
عظمی نالشک کہتے ہیں کہ ’دنیا کا کوئی بھی مسلمان حتیٰ کہ انڈونیشیا اور ملائیشیا سے آنے والا مسلمان بھی، آ کر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اس میں میرا حصہ بھی ہے۔‘
سلطان عبدالحمید دوم کے لیے مسلم دنیا کو متحد کرنا صرف ایک روحانی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کے عملی فوائد بھی تھے۔ ریلوے کی تعمیر سے قبل پچھلی چند دہائیوں کے دوران، حریف سلطنتیں عثمانی سرزمین سے کافی دور ہو چکی تھیں۔
فرانسیسیوں نے تیونس پر قبضہ کر لیا تھا، انگریزوں نے مصر، رومانیہ، سربیا پر حملہ کیا اور مونٹی نیگرو نے آزادی حاصل کی۔
عثمانی دنیا کے لوگوں کو آپس میں جوڑ کر سلطان عبدالحمید دوم ناصرف مسلمانوں کو بلکہ اپنی سلطنت کو بھی متحد کرنا چاہتے تھے لیکن ایسا ہو نہیں سکا۔
سنہ 1908 میں پہلی ٹرین دمشق سے مدینہ تک چلی اور اگلے ہی سال سلطان کا تختہ الٹ دیا گیا۔
آج سلطنت عثمانیہ ماضی کا حصہ بن چکی ہے۔ اسی طرح وہ سرحدیں، جو کبھی اس راستے کی خاص بات تھیں، اب پانچ ممالک (ترکی، شام، اردن، اسرائیل اور سعودی عرب) میں بٹ چکی ہیں۔
سنہ 1914 تک ہر سال تین لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولت فراہم کرنے کے باوجود حجاز ریلوے کا عروج صرف ایک دہائی تک ہی جاری رہا۔
پہلی جنگ عظیم میں جب ترک فوج نے اسے استعمال کرنا شروع کیا تو برطانوی افسر ٹی ای لارنس (جنھیں لارنس آف عریبیہ‘ کا لقب دیا گیا) اور عرب بغاوت کے دوسرے سپاہیوں نے اس پر حملہ کیا۔
جنگ کے بعد جب انگریزوں اور فرانسیسیوں نے مشرقی بحیرہ روم میں لیونٹ کے علاقے کی بحالی کی تو مسلمانوں کو متحد کرنے والے اس ریلوے کو برقرار اور بحال رکھنا ان کی اولین ترجیح تھی کیونکہ اس ریلوے لائن کا بیشتر حصہ اس وقت تک خراب ہو چکا تھا۔
آج بھاپ کے ’رنگین لیکن خاموش‘ انجن عمان میں ریلوے کے مرکزی سٹیشن پر بیکار کھڑے ہیں۔
یہاں پر موجود میوزیم میں اس ریلوے سے منسلک مختلف چیزیں جیسے پرانے ٹکٹ، تصاویر اور لالٹینیں رکھی گئیں ہیں۔ 20ویں صدی کے اوائل میں بحال کی گئی ایک بو گی، عالیشان مخملی کرسیاں اور سنہری لیمپ آج بھی اس دور کی خوشحالی کا احساس دلاتی ہیں۔
سکالر شیخ علی عطنطوی نے اس ریلوے لائن کے غیر فعال ہونے کے بعد لکھا تھا کہ ’حجاز ریلوے کی کہانی ایک حقیقی المیہ ہے۔ وہاں لائن موجود ہے لیکن کوئی ٹرین نہیں چلتی۔۔۔ سٹیشن موجود ہیں لیکن کوئی مسافر نہیں۔‘
لیکن یہ محض ختم ہوتی امیدوں اور کوتاہی کی ہی کہانی نہیں۔ گزرے کئی برسوں مں اس کے چند حصوں کو دوبارہ بحال کیا گیا۔
اسرائیل نے سنہ 2016 میں حیفہ سے بیت شیان تک اس ریلوے لائن کے دوبارہ تعمیر شدہ حصے کو فعال کیا۔
سنہ 2011 میں یہ ریلوے لائن عمان سے دمشق تک چلی بھی تھی اور اسے اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ بہت سے مقامی لوگوں نے حیرت سے کہا کہ کیسے وہ ’ویک اینڈ‘ پر شام جانے کے سفر سے لطف و اندوز ہوئے۔
اُردن میں آج بھی اس ریلوے لائن کے دو حصوں تک عوام کو رسائی حاصل ہے۔ یہاں پر صرف گرمیوں میں چلنے والا بھاپ کا انجن ہے جو بنیادی طور پر سیاحوں کے لیے ہے اور یہ وادی رم کے صحرا سے گزرتا ہے: وہی لائن جس پر لارنس آف عربیہ نے ایک بار حملہ کیا تھا۔
اس کے علاوہ یہاں ایک ہفتہ وار ٹرین بھی ہے جو پورا سال عمان سے الجزہ سٹیشن تک چلتی ہے اور جسے زیادہ تر مقامی لوگ تفریح کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
ایک سنیچر کی صبح عمان کے حجاز ریلوے سٹیشن پر کئی خاندانوں کا رش تھا۔ سر پر گہرے اور چمکیلے رنگ کے سکارف پہنے خواتین کھانے پینے کی اشیا کے کئی بیگ اٹھائے ہوئے تھیں۔ بچوں نے فٹ بال اور کھلونے اٹھائے ہوتے ہیں۔
