جے-10 سی فائٹر جیٹ چینی ساختہ جدید طیارے کن صلاحیتوں کے حامل ہیں اور کیا واقعی پاکستان انھیں خریدنے کا خواہشمند ہے؟
وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے رواں برس 23 مارچ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والی یوم پاکستان کی پریڈ کے موقع پر چینی ساختہ لڑاکا طیاروں ’جے-10 سی‘ کے ایک سکواڈرن کی نمائش (فلائی پاسٹ) کا اعلان کیا ہے۔
ان اطلاعات کے بعد سے پاکستان اور انڈیا کے دفاعی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ آیا پاکستان یہ لڑاکا طیارے خرید بھی رہا ہے یا پریڈ میں ان طیاروں کا شامل ہونا محض ایک حکمت عملی کا حصہ ہے۔
پاکستانی حکام اور ماہرین کی آرا اور تبصروں کے مطابق اِن جدید لڑاکا طیاروں کا پاکستان کی دفاعی فورس کا مستقل حصہ بننے کی صورت میں پاکستانی بحریہ کا بحیرۂ عرب کے اندر کردار نہ صرف وسیع ہونے کا امکان ہے بلکہ ان طیاروں کی بدولت پاکستان کی سمندری سرحدوں کا دفاع بھی مضبوط ہو جائے گا۔
پاکستانی ایئر فورس کے ایک سابق افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ‘جے-10 لڑاکا طیارے سمندری یا آبی سرحدوں کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان طیاروں کے حصول سے بحیرۂ عرب میں پاکستانی بحریہ کی موجودگی بڑھ جائے گی۔‘
کیا پاکستان یہ جدید چینی لڑاکا طیارے خرید رہا ہے؟
طاقت کے ایوانوں سے سامنے آنے والے بیانات نے چین سے جے-10 فائٹر جیٹس کے دو سکواڈرن خریدنے کے معاہدے کے بارے میں یہ ابہام پیدا کر دیا ہے کہ آیا یہ معاہدہ طے پا گیا ہے یا ابھی ایسا ہونا ابھی باقی ہے۔
وفاقی حکومت غالباً چینی ساختہ لڑاکا طیاروں جے-10 کو رواں سال ہونے والی 23 مارچ کی پریڈ کے موقع پر سامنے لانے میں دلچسپی رکھتی ہے جسے وہ اپنی ‘سیاسی کامیابی’ کے طور پر سامنے لانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ لیکن ان طیاروں کی اس پریڈ میں شمولیت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ طیارے پاکستانی ملکیت کے طور پر فلائی پاسٹ کریں گے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ ابھی اس طیارے کی بابت دونوں ممالک میں کوئی باضابطہ معاہدہ نہیں ہوا۔ تاہم ایک ذریعے کے مطابق ‘یہ سب کچھ جھٹ پٹ ہو جائے، یہ امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔’
ایک دیرینہ روایت رہی ہے کہ پاکستان اپنے زیرِاستعمال فوجی ہتھیاروں اور ساز و سامان کی 23 مارچ کی پریڈ میں نمائش کرتا آیا ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق عام طور پر یہ نمائش دشمن کے لیے ہوتی ہے اور اپنے دستوں کو دکھانے کے لیے بھی کہ پاکستان کی صلاحیت کیا ہے اور وہ عسکری لحاظ سے کس طرح کی طاقت رکھتا ہے۔
پاکستان ایئر فورس (پی اے ایف) کے ترجمان نے اس اعلان پر تبصرہ کرنے سے انکار کیا ہے کہ 23 مارچ کی پریڈ میں ‘جے-10’ طیاروں کے دو سکواڈرن حصہ لیں گے۔
تاہم اس سے قبل وزیر داخلہ شیخ رشید اس حوالے سے اعلان کر چکے ہیں جسے انڈین میڈیا میں کافی نمایاں انداز میں شائع کیا گیا تھا اور یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان ان طیاروں کو خرید رہا ہے۔
ایک سرکاری افسر نے بتایا کہ ’اب تک کوئی ڈیل یا معاہدہ نہیں ہوا جس پر اس لڑاکا طیارے کی خریداری کے سلسلے میں دستخط ہوئے ہوں۔‘
مشرف حکومت کے آخری دنوں میں بھی پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان چین سے ‘جے-10’ طیارے خریدے گا لیکن معاشی و اقتصادی مشکلات کے سبب یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا۔ ان دنوں میں بھی یہ اعلان شیخ رشید نے ہی کیا تھا جو اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ق) کے وزرا پر مشتمل کابینہ کا حصہ ہوا کرتے تھے۔
ماہرین کی رائے ہے کہ کیونکہ شیخ رشید کی موجودہ وزارت کا ان معاملات میں کوئی عمل دخل نہیں، اس لیے جے-10 طیاروں کی خریداری کے معاملے میں ان کے بیان کی صداقت کے حوالے سے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔
ادھر وزارت دفاعی پیداوار کی ’ایئر بُک‘ (سالانہ کتابچہ) میں جے-10 لڑاکا طیاروں کی خریداری، ان کی مرمت و بحالی، ’اووَرہال‘ (ایم آر او)، کی سہولیات سے متعلق کوئی ذکر موجود نہیں جبکہ عام طور پر ایسی خریداری کا ’ایئر بُک‘ میں ذکر شامل ہوتا ہے۔
وزارت دفاعی پیداوار کی طرف سے آخری بار ’ایئر بُک‘ 2021 کی آخری سہہ ماہی میں جاری ہوئی تھی جس میں اس خریداری کے بارے میں کوئی ذکر نہیں۔
چینی جے-10 طیارے ’ملکی دفاع کو مزید مضبوط بنا سکتے ہیں‘
دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان آرمی نے حال ہی میں ‘ایچ کیو-9’ زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل حاصل کیے ہیں جو انڈیا کی طرف سے خریدے گئے رفال طیاروں کو اپنے علاقے سے دور رکھنے کی صلاحیت کے حامل ہیں۔
شیخ رشید نے دعویٰ کیا تھا کہ جے-10 انڈین رفال طیاروں کے مقابلے کے لیے حاصل کیے جا رہے ہیں۔
اکتوبر 2021 میں جب یہ ‘ایچ کیو-9’ میزائل پاکستانی فوج کے ہتھیاروں میں شامل کیے گئے تو آرمی چیف نے کہا تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے حامل ان میزائلوں کے حصول سے لاحق خطرات سے پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہو گیا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ایچ کیو-9 اتنا موثر ہے کہ یہ پاکستانی فضائی حدود میں کسی انڈین لڑاکا طیارے کو داخل ہونے نہیں دے سکتا۔ مگر دوسری طرف جے-10 طیاروں کی نمائش کا مقصد دراصل اس لیے ہے کیونکہ انڈین فوج اور ذرائع ابلاغ کے حلقوں میں رفال لڑاکا طیاروں کے شامل ہونے پر بڑا جوش و جذبہ اور چرچا جاری ہے۔ ایک ماہر نے کہا کہ ’پاکستان اپنے جشن کے ذریعے انڈین پراپیگنڈے کو رد کرنا چاہتا ہے۔‘
ماہرین کے مطابق جے-10 طیارہ ‘میری ٹائم’ (بحری یا سمندری) کردار کے لیے انتہائی موزوں ہے خاص طور پر بحیرۂ عرب کے گہرے پانیوں میں قسمت آزمائی کی پاکستانی بحریہ کی نئی سوچ کی روشنی میں۔
پاکستان کے موجود طیاروں میں کوئی ایسا طیارہ موجود نہیں جو سمندری یا بحری حدود میں امور کار انجام دینے کی بہترین صلاحیت رکھتا ہو۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی بحریہ نے اپنی ’سٹریٹیجک تھنکنگ‘ (جنگی حکمت عملی) کو از سر نو مرتب کیا ہے تاکہ وہ بحیرۂ عرب کی گہرائیوں میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ ایک ماہر نے بتایا کہ ’اس کردار کو بخوبی نبھانے میں جے-10 نہایت موثر اور کارگر کردار ادا کرے گا۔‘
ماہرین کے مطابق جے-10 بحری جہاز تباہ کرنے والے موثر میزائلوں سے لیس ہوتے ہیں۔
چین نے حال ہی میں پاکستانی بحریہ (نیوی) کو جدید ترین ‘فری گیٹ’ (بحری جنگی جہاز) فراہم کیے ہیں جو پاکستان کے عسکری عزائم کی تکمیل میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
جب سے پاکستان کی وفاقی حکومت نے چینی لڑاکا طیاروں کی یوم پاکستان کی پریڈ میں شمولیت کی تصدیق کی ہے، اس وقت سے علاقائی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ بحث جاری ہے کہ رفال اور جے-10 لڑاکا طیاروں میں سے کون سا طیارہ زیادہ بہتر ہے۔
کیا جے 10 ’میراج‘ طیاروں کا نعم البدل ہیں؟
پاکستانی ایئر فورس مشرف دور سے اپنے میراج طیاروں کے بیڑوں کو تبدیل کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
پاکستان نے میراج طیارے 1967 میں خریدے تھے۔ یہ پاکستان ایئر فورس کی فضائی قوت میں ’سٹریٹیجک فورس‘ کے طور پر بروئے کار آتے رہے ہیں لیکن اب یہ اپنی مدت پوری کر چکے ہیں۔