ہم عمان سے الجِزہ کے لیے ٹرین لے رہے تھے: 35 کلومیٹر کے اس سفر کے دوران جہاں ٹرین کو تنگ راستوں سے گزرتے ہوئے اپنی رفتار 15کلومیٹر فی گھنٹہ رکھنی ہوتی ہے وہیں منزل تک پہنچنے کے لیے دو گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے، یعنی 35 کلومیٹر کا سفر دو گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔
لیکن اصل مزہ اس دلچسپ سفر کا ہے۔
جیسے ہی ٹرین سٹیشن سے باہر نکلی بچوں نے خوشی سے چیخنا اور شور مچانا شروع کر دیا۔ وہ ایک دوسرے کی بوگیوں میں جمع ہوتے اور ٹرین کی ریلینگ کے ساتھ لٹکتے۔
کچھ مقامات پر یہ تاریخی ٹریک جدید سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے جیسے کہ ایک چوراہے پر ہم پارکنگ میں کھڑی گاڑیوں اور پھلوں اور مرغوں کے ڈبوں سے لدے ہوئے ایک پک اپ ٹرک کے پاس سے بھی گزرے۔
ایک بوڑھے آدمی اور اس کے پوتے نے دیوار کے ایک سوراخ سے ہماری طرف جھانکا۔ چھوٹے بچے پلاسٹک کے کپ پھینکتے ہوئے ٹرین کی طرف بھاگے۔ ایک بچی نے شور سُن کر اپنے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔
لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا: ٹرین میں سوار بچے پُرجوش تھے۔ زیادہ تر کا تعلق عمان سے تھا جو اپنے شہر کو مختلف انداز میں دیکھنے کے بارے میں کافی پُرجوش تھے اور ایک چھوٹا سا گروپ، جو ہر کسی کو مسکرا کر دیکھ رہا تھا، شامی پناہ گزینوں کا تھا۔
ان سب کے لیے حجاز ریلوے ایک ’ایڈونچر‘ تھا۔
ٹرین کی بوگیوں میں پارٹی کا ماحول تھا۔ خواتین نے اپنے ساتھ لائے سپیکرز پر اونچی آواز میں موسیقی لگا رکھی تھی۔ جب میں ایک بوگی کے پاس سے گزری تو چند خواتین خوشی میں رقص کر رہی تھیں اور مجھے دیکھ کو وہ تھوڑا شرما گئیں، اور ہنسنے لگیں۔
دو گھنٹے بعد الجزہ سٹیشن پہنچنے پر سب لوگ اپنی اپنی راہ ہو لیے اور زیتون کے درختوں کے سائے میں لگی میزوں کی طرف جانے لگے۔ چائے کے جگ اور مقامی کھانے باہر نکالے جانے لگے۔
سٹیشن کے پیچھے کچھ لڑکوں نے حقہ پینا شروع کر دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔
تفریح، سیاحت، مزے: آج کل یہ ٹریک زیادہ تر اسی مقصد کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن ابھی بھی امیدیں ہیں کہ اپنے عروج کے زمانے کی طرح حجاز ریلوے کی اہمیت اس سے کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔
نالشک کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اس میں عملی صلاحیت موجود ہے: ہر روز چھ لاکھ لوگ زرقا سے عمان تک 30 کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہیں لیکن وہاں پبلک ٹرانسپورٹ بہت کم ہے۔
اس بارے میں تحقیق کی جا رہی ہے کہ آیا ان دونوں شہروں کے درمیان حجاز ریلوے کی بحالی سے ٹریفک میں مدد مل سکتی ہے۔
نالشک کہتے ہیں کہ ’ایک اور مقصد لوگوں کو حجاز ریلوے کی تاریخ سے متعارف کرانا ہے۔ بہت سے لوگ یہاں سے گزرتے ہیں لیکن نہیں جانتے کہ یہاں پر کوئی سٹیشن ہے جو گذشتہ 110 سے فعال ہے۔ میں کوشش کر رہا ہوں کہ اردن کے سیاحتی نقشے میں اسے شامل کیا جائے۔
ایک اور مقصد ریلوے کو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل کرنا ہے۔
سعودی عرب نے سنہ 2015 میں اس تجویز کو غور کے لیے پیش کیا تھا (اگرچہ سعودیہ نے اردن کی طرح حقیقی نقل و حمل کے لیے اس لائن کو بحال نہیں کیا لیکن اس ریلوے ٹریک کے بارے میں اس کا ایک چھوٹا سا میوزیم ہے اور وہ ریلوے کو بھی اپنے ورثے کا حصہ سمجھتا ہے)۔
ایسے وقت کا تصور کرنا مشکل لگتا ہے کہ جب اس ریلوے ٹریک کے ذریعے ٹرین شام سے مسافروں کو دوبارہ سعودی عرب لے جائے گی لیکن جب تک حجاز ریلوے کے ورثے کو زندہ رکھا اور پہچانا جاتا ہے تو اس کی دوبارہ بحالی کی امید اور صلاحیت بھی قائم رہے گی۔