دفاعی ماہرین کے مطابق پاکستانی فوج کے منصوبہ سازوں میں یہ سوچ بہت ہی راسخ ہے کہ میراج طیاروں کو چینی ساختہ جے-10 طیاروں سے تبدیل کر دیا جائے جو نہ صرف دشمن کے علاقے کے اندر جا کر موثر کارروائی کرنے اور ہدف پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ انھیں سٹریٹیجک فورس کا بھی حصہ بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان ایئر فورس چینی ساختہ لڑاکا طیارے جے-10 کے چناﺅ کے پورے عمل سے پہلے ہی گزر چکی ہے تاکہ میراج طیاروں کو تبدیل کیا جائے جو آج کی تاریخ تک ممکنہ طور پر پاکستان فضائیہ کے سٹریٹیجک ہتھیاروں سے مسلح واحد طیارے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پی اے ایف میراج طیاروں کی جگہ جے-10 لانا چاہتی ہے جو میراج فلیٹ کا بہترین متبادل خیال ہوتے ہیں۔ یہ بھاری مقدار میں اسلحہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں لہذا سٹریٹیجک جوہری ہتھیار لے جانے کے قابل ہیں۔ ایک ماہر نے کہا کہ جے ایف-17 میں بھاری مقدار میں اسلحہ لے جانے کی استعداد نہیں۔ البتہ ایک ماہر نے نشاندہی کی کہ جے-10 لڑاکا طیاروں کو جے ایف-17 کے ساتھ مواصلاتی طور پر منسلک کیا جا سکتا ہے تاکہ دونوں طیارے میدان جنگ میں یکجائی و ہم آہنگی کے ساتھ ایک ساتھ بروئے کار آ سکیں۔
پاکستان کے پاس موجود ایف-16 اور دیگر مغربی ٹیکنالوجی کے حامل لڑاکا طیارے تکنیکی پابندیاں یا قدغنیں رکھتے ہیں خاص طور پر جب بات سٹریٹیجک جوہری ہتھیاروں کی ہو۔ جے ایف-17 چین اور پاکستان کی مشترکہ تیار کردہ کاوش ہے اور اس میں تکنیکی قدغنیں یا پابندیاں حائل نہیں۔ تاہم یہ ایک ہلکا طیارہ ہے اور بھاری مقدار میں اسلحہ نہیں اٹھا سکتا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ماضی میں حکومت پاکستان چین کی حکومت کے ساتھ بات چیت کے آخری مراحل میں تھی جب 150 جے-10 لڑاکا طیارے خریدنے کا پروگرام سرد خانے کی نذر ہو گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس کی وجہ اِن دنوں مالیاتی اور معاشی بحران تھا۔‘
’بہتر ہے تمام انڈے امریکی ٹوکری میں نہ رکھیں‘
جے-10 بنیادی طور پر لڑاکا طیارہ ہے جو حملے کی کارروائیوں میں استعمال ہو سکتا ہے۔
23 فروری 2003 کو جے 10 ساخت کا پہلا طیارہ چین کی ایئر فورس کی 13ویں ٹیسٹ ریجمنٹ کے حوالے کیا گیا تھا۔ اسی سال دسمبر میں اس لڑاکا طیارے کے ’آپریشنل‘ (قابل استعمال حالت میں) ہونے کا اعلان کیا گیا۔ اٹھارہ سال اس طیارے پر کام ہوتا رہا۔ ’جے-10 سی’ طیارے نے لڑائی کے لیے خدمات کی انجام دہی اپریل 2018 میں شروع کی تھیں۔
ابتدا میں اس طیارے کو پیپلزلبریشن آرمی و ایئر فورس کے لیے تیار کیا گیا تھا لیکن بعد میں چینی ہتھیار بنانے والی صنعت نے اسے برآمدی مقاصد کے لیے بھی بنانا شروع کر دیا۔
ایئر فورس کے ایک افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ 2010 میں پاکستان ایئر فورس جے-10 لڑاکا طیاروں کی ترقی کے عمل میں شامل ہوئی اور اس کے انجینیئرز نے نقشہ سازی اور اس کے بنانے میں حصہ لیا۔ ایک ماہر نے بتایا کہ ’یہ لڑاکا طیارہ پی اے ایف کے لیے نیا نہیں، ہمارے ہوا باز (پائلٹس) اسے اڑاتے رہے ہیں اور یہ ان کے لیے اجنبی نہیں۔‘
جے-10 ڈیل کے بارے میں سرکاری حلقوں میں ابہام اور شک اس امر پر جاری کشمکش کا نتیجہ ہو سکتی ہے کہ کون اس خریداری کے بارے میں پہلے اعلان کرتا ہے۔ طاقت کے ایوانوں کے اندر صورتحال خواہ کچھ بھی ہو لیکن ایک چیز بہرحال یقینی ہے کہ پی اے ایف اور سابقہ حکام اس ڈیل کو، جو اگر طے پا گئی، تو اسے پاکستان ایئر فورس کے فضائی بیڑے کے لیے ایک خوش آئند اضافہ سمجھتے ہیں۔
پی اے ایف کے سابق سینیئر پائلٹ قیصر طفیل نے کہا کہ ’اس کے باوجود یہ ایک خوش آئند اضافہ ہے، بہتر ہے کہ آپ اپنے تمام انڈے امریکی ٹوکری میں نہ رکھیں۔‘